اورنگ زیب عالمگیر کا گمشدہ خزانہ
1720ء کی بات ہے، سورت سے ایک شاہی بحری جہاز سراندیپ (سری لنکا) کی سمت روانہ ہوا۔ سورت ہندوستانی ریاست گجرات کا دوسرا بڑا شہر اور سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ اس زمانے میں یہ شہر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی سلطنت میں شامل تھا۔ اس شہر میں مغل حکومت نے ایک ٹکسال بھی قائم کر رکھی تھی جہاں سونے اور چاندی کے سکے ڈھلتے تھے۔
1720ء میں جو شاہی بحری جہاز سورت بندرگاہ سے نکلا، اس پر بھی چاندی کے لاکھوں سّکے لدے تھے۔ یہ ایک روپے کے سّکے تھے جو 1701ء میں ڈھالے گئے۔ یہ سّکے تھیلوں میں بند تھے۔ ہر تھیلے میں ایک ہزار سکے رکھے گئے تھے۔اس بحری جہاز کی آخری منزل کلکتہ تھی جہاں چاندی کے سکے اتارے جانے تھے۔ یہ سکے پھر علاقے کے مختلف شہروں اور قصبوں میں شاہی منصب داروں کو تقسیم کر دیے جاتے۔ سکوں کی حفاظت کے خیال سے جہاز پر چھوٹی بڑی توپیں بھی نصب تھیں تاکہ بحری قزاق حملہ نہ کر سکیں۔
یہ بحری جہاز جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں سے ہوتا آخر کار سراندیپ پہنچ گیا۔ اس ملک میں ملنے والے قیمتی پتھر پوری دنیا میں مشہور تھے۔ ممکن ہے کہ جہاز کے عملے نے وہاں کچھ خریدوفروخت کی ہو۔ چند دن رک کر جہاز کلکتہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ مگر عملے کو علم نہ تھا کہ ایک قدرتی آفت ان کی راہ تک رہی ہے۔
سراندیپ سے خلیج بنگال کی سمت چلیں تو پندرہ سولہ میل بعد سمندر کے نیچے واقع مرجان یا مونگے کی چٹانیں آ جاتی ہیں۔ یہ چٹانیں سطح آب کے نیچے واقع ہیں اسی لیے دکھائی نہیں دیتیں۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی علاقے میں ایک شدید سمندری طوفان نے جہاز کو آن دبوچا۔ عملے نے جہاز کو سنبھالنے کی سرتوڑ کوششیں کیں مگر وہ چٹانوں سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ گیا۔ جیسے ہی اس میں پانی بھرا، بحری جہاز تہ آب میں جا بیٹھا۔
اس زمانے کے مورخین نے اپنی کتب میں بیان نہیں کیا کہ عملہ جہاز پر کیا بیتی۔ کیا اْن میں کچھ خوش قسمت زندہ بچ گئے یا سبھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ غالب امکان یہ ہے کہ عملے میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔ ان کے عزیزواقارب بھی اپنے پیاروں کا انتظار کرتے کرتے مر کھپ گئے۔ یوں اورنگ زیب عالمگیر کا وہ شاہی بحری جہاز ایک سربستہ راز بن گیا جس پر کئی من چاندی کا خزانہ سکوں کی صورت موجود تھا۔ یہ راز ڈھائی صدیاں گزرنے کے بعد ہی افشا ہوا۔
برطانوی لکھاری کی آمد
