کراچی سمیت پورے سندھ کے سرکای کالجوں میں اساتذہ کی شدید کمی مناسب اورمعیاری تدریسی ماحول کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے اورکمپیوٹرسائنس سمیت کچھ اورمضامین ایسے ہیں جن کے اساتذہ سرکاری کالجوں میں موجود ہی نہیں ہیں جس کے سبب کراچی کے بیشترسرکاری کالجوں میں مختلف مضامین کی تدریس ہوہی نہیں پاتی۔
محکمہ کالج ایجوکیشن طلبہ کوکالجوں میں تمام مضامین کی تدریس فراہم کرنے میں ناکام ہے محتاط اندازے کے مطابق صرف کراچی کے سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی اس وقت بھی کم و بیش 2300سے زائد نشستیں خالی ہیں جبکہ اس سلسلے میں محکمہ کالج ایجوکیشن کے جانب سے کی جانے والے بظاہرکوششوں کے کوئی قابل ذکرثمرات بھی سامنے نہیں آرہے ہیں اورحال ہی میں محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ کے کراچی کے ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک خط میں اس صورتحال کومزید آشکارکردیاہے۔
سرکاری کالجوں کے پرنسپلز کے نام لکھے گئے خط میں "پرنسپلز کواپنے اپنے اداروں میں تدریسی سلسلے کے لیے کلاسز کے انعقاد کویقنین بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگست سے شروع کیاگیااکیڈمک سیشن تین ماہ سے زائد کاعرصہ پوراکرچکا ہے اورخیال کیاجارہاہے کہ اس اثناء میں تین ماہ تک کا کورس پلان مکمل ہوچکاہوگا۔
اس خط میں خود ڈائریکٹرکالجز کراچی کی جانب سے اس بات کاانکشاف کیا گیا ہے کہ ان کے علم میں یہ بات ۤآئی ہے کہ کچھ کالجوں نے کورس پلان کے مطابق تدریس مکمل نہیں کی اورمطلوبہ کلاسز کا انعقاد نہیں کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے کلاسز کے بروقت انعقاد کے ہدف کوحاصل کرنے کے سلسلے میں اگر اساتذہ کی کمی ہے تووہ کالج پرنسپلز دیگردستیاب اساتذہ کے ذریعے کالج کلاسز کاانعقاد کراسکتے ہیں۔
خط میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اگرکوئی استاد اس سلسلے میں کالج انتظامیہ سے تعاون نہیں کرتا تو اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ کا انظباطی کارروائی کے لے اطلاع کی جائے۔
واضح رہے کہ اس خط سے کراچی کے سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی کمی کامعاملہ خود ابھر کرسامنے آگیا ہے جبکہ دیگرمضامین کے اساتذہ سے کسی دوسرے مضمون کی تدریسی کروانے کی رائے پر بھی ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔
خط میں جس معیاری اورمسلسل تدریس کی بات کی گئی ہے وہ کسی دوسرے مضمون کے استاد کے ذریعے ممکن ہوسکے۔
’’ایکسپریس‘‘ نے اس سلسلے میں جب ریجنل ڈائریکٹر کالج کراچی پروفیسر فقیر محمد لاکھو سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’اساتذہ کی کمی سے زیادہ مسئلہ کالجوں میں ریشنل بنیادوں پر اساتذہ کی تعیناتی کا ہے، کچھ ایسے کالجز ہیں جہاں ایک ایک مضمون کے 7 یا اس سے بھی زیادہ اساتذہ ہیں جبکہ کچھ دوسرے کالجوں میں اسی مضمون کا ایک استاد بھی موجود نہیں ہم اس ریشنلائزیشن پر کام کررہے ہیں اورسیکریٹری کالج ایجوکیشن کی جانب سے اس سلسلے میں تبادلے بھی کیے گئے ہیں جبکہ سندھ پبلک سروس کمیشن سے بڑی تعداد میں اساتذہ جلد کالجوں ملنے والے ہیں‘‘۔
