پگڑی سسٹم یا ’’پگڑی اتار‘‘ سسٹم

تیس چالیس سال پہلے جائیداد کو مالکانہ حقوق کے ساتھ بیچنے یا خریدنے کے بجائے پگڑی سسٹم ہی عام تھا

(تحریر: سہیل یعقوب)

میرے محلے میں قریب ہی ایک تجارتی علاقہ ہے جہاں سے محلے کے لوگ ناشتے کا سامان، تازہ پھل و سبزیاں اور روزمرہ کی دیگر اشیاء خریدتے ہیں۔ اسی تجارتی علاقے میں ایک رہائشی عمارت ہے جس کی زمینی منزل پر کچھ دکانیں بھی ہیں۔ زیادہ تر دکانیں درزیوں کی ہیں جو خواتین کے کپڑوں کی سلائی کا کام کرتے ہیں۔ ان دکانوں میں ایک ہی دوکان ہے جو مردانہ ’’پوشاک‘‘ کی ہے۔

ایک دوپہر کو میں کچھ روزمرہ کا سامان خریدنے جب اس علاقے میں گیا، میں عموماً ایک مخصوص دکان کے سامنے اپنی گاڑی کھڑی کرتا ہوں اور یوں اس دکاندار مجید سے بھی علیک سلیک ہوجاتی ہے۔ اس دن مجھے وہ کچھ غیرمعمولی طور پر سوچوں میں گم نظر آئے۔ اتفاق سے اس وقت ان کے پاس کوئی گاہک بھی نہیں تھا۔ میں نے ان کی گہری سوچ کی وجہ دریافت کی اور انھوں نے جو وجہ بیان کی وہی آج کی اس تحریر کی تحریک بنی ہے۔

مجید نے بتایا کہ آج سے چالیس سال پہلے انھوں نے ایک لاکھ روپے کے عوض پگڑی پر یہ دکان حاصل کی تھی۔ اب پرانے مالک نے یہ عمارت فروخت کردی ہے اور نیا مالک اس پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ان کا معاہدہ چونکہ کرایے کا تھا اور اس طرح کے معاہدوں میں پگڑی کی رقم کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، اس لیے نئے مالک نے عدالت کے ذریعے ان سے دکان خالی کروانے کا نوٹس بھجوایا ہوا ہے جو باہر کی دیوار پر چسپاں تھا۔ لامحالہ ان حالات میں کسی بھی شخص کا گہری سوچ میں ڈوبے ہونا ایک فطری سی بات ہے۔

اب سے کوئی پچیس تیس سال پہلے یا اس بھی زائد عرصے پہلے ہمارے یہاں پگڑی کا ہی نظام ہوتا تھا اور جائیداد کو مالکانہ حقوق کے ساتھ بیچنے یا خریدنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ معاشرے میں اس طرح کے معاہدوں کا، جوکہ ہرچند کاغذات پر نہ بھی ہوں، پر اس کا احترام کیا جاتا تھا۔ کاغذات میں پگڑی کی رقم اس لیے درج نہیں کی جاتی تھی کیونکہ قانون  میں پگڑی کے نظام کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ جو رہی سہی کسر اس قانون کے حوالے سے تھی وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ختم کردی گئی، جب ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کو بالکل ہی کالعدم قرار دے دیا گیا۔

اس قانون نے بالواسطہ یا  بلاواسطہ طور پر کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ہے جنھوں نے اپنی تمام جمع پونجی سے جو کچھ حاصل کیا تھا آج قانون اس کو ماننے سے عاری ہے۔ حرص اور طمع نے تمام نئے اور پرانے مالکان کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی باندھ دی ہے اور انھیں صرف منافع نظر آرہا ہے، کسی کی دنیا اجڑتی ہے تو اجڑے، انھیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ انھیں کسی کا برباد ہونا بالکل بھی نظر نہیں آرہا یا وہ شاید اسے دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

معاشرے میں ریاست اور قانون اسی لیے ہوتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں کمزور کا دفاع کرے اور کسی کو بھی اس کی طاقت یا پیسے کے بل بوتے پر عام لوگوں کا استحصال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہمارے یہاں تو ویسے بھی معاملہ الٹا ہے اور حادثے کے بعد حکومت کہتی ہے کہ کسی کو حادثہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ استحصالی لوگ کیا اجازت لے کر حادثہ برپا کرتے ہیں؟ ایسے واقعات کو تو ہونے سے پہلے روکنا ہی حکومت کی ذمے داری ہے۔

مجھے نہیں پتہ کہ ارباب اختیار تک میری یہ تحریر پہنچتی ہے یا نہیں، لیکن اگر کوئی اس کو ان تک پہنچا سکتا ہے تو میری ان سے درخواست ہے اس معاملے کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور کوئی تاریخ مقرر کی جائے کہ اس تاریخ سے پہلے ہونے والے ایسے تمام معاہدوں کا احترام کیا جائے کہ جس کے گواہان یا ثبوت موجود ہوں۔

ہمارے مجید بھائی کو نئے مالک دکان خالی کرنے کے عوض ایک مضحکہ خیز رقم کی پیشکش کررہے ہیں جو ان چالیس سالوں کی پچاس ہزار روپے فی سال سے بھی کم بن رہی ہے۔ چالیس سال پہلے جو ایک لاکھ روپے دیے گئے تھے اس کی آج کے موجودہ حالات میں کم از کم مالیت بھی ایک کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ایسے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے اور ان لوگوں کو بازار کی مالیت کے مطابق قیمت اور ان کا حق دلایا جائے۔ 

ایک آخری بات۔ عدل اور انصاف پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کہا حرف آخر ہے کہ ’’ریاست کفر کے ساتھ تو رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتی‘‘۔ یہ ریاست تو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اور اگر یہاں بھی ظلم ہوا تو سمجھ لیجیے کہ کہیں ریاست کے حصول پر سوال نہ اٹھ جائے۔ اس لیے ایسا وقت آنے سے پہلے ایسے تمام ظالمانہ قوانین کا خاتمہ کیا جائے اور اصل اور جائز حق داروں کو ان کا حق دلایا جائے تاکہ ان کے سروں پر پگڑی قائم رہے اور کوئی ظالم اس پگڑی کو نہ اتار سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story