برطانیہ میں آرتھر سی کلارک نامی ایک ادیب سائنسی موضوعات پر کہانیاں لکھتا تھا۔ یہ پہلا لکھاری ہے جس نے اپنی کہانیوں میں مواصلاتی سیاروں کا تصّور پیش کیا جو بعدازاں حقیقت میں ڈھل گیا۔ یہ 1955ء کی بات ہے کہ آرتھر سی کلارک مختلف ممالک کی سیاحت کرتے سری لنکا پہنچے۔ قدرتی نظاروں سے مالا مال یہ جزیرہ انھیں بہت پسند آیا۔ خاص طور پر سری لنکا کا موسم! برطانیہ میں شدید سردی تھی، تو سری لنکا میں سارا سال موسم معتدل رہتا۔
آرتھر سی کلارک سری لنکا پر ایسے فدا ہوئے کہ 1956ء میں انھوں نے سری لنکا کو اپنا گھر بنا لیا اور وہیں رہنے لگے۔ ان کا ایک دوست مائک ولسن بحری جہاز میں ملازم تھا۔ اسے غوطہ خوری کا شوق تھا۔ اسی سے یہ شوق کلارک کو بھی لگ گیا۔ چنانچہ مائک ولسن جب بھی سری لنکا آتا تو دونوں آس پاس کے سمندری علاقوں میں غوطہ خوری کرنے نکل جاتے۔ مونگے کی چٹانوں کے زیر آب علاقے ان کی پسندیدہ جگہ تھے۔
رفتہ رفتہ ان کے دیگر قریبی دوست مثلاً راڈنی مارش اور پیٹر بھی سری لنکا آکر غوطہ خوری کرنے لگے۔ اس وقت تک مونگے کی چٹانوں کے علاقے میں روشنی کے دومنار تعمیر ہو چکے تھے۔ وہ بحری جہازوں اور وہاں سیر کے لیے آنے والوں کو راستہ دکھاتے تھے تاکہ وہ چٹانوں سے ٹکرانے نہ پائیں۔
ایک بار راڈنی مارش اور مائک ولسن میں ایک دلچسپ بحث چھڑ گئی۔ بحث یہ تھی کہ ماضی میں کئی بحری جہاز چٹانوں سے ٹکرا کر غرق ہو چکے۔ کیا اب ان میں سے کسی کا ڈھانچا محفوظ ہو گا؟ مائک کا خیال تھا کہیں نہ کہیں غرق شدہ جہاز مل جائے گا۔ راڈنی کو اس امر سے انکار تھا۔جب بحث طویل ہو گئی تو کلارک نے یہ تجویز پیش کی کہ چٹانوں والے علاقے میں گہرائی تک غوطہ خوری کی جائے۔ یوں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ مسئلہ یہ تھا کہ سال کے بیشتر مہینے اس علاقے میں تیز ہوائیں چلتی ہیں۔
اسی لیے وہاں موجوں میں طغیانی رہنا عام بات ہے۔ اس طغیانی میں بڑے بحری جہاز تو چل سکتے ہیں، کشتی پر وہاں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ لہٰذا طے پایا کہ راڈنی اور مائک دونوں ماہ اپریل میں پھر سری لنکا آئیں گے۔ اس مہینے ہوا ساکت ہوتی ہے اور سمندر بھی پرسکون!چنانچہ چھ ماہ بعد اپریل 1960ء میں راڈنی اور مائک سری لنکا پہنچ گئے تاکہ اپنی بحث کا نتیجہ نکال سکیں۔ آگے کی داستان آرتھر سی کلارک نے اپنی آپ بیتی میں بیان کی ہے۔ وہ انہی کی زبانی پڑھیے۔
علی بابا سے دوستی
سری لنکا کے مشرقی ساحل پر قریبی بندرگاہ کرنڈہ واقع ہے۔ وہاں سے منار کے عملے کی ضروریات ’’فرعون‘‘ نامی ایک دخانی کشتی کے ذریعے پوری کی جاتی تھیں۔ چنانچہ ہم غوطہ خوری کا سارا سامان لے کر اس کشتی میں وہاں پہنچ گئے۔
