بے چارہ گنڈا پور

یہ پی ٹی آئی کا واحد لیڈرہے جو عملی طور پر بانی پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہا ہے


جاوید چوہدر ی December 03, 2024

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو چھوٹے ذلفی کے ساتھ ہوتا تھا‘ چھوٹا ذلفی استاد ظفری کے ساتھ کام کرتا تھا‘ یہ لوگ بند روڈ پر موٹر مکینک تھے‘ استاد ظفری کے پاس پانچ چھوٹے تھے لیکن چھوٹا ذلفی ان سب میں متحرک بھی تھا اور اسے کام بھی آتا تھا‘ مرمت کا 90 فیصدکام یہ کرتا تھا لیکن عجیب بات تھی اسے ہر رورز گاہکوں اور استاد دونوں سے مار پڑتی تھی‘ کام میں روز کوئی نہ کوئی کمی بیشی رہ جاتی تھی یا یہ وقت پر مکمل نہیں ہوتا تھا لہٰذا گاہک اس پر چڑھ جاتے تھے۔

 وہ فطرتاً ہمدرد انسان تھا‘ وہ گاہکوں کے معمولی کام عموماً فری کر دیتا تھا‘ اس پر استاد ناراض ہو کر اسے طعنہ دیتا تھا تم اگر سارے کام فری کرتے رہو گے تو دکان کا کرایہ‘ بجلی کے بل اور تنخواہیں تمہاری ماں دے گی‘ ذلفی کو ماں سے بہت پیار تھا‘ وہ ماں کی گالی سن کر ادب سے کہتا تھا ’’استاد جی ماں کی بات نہ کریں‘ آپ بے شک مجھے مار لیں‘‘ اور استاد اکثر اس کا یہ مطالبہ پورا کر دیا کرتا تھا‘ وہ اسے جوتے سے پھینٹا لگا دیتا تھا‘ ورکشاپ کے ساتھ چھوٹا سا چائے خانہ تھا‘ اس کا مالک روزانہ چھوٹے ذلفی کو مار کھاتا دیکھتا تھا‘ اسے اس پر ترس آتا تھا اور وہ اسے پیار سے سمجھاتا تھا بیٹا تم دن رات ایک کر دیتے ہو‘ پوری ورکشاپ تمہاری محنت سے چل رہی ہے لیکن اس کے باوجود تم مار کھاتے ہو‘ تم استاد ظفری کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘ چھوٹا ذلفی مسکرا کر جواب دیتا تھا ’’چچا استاد میرا محسن ہے۔

 میں کچھ بھی نہیں تھا‘ استاد نے مجھے نوکری بھی دی اور کام بھی سکھایا‘ میں آج اس کی مہربانی سے مکینک ہوں‘ میرا ضمیر گوارہ نہیں کرتا میں آج اسے چھوڑ کر چلا جاؤں‘‘ چچا کو اس کی وفاداری پر پیار آ جاتا تھا‘ ایک دن چھوٹے ذلفی نے گاہک اور استاد دونوں سے جی بھر کر مار کھائی اور پھر چائے خانے کے مالک کے پاس بیٹھ کر پہلی مرتبہ پوچھا ’’چچا ورکشاپ پر میرے ساتھ پانچ شاگرد ہیں‘ یہ سارے نالائق‘ کام چور اور چاپلوس ہیں‘ یہاں صرف میں کام کرتا ہوں لیکن استاد برا بھلا بھی صرف مجھے کہتا ہے‘ اسے دوسرے شاگرد نظر کیوں نہیں آتے؟ دوسرا گاہک بھی صرف میری بے عزتی کرتے ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ چائے خانے کے مالک نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’بات سیدھی ہے۔

 ان سب میں صرف تم کام کرتے ہو اور ہمارے معاشرے میں جو شخص کام کرے‘ مار بھی اسے ہی پڑے گی‘ تمہارے ساتھی چالاک ہیں‘ یہ کام نہیں کرتے چناں چہ یہ استاد کی مار اور گاہکوں کی پھٹکار دونوں سے بچے رہتے ہیں‘ تم بھی اگر بچنا چاہتے ہو تو کام بند کردو‘ تمہیں بھی کوئی کچھ نہیں کہے گا‘‘ چھوٹے ذلفی نے یہ سن کر قہقہہ لگایا‘ چائے خانے کے مالک کا کہنا تھا ’’میں اپنے استاد کے پاس کپ دھویا کرتا تھا‘ مجھ سے جب بھی کوئی کپ ٹوٹ جاتا تھا تو استاد مجھے مارتا تھا اور وہ ہمیشہ مارتے وقت یہ بھول جاتا تھا مجھ سے اگر ایک کپ ٹوٹ گیا ہے تو میں نے ڈیڑھ سو کپ دھوئے بھی ہیں۔

