شمالی اسرائیل کی وادیِ گلیلی میں نزرتھ شہر آج سے نہیں بائیس سو قبلِ مسیح سے بسا ہوا ہے۔یہاں حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی جنم ہوا۔عربی میں نزرتھ کو الناصرہ کہا جاتا ہے۔اس مناسبت سے مسیحوں کو نصاری کہا جاتا ہے۔ یعنی عیسی الناصری کے امتی۔نذرتھ یا الناصرہ مسیحوں کے لیے اتنا ہی مقدس ہے جتنا کہ مغربی کنارے کا قدیم شہر بیت الحم۔نزرتھ اس وقت اسرائیل کا سب سے بڑا عرب اکثریتی شہر ہے۔ضلع کی اٹھہتر ہزار آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ستر فیصد اور مسیحوں کا تناسب تیس فیصد ہے۔
نزرتھ یہودی آبادکاری کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا سرکردہ تاریخی مرکز رہا ہے۔یہاں خواندگی کی شرح اسرائیل کی یہودی آبادی کے ہم پلہ ہے۔یہاں سافٹ وئیر اور آئی ٹی انڈسٹری نے حالیہ برسوں میں خاصی ترقی کی ہے۔اس شہر میں گیارہ سافٹ وئیر کمپنیاں ہیں اور اسے اسرائیلی عربوں کی سلیکون ویلی کہا جاتا ہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی مسیحوں کا فلسطینی سماج کی ترقی اور مزاحمت میں ہمیشہ سے اہم تاریخی ، سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ، طبی اور معاشی کردار ہے۔
اسرائیلی عرب آبادی لگ بھگ بیس لاکھ ہے۔اس میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی مسیحی بھی شامل ہیں۔انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کی تشکیل سے ذرا پہلے جب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں اور زمینوں سے سنگینوں کے سائے تلے ہجرت پر مجبور کیا گیا تو اس میں جافہ ، حیفہ اور وادیِ گلیلی میں صدیوں سے بسنے والے مسیحی بھی شامل تھے۔ان میں سے کچھ نے اندرونی دربدری قبول کر لی مگر وطن نہیں چھوڑا۔
نزرتھ میں جو فلسطینی بطور اسرائیلی شہری اس وقت آباد ہیں ان میں سے اکثریت کے باپ دادا کو آس پاس کے قصبوں اور دیہاتوں سے اسرائیلی مسلح جتھوں نے جبراً بے دخل کیا اور پھر انھیں گھر واپسی کے بجائے دیگر اسرائیلی علاقوں میں بسنے کی اجازت مل گئی۔
ان اسرائیلی عربوں کو انیس سو چونسٹھ تک مارشل لا قوانین کے سائے تلے رہنا پڑا۔بہت سے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اردن ، شام اور لبنان ہجرت کر گئے۔مغربی کنارہ انیس سو اڑتالیس میں اردن کا حصہ تھا لہٰذا اکثر عرب مسلمان و مسیحی مغربی کنارے پر آن بسے۔مگر جون انیس سو سڑسٹھ میں دوبارہ اسرائیل کے مقبوضہ بن گئے اور مزید چار لاکھ فلسطینیوں کو دوسری بار ہجرت کرنا پڑی۔ان میں سے زیادہ تر اردن میں قیام پذیر ہیں کیونکہ انھیںمقبوضہ مغربی کنارے پر آنے کی اجازت نہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر سے لائے گئے سات لاکھ یہودیوں کو انیس سو سڑسٹھ سے اب تک مقبوضہ مغربی کنارے پر بسایا گیا ہے۔ مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی پر ستاون برس سے مارشل لا نافذ ہے۔جب کہ یہودی بستیوں پر اسرائیلی سویلین قوانین لاگو ہیں۔
ویسے فلسطین نے اقلیت و اکثریت کا جو کھیل پچھلے تین ساڑھے تین ہزار برس میں دیکھا ہے اس تجربے سے شاید ہی دنیا کا کوئی اور خطہ گذرا ہو۔ستر قبلِ مسیح میں رومنوں کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی کی دوسری بار بربادی کے بعد یہاں سے یہودیوں کو نکال دیا گیا۔رومنوں نے بعد ازاں مسیحیت قبول کر لی اور یوں فلسطین پہلی صدی عیسوی سے چھٹی صدی تک بازنطینی سلطنت کا حصہ بننے کے سبب مسیحی اکثریتی علاقہ بن گیا۔