ہمارے واسطے منار میں ایک کمرا مخصوص کر دیا گیا تھا۔ مگر خدا کی پناہ! اس لمبے تڑنگے منار میں ایک کمرے سے دوسرے تک پہنچنے کے لیے سو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔ پھر تمام کمرے گول تھے لہٰذا تین قدم چلنے کے بعد دیوار راہ میں حائل ہو جاتی۔انتہا یہ ہے کہ ہماری مسہریاں بھی نیم دائرے کی شکل میں بچھی تھیں۔ ان پر سونا اور کروٹ بدلنا کارے دارد تھا۔ لیکن ٹھہرنے کی کوئی اور جگہ نہ تھی اس لیے مہم کا آغاز وہیں سے کیا گیا۔
ہم نے منار سے سو گز دور سمندر میں غوطہ لگایا اور تہ تک پہنچ گئے۔ ہماری ٹیم مجھ سمیت راڈنی اور مائک پر مشتمل تھی۔ پہلی ہی نظر میں ہمیں محسوس ہونے لگا کہ ہم کسی پرستان میں پہنچ گئے ہیں۔ کہیں غار تھے، تو کہیں سیپ سے مزین مکانات! مونگے کی رنگا رنگ وادیاں تھیں تو کہیں زمردیں مخمل کا بنا فرش۔ تہ آب مچھلیوں کا تو شمار ہی نہیں تھا۔ یہی حالت کچھوؤں کی تھی۔
سبھی سمندری جانور مرنج و مرنجاں تھے اور نہایت لاتعلقی سے ہر طرف گھومتے پھرتے۔ ہم نے کیمروں سے ان کی تصاویر کھینچیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ شارک دنیا کی خطرناک ترین مچھلی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن سری لنکا کے علاقے میں اس نے کبھی انسان پر حملہ نہیں کیا۔ ایک غار میں ہمیں ایک بھاری بھر کم مچھلی نظر آئی۔ غار کی مناسبت سے ہم نے اس کا نام ’’علی بابا‘‘ رکھ دیا۔ چند ہی دن میں وہ مچھلی ہم سے اتنی مانوس ہو گئی کہ جب بھی ہم سمندر میں تیرتے یا غوطہ لگاتے، وہ ہمارے قریب آ جاتی۔
ہمیں اس علاقے میں غوطہ خوری کر کے لطف تو بہت آیا مگر کسی غرق شدہ جہاز کا پتا نہ چل سکا۔ اس لحاظ سے ہماری ساری محنت رائگاں گئی۔ البتہ ہم نے زیر آب جانوروں اور قدرتی مناظر کی جو تصاویر کھینچیں تھیں ان کی ہمیں اچھی قیمت موصول ہو گئی۔
یوں ہمارے سفر کا خرچ پورا ہو گیا۔لیکن مائک ولسن نے ہار نہ مانی، اسے یقین تھا کہ چٹانوں کے علاقوں میں کسی بحری جہاز کا ڈھانچا ضرور مل جائے گا۔ چناںچہ اگلے سال وہ دوسری مہم کی تیاری کرنے لگا۔ مگر راڈنی اور میں اس مہم میں شریک نہ ہو سکے۔ راڈنی اس وقت آسٹریلیا تھا جبکہ میں نے اس مہم میں زیادہ دلچسپی نہ لی جو میری بدقسمتی تھی۔ مائک نے امریکی سفارت خانے سے چودہ پندرہ سال کے دو لڑکے لیے اوران کے ساتھ کرنڈہ چلا گیا۔
یہ لوگ ایسے گئے کہ کوئی خط بھی نہ بھیجا۔ کئی ہفتے گزر گئے اور ان کی خیر خبر معلوم نہیں ہوئی۔ ایک روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک بس دروازے پر آن رکی۔ مائک اور اس کے دونوں کم عمر ساتھی اترے اور علیک سلیک کے بعد اپنا سامان اتارنے لگے۔ میری نظریں ایک صندوق پر جمی تھیں جسے تینوں اٹھا کر اندر لے آئے۔
میں نے مائک سے پوچھا کہ کہو کیسی گزری؟ اس نے مسکین سا چہرہ بنایا اور مختصر جواب دیا ’’کچھ اتنی بری بھی نہیں گزری۔‘‘ میں نے انھیں چائے پلائی۔ مائک نے پھر دونوں لڑکوں کو رخصت کر دیا۔ پھر وہ دروازہ بند کر کے میرے پاس آیا، صندوق کا تالا کھولا اور بولا ’’دیکھیے اس کے اندر کیا ہے؟‘‘
میری نگاہیں دو چھوٹی توپوں پر جم گئیں۔ وہ قدیم ہونے کے باوجود صاف ستھری اور بے داغ نظر آتی تھیں۔ یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ مائک نے آخر کسی غرق شدہ بحری جہاز کا سراغ لگا لیا ہے۔ صندوق کے اندر ہی ناریل جیسے گول ڈھیر بھی نظر آئے۔ اس نے ایک ناریل اٹھا کر میرے ہاتھوں میں دے دیا۔ اب جو میں نے اسے بغور دیکھا تو چونک اٹھا۔ یہ تو سکے تھے جو ایک دوسرے سے جڑ چکے تھے۔
وہ خالص چاندی کے سکے تھے۔ میں نے کوشش کر کے چند سکے ڈھیلے سے علیحدہ کر لیے۔ اْن پر فارسی زبان میں کچھ جملے کندہ تھے جنھیں ہم دونوں نہیں پڑھ پائے۔ سکوں کے ان ڈھیلوں کا وزن تقریباً سوا من تھا۔ سکے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ انھیں فروخت کر کے ہم اچھی خاصی قیمت حاصل کر سکتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ یہی اصل خزانہ ہے۔ مگر مائک نے بتایا کہ غرق شدہ جہاز کے اردگرد ایسے کئی ڈھیلے موجود ہوں گے۔
پیچیدہ مسائل
اب کئی پیچیدہ مسائل ہمارے سامنے آکھڑے ہوئے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس خزانے کی بھنک کسی غیر تک نہ پہنچے۔ ایک قانونی پہلو یہ تھا کہ ہم اس خزانے کی اطلاع سری لنکن حکومت کو دیں یا نہیں؟ اگر حکومت نے اس خزانے پر قبضہ کر لیا تو خصوصاً مائک کی ساری محنت اور سعی خاک میں مل جاتی اور اسے کچھ حاصل نہ ہوتا۔آخری مسئلہ یہ تھا کہ سکوں پر کندہ عبارت کیونکر پڑھی جائے۔
اسے پڑھ کر معلوم ہو سکتا تھا کہ ان سکوں کا تعلق کس حکومت اور کس دور سے ہے۔ یوں غرق شدہ جہاز کی ملکیت کا بھی پتا چل جاتا۔ آخر میں ہمیں یہ معلوم کرنا تھا کہ بازار میں خالص چاندی کا کیا بھاؤ ہے اور سکوں کے ڈھیر کی ہمیں کیا قیمت ملے گی۔
مائک کو وہ سکے تین حالتوں میں ملے تھے۔ اوّل علیحدہ شکل میں، دوم ڈھیلوں کی صورت جن پر مونگوں نے دبیز قسم کا پلستر کر دیا تھا۔ اس لیے چاندی اپنی اصل حالت میں محفوظ رہی۔ سوم ایسے سکے جن پر پانی کی تیزابیت نے اثر کیا تھا۔ لہٰذا وہ چاندی کے بجائے سلور سلفائیڈ مادہ بن گئے تھے۔ اب ان کی صرف کیمیائی اہمیت ہی تھی۔
ہم دونوں بیٹری کے تیزاب کی مدد سے سکوں کو چمکانے لگے۔ چند گھنٹوں بعد ہمارے اردگرد کئی چمکتے دمکتے سکے بکھرے پڑے تھے۔ ان پر تین جگہ ’’ایک‘‘ اور اس کے دائیں ہاتھ ’’تین‘‘ کا ہندسہ منقش تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ سکے 1113ھ میں ڈھالے گئے۔
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام سے ہمیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا سن ہجری جولائی622ء سے شروع ہوتا ہے جب پیغمبر اسلام ﷺنے مدینہ ہجرت فرمائی تھی۔ہم نے 1113ھ میں 622کا اضافہ کیا، تو1735ء عدد نکل آیا۔ گویا یہ سکے 1735ء میں ڈھالے گئے تھے۔ مگر جب یہ سکے ماہرین تاریخ تک پہنچے اور انھیں درج بالا سن معلوم ہوا، تو وہ ہماری بے وقوفی پر بہت ہنسے۔ ان کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ سکوں پر مغل بادشاہ، اورنگ زیب عالمگیر کا نام اس طرح درج تھا ع
سکہ زد در جہاں چوبدر منیر
شاہ اورنگ زیب عالمگیر
اور سن جلوس 46 درج تھا۔ سن عیسوی کے حساب سے یہ 1702ء سال بنتا ہے۔ یعنی سکے اس سال ٹکسال میں مضروب ہوئے۔ ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ اسلامی سال کو عیسوی پیمانے سے ناپتے رہے۔حالانکہ ان دونوں میں ہر سال دس دن کا فرق پڑ جاتا ہے۔ماہرین ہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہر ڈھیلے میں ایک ہزار سکے موجود ہیں۔ یہ جان کر ہمیں بہت حیرت ہوئی۔ ہمیں بھارت کے ایک مسلمان عالم نے بتایا کہ مغل حکومت میں ایک ہزار سکوں کی تھیلی ہوا کرتی تھی۔ غالباً یہ تھیلیاں ہی تھیں جن پر مونگوں نے کیلشیم کی تہ جما کر انھیں ڈھیلے کی صورت دے ڈالی۔
سکوں پر ٹکسال کا نام ’’سورت‘‘ درج تھا۔ یہ گجرات کا قدیم شہر ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے پہل اسی شہر کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔ تمام سکوں پر ایک ہی سن درج تھا۔ ہمیں احساس ہوا کہ یہ سب سکے ٹکسال سے نئے نئے نکلے تھے کہ انھیں بحری جہاز پر لاد دیا گیا۔
پہلے ہمارا خیال تھا کہ یہ بحری جہاز ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا۔ ہم نے کئی جگہ تحقیق کی مگر یہ پتا نہیں چل سکا کہ کیا 1702ء میں کمپنی کا کوئی جہاز سلیون (سری لنکا) میں غرق ہوا تھا۔ البتہ ہالینڈ میں ڈچ انڈینز کمپنی کے رجسٹروں میں ایک جہاز کا تذکرہ ملا جو 1706ء میں سلیون میں ڈوب گیا تھا۔ یہ جہاز انڈونیشیا کی سمت جا رہا تھا مگر اس پر ہندوستانی روپیا نہیں لدا تھا۔ بہرحال ہمیں یقین تھا کہ غرق شدہ جہاز کے اردگرد اور تھیلیاں مل جائیں گی۔
اب ہم قانونی مسائل کی سمت متوجہ ہوئے۔ سری لنکن قانون میں خزانے کی تعریف یہ لکھی ملی: ’’وہ قیمتی چیز جو زمین میں اس خیال سے دفن کر دی جائے کہ اسے دوبارہ کھود کر نکال لیا جائے گا۔‘‘ لیکن ہمارا خزانہ زمین میں دفن نہیں تھا اور نہ ہی مالکان اسے دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔دوسرا حل طلب مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں جس مقام پر چاندی کے سکے ملے، کیا وہ سری لنکا کی حدود میں واقع ہے؟ ہر ملک اپنے ساحل کے متعلق مختلف قانون رکھتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ سری لنکن قانون کی رو سے ساحل سے چھ میل دور تک کا علاقہ مملکت میں شامل تھا۔
ہماری خوش قسمتی کہ مونگے کی چٹانوں کا وہ علاقہ جہاں مغل ہندوستان کا بحری جہاز ڈوبا ،وہ سری لنکا ساحل سے ساڑھے چھ میل دور ہے۔ ہومی رستم جی ہمارے وکیل تھے، انھوں نے ہمیں سری لنکن قانون کی ایک خاص شق بتائی جس نے ہمیں خوشی سے نہال کر دیا۔ وہ شق یہ تھی: ’’اگر کسی قیمتی شے مثلاً سونے چاندی کو دانستہ طور پر چھپایا گیا اور اس کے مالک کا پتا نہیں چل سکے تو اس کی مالک حکومت ہو گی۔ لیکن اگر اسے دانستہ پوشیدہ نہیں رکھا گیا بلکہ وہ خود ہی گم ہو جائے یا کہیں گر جائے تو جس شخص نے اسے پایا وہی اس کا مالک ہو گا۔ حکومت کو اس سے سروکار نہیں ہو گا۔‘‘
ہم نے پھر محکمہ کسٹمز سے معلومات لیں۔ انھوں نے بھی بتایا کہ سری لنکن مملکت میں کسی کو اتفاقاً خزانہ مل جائے تو حکومت اس کی مالک نہیں ہو گی۔ یہ پتا چلا کر ہماری جان میں جان آئی۔ چند دن بعد میں نے سکوں کا ایک چھوٹا ڈھیلا امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے، اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ کو تحفے کے طور پر بھیج دیا۔ اس عمل میں ایک غایت یہ تھی کہ ہمارا دریافت شدہ خزانہ دنیائے مغرب میں مشہور ہو جائے اور اگر کوئی سکے خریدنا چاہے، تو ہم سے رجوع کر لے۔
بقیہ خزانے کی تلاش
خزانے کا بڑا حصہ ابھی سمندر نے اپنی آغوش میں چھپا رکھا تھا۔ امریکی لڑکوں کا کہنا تھا کہ غرق شدہ جہاز کے نزدیک ہی ایک غار ہے۔ وہاں سکوں کی تھیلیاں ڈھیلوں کی صورت میں موجود ہو سکتی ہیں۔ مگر اس خزانے کو کھودنے، نکالنے اور ساحل تک لانے کے لیے جدید آلات، کشتیوں اور جہاز کی ضرورت تھی۔ یہ سامان سرمائے سے حاصل ہونا تھا جبکہ ہماری جیبیں خالی تھیں۔میں سکوں کے کسی بڑے خریدار کو تلاش کرنے کی غرض سے یورپ اور امریکا میں گھومنے لگا۔ اْدھر مائک بھی ایسی ترکیبیں سوچنے میں مصروف تھا جن سے رقم ہاتھ آجائے۔ آخر اس نے سوچا کہ سری لنکا کی زیر آب سمندری زندگی پر دستاویزی فلم بنائی جائے۔
اس دوران سری لنکا میں یہ خبر پھیل گئی کہ ہم نے قریبی ساحلی علاقے سے مغل دور کا ایک خزانہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ ہوا یہ کہ کولمبو کے سب سے بڑے انگریزی اخبار میں کسی گمنام آدمی کا یہ خط شائع ہوا:
’’مائک ولسن نامی ایک انگریز نے کرنڈہ کے علاقے میں مغل خزانہ دریافت کیا ہے۔ اس کے ایک حصے کی نمائش امریکا میں ہو رہی ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ مائک اور کلارک کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ جو روپے انھیں سری لنکا کے سمندر سے حاصل ہوئے، وہ مقامی عجائب گھر میں رکھنے کے بجائے امریکا بھیج دیں۔ ان سکوں کے اصل مالک سری لنکن ہیں۔ یہ بھی اسی قسم کی لوٹ کھسوٹ ہے جیسی یورپی ایشیا اور افریقا میں کرتے رہے ہیں۔ ایشیائی سلاطین کے محلات اور فراعنہ کے مقابر لوٹ کر ہی برطانیہ کے عجائب خانے سجائے گئے۔ اب اِن لوگوں نے سری لنکا میں فلم بنانے کا ڈھونگ رچایا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ فلم کی آڑ میں نئی شرارت کرنا مقصود ہے۔‘‘