 استاد کو کبھی وہ ڈیڑھ سو صاف ستھرے کپ دکھائی نہیں دیے‘ اسے ہمیشہ ٹوٹا ہوا کپ نظر آتا تھا اور مجھے اس کی سزا بھگتنی پڑتی تھی جب کہ باقی لڑکے کیوں کہ کام نہیں کرتے تھے لہٰذا انھیں مار بھی نہیں پڑتی تھی‘ میں نے اس سے یہ سیکھا ہم اگر کام کریں گے تو پھر ہماری بے عزتی بھی ہو گی اور ہمیں مار بھی پڑے گی‘‘۔

بے چارہ گنڈا پور بھی چھوٹا ذلفی ہے‘ یہ پی ٹی آئی کا واحد لیڈرہے جو عملی طور پر بانی پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہا ہے‘ اس نے خان کے لیے پانچ بڑے مظاہرے کیے‘ اسے جب بھی کہا گیا یہ جیسے تیسے گرتا پڑتا بیس تیس ہزار لوگوں کو اسلام آباد اور لاہور لے کر پہنچا‘ اس کے لیے اس نے مالی نقصان بھی اٹھایا‘ ایم پی ایز کی جھڑکیاں بھی سنیں‘ بیوروکریسی کا انکار بھی برداشت کیا‘ اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی بھی سہی اور آخر میں پولیس کے ڈنڈے اور ٹنوں کے حساب سے آنسو گیس بھی برداشت کی اور اس کے بعد اسے غائب بھی ہونا پڑا‘ اسے گرفتار ورکرز کی رہائی کے لیے بھی کوششیں کرنا پڑیں۔

 اس نے ورکرز کے لیے وکیلوں کا بندوبست بھی کیا‘ لواحقین کے گھر راشن اور پیسے بھی بھجوائے اور جیلوں میں ان کی مدد بھی کی اور اس سب کے بعد اس نے جم کر پوری پارٹی اور عمران خان سے بے عزتی بھی کرائی جب کہ باقی لیڈرز نے آج تک ٹک ٹاک اور ٹویٹس کے علاوہ کچھ نہیں کیا‘ یہ گھر میں بیٹھ کر چار پانچ منٹ کی تیزابی تقریر کرتے ہیں‘ عوام کو انقلاب کے لیے باہر نکلنے اور تبدیلی لانے کی دعوت دیتے ہیں‘ موٹر سائیکل پربیٹھ کر سوا منٹ کی وڈیو بناتے ہیں‘ بسوں کے ساتھ کھڑے ہو کر وی کا نشان بناتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں اور آخر میں گنڈا پور پر چڑھ جاتے ہیں۔

 آپ خان اور پاکستان تحریک انصاف کا کمال دیکھیے‘ اس نے آج تک ان لوگوں سے یہ بھی نہیں پوچھا تم آخر غائب کہاں ہو جاتے ہو‘ تم ہر احتجاج سے پہلے گرفتار کیسے ہو جاتے ہو اورچند دن بعد تمہیں رہا کیوں کر دیا جاتا ہے اور پارٹی تم سے جب بھی فنڈ مانگتی ہے تو تمہاری جیب کیسے کٹ جاتی ہے‘تم آرام سے گھر میں کیوں بیٹھے ہو اور تمہارا کاروبار بھی کیوں چل رہا ہے؟ گنڈا پور کی تمام تر مخالفت کے باوجود میں یہ ماننے پر مجبور ہوں اس شخص نے پانچ مرتبہ ورکرز کو بھی نکالا‘ یہ انھیں اسلام آباد اور لاہور بھی لے کر گیا‘ اس نے پولیس اور رینجرز کا مقابلہ بھی کیا اور یہ آخر میں اپنے کارکنوں کو صحیح سلامت واپس بھی لے کر گیا‘ دوسرا اس نے احتجاج کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی راضی رکھا‘ یہ وفاقی حکومت کے ساتھ بھی چلتا رہا‘ اس نے پارٹی کو پشاور میں پناہ بھی دی‘ پارٹی کے تیسرے درجے کے لوگوں کی گالیاں اور طعنے بھی سنے‘ پارٹی کے اندر موجود مخالف گروپوں کو بھی فکس کیے رکھا۔

 اپنی وزارت اعلیٰ بھی بچائی‘ گورنر راج سے بھی بچا رہا اور خان کو بھی جیسے تیسے راضی رکھا‘ پارٹی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے بشریٰ بی بی کو بھی گنڈا پور نے رہا کرایا تھا اور یہ اسے پشاور بھی لے کر گیا‘ آج اگر بشریٰ بی بی اقتدار کو انجوائے کر رہی ہیں یا پارٹی کے پانچ سو لیڈرز کو اکٹھا کر کے ہدایات دے رہی ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ علی امین گنڈا پور کو جاتا ہے‘ پارٹی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بھی حقیقت ہے گنڈا پور ہر بار احتجاج بھی کر لیتا تھا اور ورکروں کو مار پڑنے سے بھی بچا لیتا تھا لیکن بشریٰ بی بی نے ایک بار احتجاج کیا اور اس کے بعد پارٹی کو دوسرے احتجاج کے قابل نہیں چھوڑا‘ بشریٰ بی بی اور مراد سعید کی حماقت کی وجہ سے ریاست کا خوف ختم ہو گیا۔