ساتویں صدی ( چھ سو اڑتیس عیسوی) میں جب خلیفہِ راشد دوم حضرت عمر ابنِ خطاب کی قیادت میں مسلمانوں نے یروشلم بازنطینی سلطنت سے چھینا تو نہ صرف مقامی آبادی نے اسلام قبول کرنا شروع کیا بلکہ شام ، جزیرہ نما عرب اور مصر سے بھی مسلم قبائل اس زرخیز خطے میں بسنے شروع ہوئے۔تب سے یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔
اٹھارہ سو اسی کے بعد یہاں رفتہ رفتہ یورپی یہودی آباد کار آنے لگے اور پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی تولیتی نظام کی سرپرستی میں یہودی آباد کار بکثرت لائے جانے لگے۔ نتیجہ اکتیس برس بعد اسرائیل کی صورت میں نکلا۔البتہ نئی مملکتِ اسرائیل میں بھی یہودی اقلیت میں ہی تھے۔ان کی تعداد چھ لاکھ اور فلسطینیوں کی تعداد لگ بھگ تیرہ لاکھ تھی جس میں ایک لاکھ پینتیس ہزار فلسطینی عیسائی تھے۔مگر مقامی فلسطینیوں کو جبراً کھدیڑ کے ان کی اکثریت کو ریاستِ اسرائیل کو ملنے والی زمین پر اقلیت میں بدلا گیا۔
اتنی خونی تگ و دو اور نسل کشی کے باوجود تاریخی فلسطین ( اسرائیل ، غزہ ، مغربی کنارہ ) میں فلسطینیوں کی مجموعی آبادی آج بھی کم و بیش یہودیوں کے برابر ہے ( یہودی تہتر لاکھ ، فلسطینی اکہتر لاکھ )۔
ان میں سے پچاس لاکھ فلسطینی غزہ ، مغربی کنارے اور اسرائیل میں آباد ہیں اور بیس لاکھ بیرونِ فلسطین بکھرے ہوئے ہیں۔مجموعی فلسطینی آبادی میں مسیحوں کا تناسب اس وقت ساڑھے چھ فیصد ہے مگر نصف سے زائد فلسطینی مسیحی ( چھپن فیصد) وطن سے باہر ہیں۔ان کی بڑی تعداد یروشلم اور بیت الحم یا مضافات میں رہتی ہے۔ تقریباً نصف یونانی آرتھوڈکس چرچ کے پیروکار ہیں۔ ایک چوتھائی رومن کیتھولک ہیں اور باقی ایک چوتھائی پروٹسٹنٹ چرچ سمیت سات دیگر فرقوں سے ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینی مسلمان اور مسیحوں میں پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہودی آبادکاروں کی مزاحمت میں دونوں فلسطینی برادریوں نے مساوی حصہ ڈالا اور برابر کے مصائب جھیلے۔بھلے وہ برطانوی نوآبادیاتی دور کی یہود نواز پالیسی کے خلاف انیس سو چھتیس سے انتالیس تک کی غیر مسلح سیاسی جدوجہد ہو یا اسرائیل کے قیام کے بعد مسلح جدوجہد ہو یا دو مزاحمتی انتفادہ تحریکیں ہوں یا غزہ کی موجودہ نسل کشی۔
غزہ میں اس وقت فلسطینی مسیحی آبادی لگ بھگ ایک ہزار ہے۔مگر وہ بھی اپنے اکثریتی مسلمان بھائیوں کی طرح ہلاکت ، فاقہ کشی اور دربدری جھیل رہے ہیں۔اسرائیلی بمباری سے جہاں غزہ کی اسی فیصد مساجد شہید ہو گئی ہیں۔وہیں پانچویں صدی کا سینٹ پورفئیرس چرچ ، جبالیہ کا سترہ سو برس قدیم بازنطینی چرچ ، غزہ سٹی کا ہولی فیملی چرچ ، دیر البلاح کی سینٹ ہلیارون خانقاہ ، وائی ایم سی اے مرکز اور اٹھارہ سو بیاسی میں یروشلم کے ایپیسکوپل چرچ کی امداد سے قائم ہونے والا فلسطین کا پہلا کینسر شفاخانہ ال اہلِ عرب اسپتال بھی نہ بچ سکا۔
ان تمام گرجوں اور اسپتال کے احاطوں میں ہزاروں فلسطینی موجود ہیں اور چودہ ماہ میں ان میں سے لگ بھگ سات سو پناہ گزین آسمان اور زمین سے مسلسل برسنے والی موت اور بھوک کی خوراک بن چکے ہیں۔سب سے زیادہ ہلاکتیں اہلِ عرب اسپتال میں ہوئیں جہاں گزشتہ برس سترہ اکتوبر کو ایک ہی فضائی حملے میں پانچ سو سے زائد مریض ، پناہ گزین ، ڈاکٹر اور پیرامیڈکس شہید ہو گئے۔( جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)