ہم آج تک نہیں جان سکے کہ خزانے کا راز کس نے افشا کیا۔ ممکن ہے، امریکی لڑکوں یا ہمارے وکیل نے کسی سے اس کا تذکرہ کر دیا۔ بہرحال ایک قدرتی مظہر نے ہمارے نودریافت خزانے کی خبر سری لنکا میں پھیلنے نہیں دی۔ ہوا یہ کہ خط کی اشاعت کے اگلے دن بھارت اور سری لنکا کے اخبارات میں یہ ڈھنڈورا پٹ گیا کہ 5فروری 1963ء کو نظام شمسی کے تمام سیارے سورج سے ٹکرا جائیں گے اور یوں قیامت آجائے گی۔
اب تمام سری لنکن اس قدرتی مظہر میں دلچسپی لینے لگے اور خزانہ ملنے کی خبر قیامت کی ہاہا کار میں دب گئی۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا اور سری لنکا کی سمندری زندگی پر دستاویزی فلم بنانے پر جت گئے۔ ہم نے شدید محنت کی اور اس کا ہمیں پھل بھی میٹھا ملا۔ فلم سری لنکا اور بیرون ممالک میں بھی خاص و عام کو پسند آئی اور ہمارے ہاتھ اچھی خاصی رقم لگ گئی۔
پیٹر تھراک برطانیہ کا مشہور تیراک تھا۔ اس نے بحیرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس میں ڈوبے کئی بحری جہازوں کا پتا لگایا تھا۔ اس نے فلم دیکھی تو وہ ہمارے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو گیا۔ چنانچہ اپریل 1963ء میں ہمارا قافلہ پھر کرنڈہ جا پہنچا۔موسم خوشگوار تھا اور سمندر پْرسکون تاہم اس کی موجوں میں اب بھی خاصی طغیانی تھی۔ ہم نے غوطہ خوری کا لباس پہنا، آکسیجن کی مشین پیٹھ پر لادی اور سمندر میں کود گئے۔ مائک کے پیچھے پیچھے ہم اس کھائی میں جا پہنچے جہاں ہندوستانی جہاز کا ڈھانچا کسمپرسی کے عالم میں پڑا تھا۔
جہاز کے اردگرد پتھر، لوہے کے ٹکڑے اور ناقابل شناخت اشیا بکھری پڑی تھیں۔ ہمیں جہاز سے کم خزانے سے زیادہ دلچسپی تھی چنانچہ اس مقام کی سمت بڑھ گئے جہاں چاندی کے سکے ڈھیلوں کی صورت پڑے تھے۔ ہم نے کدالوں، پھاوڑوں اور دوسرے اوزاروں کی مدد سے فوراً کام شروع کر دیا۔
ہزار ہزار روپے کے ڈھیلے ایک دوسرے سے علیحدہ کیے جانے لگے۔ پیٹراپنے ساتھ ایک قسم کا غبارہ ساتھ لایا تھا۔ اس کی مدد سے ڈھیلے سطح آب پر پہنچائے جانے لگے۔ وہاں ہمارے ساتھی ڈھیلوں کو کشتیوں میں رکھ لیتے۔ صبح دس بجے ہم نے کام شروع کیا اور دوپہر تک کرتے رہے۔کھانا کھانے کے بعد ہم دوبارہ زیر آب اترے تو میری نظر شمالی گوشے پر پڑی۔ وہاں کوئی شے چمک رہی تھی۔ میں نے جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی نقرئی سکے اِدھر اْدھر بکھرے ہیں۔ لگتا تھا کہ مغلوں کے جہاز پر لاکھوں سکے لدے تھے۔