 ریاست یہ جان گئی پارٹی کو بھگانے کے لیے صرف دس منٹ کافی ہوتے ہیں‘ ٹھیک دس منٹ بعد گنڈا پور ہوتے ہیں نہ بشریٰ بی بی اور نہ ہی وہ غیرت مند جو سر پر کفن باندھ کر آئے تھے اور جنھوں نے خان کی رہائی تک اسلام آباد میں بیٹھنا تھا‘ بشریٰ بی بی کی سیاسی حماقت نے کارکنوں کا حوصلہ بھی توڑ دیا‘ لوگ سمجھ گئے ہم اگر اگلی بار اسلام آباد آئے تو ہمیں پہلے سے زیادہ پھینٹا بھی پڑے گا اور ہم جیلیں اور مقدمے بھی بھگتیں گے اور پارٹی پیچھے مڑ کر ہمارا حال احوال بھی نہیں پوچھے گی چناں چہ اگلی کال پر کوئی شخص اسلام آباد آنے کی غلطی نہیں کرے گا لیکن اس سب کے باوجود گنڈا پور چھوٹا ذلفی ہے اور پوری پارٹی اسے لتاڑ رہی ہے۔

آپ پی ٹی آئی کے پانچوں احتجاجوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں‘ پنجاب سے کون نکلا تھا یا کس نے پنجابی کارکنوں کو نکالا تھا‘ کوئی ایک بھی نہیں‘ کراچی یا سندھ سے اسلام آباد کون آیا تھا‘ ڈاکٹر عارف علوی کا سروں کا سمندر کہاں رہ گیا تھا اور حماد اظہر‘ سلیمان اکرم راجہ‘ وقاص اکرم اور لطیف کھوسہ کے جان نثار کہاں تھے‘ بلوچستان کا سونامی کس جگہ رک گیا تھا‘ آزاد کشمیر کے مجاہدین کوہالہ تک کیوں نہیں پہنچ سکے اور گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید سنگ جانی میں تقریر کے بعد کہاں غائب ہو گئے تھے‘ گوہر خان کے قافلے ہر بار کہاں رہ جاتے ہیں اور کے پی کے بڑے سیاسی خاندان خان کے ٹائیگرز کو اسلام آباد کیوں نہیں لا پاتے؟ آج تک کسی نے ان سے پوچھا؟ جی نہیں‘ یہ لوگ کیوں کہ برتن دھوتے ہی نہیں ہیں‘ یہ گیلی مٹی پر قدم ہی نہیں رکھتے چناں چہ ان سے کوئی سوال نہیں کرتا جب کہ گنڈا پور نے پارٹی اور خان کی رہائی کی صلیب اٹھا رکھی ہے‘ اس لیے اسے مار بھی پڑتی ہے۔

 پھٹکار بھی اور یہ ریاست اور خان دونوں کا دین دار بھی بن جاتا ہے‘ پارٹی میں ایک طرف مراد سعید‘ حماد اظہر اور وقاص اکرم جیسے بہادر‘ جرات مند اور بے باک لوگ ہیں‘ ایسے بے باک اور جرات مند لوگ جو تہہ خانوں سے سر باہر نکالنے کی غلطی بھی نہیں کر رہے‘ جو چھپ کر خفیہ جگہ سے عوام کو انقلاب کی دعوت دیتے ہیں‘ جو انھیں بتاتے ہیں ’’تم اگر اب نہیں نکلتے تو پھر کبھی نہیں نکل سکو گے‘‘ اور دوسری طرف گنڈا پور جیسے مسکین‘ کم زور اور بزدل لوگ ہیں جو ہر بار میدان میں آتے ہیں‘ مار کھاتے ہیں‘ پارٹی کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں اور آخر میں ان کی نیت پر بھی شک کیا جاتا ہے چناں چہ مجھے واقعی گنڈا پور مظلوم محسوس ہوتا ہے۔

 میں اس کی تمام تر مخالفت کے باوجود یہ بھی سمجھتا ہوں اگر گنڈا پور وزیراعلیٰ نہ ہوتے تو پی ٹی آئی اب تک کے پی سے بھی فارغ ہو چکی ہوتی یہاں فارورڈ بلاک بن چکا ہوتا یا پھر گورنر راج لگ چکا ہوتا اور پارٹی پنجاب کی طرح کے پی میں بھی سر چھپاتی پھر رہی ہوتی لیکن کیوں کہ یہ پارٹی دلچسپ لوگوں کی پارٹی ہے چناں چہ یہ ہمیشہ ایک کپ ٹوٹنے پر برتن دھونے والے کی مرمت کر دیتی ہے اور اس وقت علی امین گنڈا پورکی مرمت ہو رہی ہے‘ بے چارہ گنڈا پور۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے