نابینا افراد اہم شاہراہوں سمیت دیگر مقامات پر آمدورفت کیلیے سہولیات سے محروم
شہر کی اہم شاہراہوں، انٹرسیکشن، پیڈسٹرین برجز، ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ اور دیگر مقامات پر نابینا افراد کی آمدورفت کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں ہے، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار نے نابینا افراد کا چلنا پھرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں نابینا افراد کی آمد ورفت کے لیے ٹیکٹائل ٹائلز اور آڈیو سسٹم نصب ہیں جن کی رہنمائی سے نابینا افراد نہ صرف بآسانی سڑک پار کرتے ہیں بلکہ بسوں اور ریل میں سوار بھی ہوتے ہیں۔ کراچی شہر میں صرف بس ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم کی دو لائنوں اورنج لائن اور گرین لائن میں یہ ٹیکٹائل ٹائلز نصب ہیں۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ اربن انفراسٹرکچر اینڈ انجینرنگ کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر سید امیر حسین کا کہنا ہے کہ روڈ ڈیزائنر نے یہاں سڑک کا ڈیزائن بناتے وقت گاڑیاں چلانے والوں کا خیال تو رکھا ہے لیکن پیدل چلنے والوں بالخصوص نابینا اور معذور افراد کے لیے سہولیات نہیں رکھیں ہیں۔ اصولی طور پر سڑک کا ڈیزائن بناتے وقت سب سے کمزور فرد کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن تشکیل دینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ حضرت علی کا قول ہے اندھا وہ نہیں جس کی آنکھیں نہیں ہیں بلکہ اندھا وہ ہے جس کی آنکھیں ہیں لیکن اسے نظر نہیں آتا۔ یہ قول ہمارے منصوبہ سازوں پر بالکل صحیح بیٹھتا ہے۔ جن کو پلاننگ کرتے وقت شہر کے مجموعی مسائل نظر نہیں آتے۔ پلاننگ کرتے وقت معاشرے کے سب سے کمزور فرد نابینا کو مدنظر رکھا جانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس منصوبہ سازوں نے صرف گاڑیاں چلانے والوں کے لیے سہولیات فراہم کیں۔
امیر حسین نے کہا کہ سگنل فری کوریڈور زیادہ نہیں ہونے چاہیے کیونکہ ان کی تعمیر سے گاڑیوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے جس سے حادثات بڑھ گئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر پیدل چلنے والے ہیں۔ سگنل فری کوریڈور سے عام پیدل چلنے والوں بالخصوص معذور و نابینا کو سڑک پار کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ پیڈسٹرین برجز کی تعداد بہت کم ہے۔ پیڈسٹرین برجز پر معذور و نابینا کے لیے لفٹ یا ریمپ تعمیر نہیں کیے گئے ہیں۔ لفٹ کی سہولت کا کام کم بحٹ میں سولر سسٹم کے ذریعے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں Pelican Signal نہیں لگے ہیں جو معذور و نابینا اور دیگر پیدل چلنے والوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ان سگنل کا بٹن دبانے سے گاڑیوں کے لیے سگنل لال ہو جاتا ہے اور دیگر پیدل چلنے والوں کے لیے سبز ہو جاتا ہے، شہر کی فٹ پاتھوں پر بے تحاشا تجاوزات قائم ہیں جہاں عام انسان کا گزرنا مشکل ہے۔ ان حالات میں نابینا افراد کے لیے فٹ پاتھ پر چلنا پھرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے اور وہ مجبوراً سڑک پر چلتے ہیں جس سے ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں، ان فٹ پاتھوں کو قابضین سے آزاد کرانا ہوگا۔
امیر حسین نے کہا کہ شہر میں سگنلزائشین اور زیبرا کراسنگ بنانا چاہیے، ہر شخص 25فٹ اونچے پیڈسٹرین برج پر نہیں چڑھ سکتا۔ ٹریفک سگنل کی تنصیب سے پیدل چلنے والوں بالخصوص نابینا، معزور، بزرگ، بچے اور خواتین کو سڑک پار کرنے میں آسانی ہوگی۔
ایکسپریس ٹریبیون کے سروے اور دیگر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں کسی مقام پر Pelican Signal نہیں لگا ہے، جو نابینا اور معذوروں کو سڑک پار کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے، 80ء کے عشرے میں آغا خان اسپتال کے پاس اور یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد کے پاس یہ Pelican Signal نصب کیے گئے تھے جو نگہداشت نہ ہونے کے باعث سالوں قبل متروک ہوگئے، دنیا کے بیشتر ممالک میں نابینا افراد کی آمد ورفت کے لیے Tactical Ground Surface Indicator (TGSI) اور(ATTS) Audio Tactical Traffic Signal نصب ہیں، کراچی میں صرف اورنج لائن اور گرین لائن میں ٹی جی ایس آئی نصب ہے، اے ٹی ٹی ایس کہیں نصب نہیں ہے جو کہ آواز کے ذریعے نابینا افراد کو سڑک پار کرنے میں سہولت پہنچاتا ہے۔
ٹریفک انجیئنرنگ بیورو کے متعلقہ حکام نے کہا ہے کہ آئی آئی چندریگر پر کچھ عرصہ قبل ٹریفک کے لیے نئے سگنلز نصب کیے گئے ہیں، ان سگنلز کے ساتھ ہی نابینا اور معذور افراد کے لیے ٹی جی ایس آئی اور اے ٹی ٹی ایس کی تنصیب کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
سندھ انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے جنرل منیجر آپریشنز عبدالعزیز نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اورنج لائن اور گرین لائن پر ٹیکٹائل ٹائلز نصب ہیں جو نابینا افراد کو بس پلیٹ فارم تک پہنچنے میں رہنمائی کرتے ہیں، یہ ٹائلز سڑک یا فٹ پاتھ کی عام سطح سے ناہموار uneven ہوتے ہیں اور نابینا افراد کو باقاعدہ محسوس بھی ہوتے ہیں، یہ اصل میں نابینا افراد کو راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ٹیکٹائل ٹائلز گرین لائن، اورنج لائن کے 26اسٹیشنوں پر نصب ہیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ کے صدر مظفر علی قریشی نے بتایا کہ سرکاری سطح پر نابینا افراد کی تعداد کے تعین کے لیے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ سندھ میں ہمارے پاس 4 ہزار سے زائد نابینا پن میں مبتلا افراد رجسٹرڈ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نابینا افراد کے لیے سرکاری اداروں، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنز یا شاہراہوں پر نقل و حمل کے لیے کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مخصوص اشارے موجود ہیں، جس کی وجہ سے نابینا افراد کو روز مرہ کی زندگی میں چلنے پھرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ وہ ازخود روڈ پار نہیں کر سکتے یا کسی بس، ٹرین یا ہوائی جہاز میں سوار ہو سکتے ہیں۔ لازمی طور پر انہیں انسانی مدد کی ضرورت ہوتی ہے یا سفید چھڑی ان کا سہارا ہوتی ہے، جس کی مدد سے وہ حرکت کرتے ہیں۔
شاہراہوں کی تعمیر سے منسلک کمپنی کے ایک سول انجینیئر علی سہیل صدیقی نے بتایا کہ نابینا افراد کی سہولت کے لیے سڑکوں یا راستوں یا فٹ پاتھوں یا عوامی مقامات پر ٹیکٹائل پیوننگ استعمال کی جاتی ہے۔ یہ خاص قسم کا فرش ہوتا ہے، جس میں نابینا یا کم بینائی والے لوگوں کو حفاظتی معلومات پہنچانے کے لیے اوپر کی لکیریں، گنبد یا دیگر ساکھ کی خصوصیات بنائی جاتی ہیں۔ بڑے گنبد یا لکیریں اسٹاپ کے نشان کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں جبکہ زیادہ باریک لکیریں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ راستہ چلنے کے لیے محفوظ ہے۔
انہوں نے کہا افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں شاہراہوں اور سڑکوں، سرکاری دفاتر یا ٹرانسپورٹیشن نظام سمیت ایئرپورٹ، بس اسٹاپس اور ریلوے اسٹیشنز پر یہ سہولیات موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے نابینا افراد کو سفر کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر شاہ نواز منعمی کے مطابق پاکستان میں تقریبا 20 لاکھ افراد نابینا پن کا شکار ہیں، جس میں سندھ میں 3 لاکھ 45 ہزار سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔
حکومت سندھ کے محکمہ برائے بحالی و بااختیار شعبہ خصوصی افراد کے حکام کے مطابق سندھ میں تقریبا 3 لاکھ 56 ہزار 445 افراد ممکنہ طور پر بینائی سے محروم ہو سکتے ہیں۔ 2024 ء تک رجسٹرڈ نابینا افراد کی تعداد 5961 ہے، جو حکومت سندھ کے ادارے ڈی پی ای ڈی میں رجسٹرڈ ہیں اور ان کی بحالی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ نابینا افراد کو ہوائی سفر میں سہولت متعلقہ ایئرلائن فراہم کرتی ہے اور ضرورت پڑنے پر ہمارا اسٹاف بھی اس حوالے سے رہنمائی کرتا ہے۔
محکمہ بلدیات اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی کی شاہراہوں اور فٹ پاتھوں سمیت ٹرانسپورٹیشن نظام میں نابینا افراد کے سفر کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
محکمہ ریلوے کراچی کے حکام نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ریلوے اسٹیشنز پر نابینا افراد کے لیے کوئی نظام نہیں ہے تاہم اس حوالے سے جلداقدامات اٹھائے جائیں گے۔