علاوہ ازیں محکمہ کالج ایجوکیشن سے کراچی کے ڈیڑھ سو سے زائد سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی خالی اسامیوں کی حاصل ہونے والی ۤآفیشل تفصیلات کے مطابق اساتذہ کی 5477 اسامیوں میں سے اس وقت 2360 خالی پڑی ہیں اور 3117 پر اساتذہ کام کررہے ہیں، صرف کراچی میں لیکچرارکی 1359 اسامیاں اوراسسٹنٹ پروفیسرکی 661 اسامیاں خالی ہیں۔
اسی طرح ایسوسی ایٹ پروفیسر/پرنسپلزکی گریڈ 19 میں 237، پروفیسر/پرنسپل کی گریڈ 20میں 4 اور لائبریرین کے علاوہ دیگرکچھ تدریسی اسامیاں خالی ہیں ۔
ادھر ذرائع نے "ایکسپریس" کوبتایاکہ "پورے سندھ کے سرکاری کالجوں میں 1600کے قریب نئے اساتذہ کی بھرتیاں ۤآخری مراحل میں پہنچ کررکی ہوئی ہیں، اساتذہ کے آفر لیٹربھی بن چکے ہیں لیکن کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ چاہتا ہے کہ یہ آفرلیٹروزیراعلیٰ سندھ کے ذریعے سے ایک تقریب میں تقسیم کیے جائیں جس کی وجہ سے تاخیرہورہی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ جب یہ 1600اساتذہ کالجوں کومل جائیں گے تب بھی کراچی میں اساتذہ کی کمی برقراررہے گی کیونکہ ان میں سے بمشکل 300سے کچھ زیادہ اساتذہ ہی کراچی کے کالجوں میں تعینات ہوپائیں گے۔"
کالج ذرائع نے "ایکسپریس" کوبتایا کہ صرف چند کالجز جن میں سرسید گورنمنٹ گرلز کالج شامل ہے اس میں بوٹنی، پاکستان اسٹڈیز، نفسیات، سوشیالوجی، فارسی،کمپیوٹر، فزیکل ایجوکیشن اوربین الاقوامی تعلقات کے اساتذہ موجودنہیں ہیں۔
اسی طرح آدم جی سائنس کالج میں اسلامیات اورشماریات کے اساتذہ نہیں ہیں جبکہ انگریزی، کمپیوٹر،پاکستان اسٹڈیزکے ایک ایک استاد ہیں۔
ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں ریاضی اورانگریزی کے اساتذہ ناکافی ہیں، جناح گورنمنٹ کالج ناظم ۤآباد میں پاکستان اسٹڈیز کا کوئی استاد نہیں ہے جبکہ بوٹنی ،اسلامک اسٹڈیزمیں ایک ایک جبکہ کامرس میں 2استاد ہیں۔
اس کالج میں صرف سائنس کے مضامین کی انرولمنٹ 3900 جبکہ کامرس میں 1100کے قریب انرولمنٹ ہے۔
آرٹس میں بھی 400کے قریب طلبہ انرولڈ ہیں jbko سراج الدولہ کالج کے بارے میں بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہاں کمپیوٹرسائنس کے جاری پروگرام کے باوجود کالج میں پڑھانے والے اساتذہ کی شدید قلت ہے۔’’ایکسپریس‘‘ نے اساتذہ کی کمی کے معاملے پر جب ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ ڈاکٹر نوید رب صدیقی سے رابطہ کیا تو انھوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ کالجوں کو 2200 سے زائد تدریسی عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہم کوشش کررہے ہیں کہ ایس این ای کی بنیاد پر کالجوں کو اساتذہ فراہم کریں، ہم نے اس سلسلے میں ضرورت کے مطابق اپنے ڈیپارٹمنٹ کو تفصیلات بھیجی ہوئی ہیں اور سیکریٹری کالج ایجوکیشن اس پر کام بھی کررہے ہیں لیکن اس میں فنانس بھی involve ہوتا ہے لہذا وقت لگ رہا ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ دسمبر میں کسی وقت وزیر اعلی ہاؤس سے نئے اساتذہ کو آفر لیٹر دیے جانے ہیں۔