اس جگہ بکھرے سکوں کو جمع کرنا آسان کام نہیں تھا۔ بہرحال ہم نے ہمت پکڑی اور تیزی سے ہاتھ چلانے لگے۔ آخر سہ پہر تک بیشتر بکھرے سکے جمع کر لیے گئے۔ وہ یوں دمک رہے تھے جیسے ابھی ٹکسال سے ڈھل کر نکلے ہوں۔ صبح سے سہ پہر تک سکوں سے بھرے چھ بورے ہم نے اپنی کشتیوں تک پہنچائے۔ ان کا وزن ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ٹن (ایک ہزار کلو) تو ہو گا۔دوپہر کو مائک کہیں سے مچھلیاں شکار کر لایا تھا۔ انہی کو پکا کر دعوت شیراز اڑائی گئی۔ یوں بھوک کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ خزانہ ایک بڑی نعمت ہے مگر وہ پیٹ کی آگ تو نہیں بجھا سکتا۔ ہم وقفے وقفے سے سستانے بیٹھ جاتے اور گپیں لڑاتے۔ اس دوران بچی مچھلیاں بھی کھائی جاتیں۔
پیٹر تھراک کچھ اور کام بھی کرناچاہتا تھا۔ اْس کا کہنا تھا کہ دنیا والے اس انتظار میں ہوں گے کہ ہم نے جس بحری جہاز کو ڈھونڈ نکالا ہے، اس سے کیسی اشیا برآمد ہوئیں۔ چنانچہ سہ پہر کو وہ اپنے دو ساتھیوں سمیت پھر تہ آب میں پہنچ گیا۔ مگر اسے شروع میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔دو گھنٹے کی جستجو کے بعد آخر اسے معقول چیزیں ہاتھ آ گئیں۔ اس کو کسی خاتون کے بندے ملے نیز ایک بڑی سی فولادی پلیٹ (روٹی پکانے کا توا)، ٹوٹے پستول اور توپوں کے دہانے بھی ہاتھ آئے۔
جب واپسی کا وقت آیا، تو یہ فکر دامن سے چمٹ گئی کہ ہزاروں نقرئی سکے کیسے چھپائے جائیں۔ ہم انھیں پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ ہمیں علم تھا کہ چوروں کو اس خزانے کی بھنک مل گئی تو ہم کثیر سکوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔مائک نے صلاح دی کہ سکے ایک کشتی کے پیندے پر ڈھیر کیے جائیں۔ پھر ان پر سارا سامان لاد دیا جائے۔ یوں وہ چھپ جائیں گے۔ یہ ترکیب پیٹر اور مجھے پسند آئی۔ چناںچہ ایسا ہی کیا گیا۔
ہم ساحل پر پہنچے تو وہاں کثیر تعداد میں صحافی موجود تھے۔ انھوں نے ہم پر تابڑ توڑ سوالات کی بھرمار کر دی: خزانہ کہاں ہے؟ کیا کیا قیمتی سامان دستیاب ہوا؟ جہاز کس ملک کا ہے؟ اب اس کی کیا حالت ہے۔ یہ سوال سن کر ہم کچھ پریشان ہو گئے۔ مگر پیٹر کی زندگی صحافیوں کے تیز و تلخ جملوں کا سامنا کرتے گزری تھی، لہٰذا اس نے انھیں سنبھال لیا۔پیٹر نے فوراً ہی ان اشیا کی نمائش کا اہتمام کر ڈالا جو جہاز سے براصمد ہوئی تھیں۔ پیٹر ہر چیز کی تشریح کرتا اور فوٹوگرافر اس کی تصویر لے لیتے۔ قدیم بندوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا۔ صحافیوں نے کشتی کے اندر جا کر اشیا دیکھیں مگر وہ سامان تلے دبے خزانے کا سراغ نہیں لگا سکے۔
جب تک ہم کولمبو میں رہے، چاندی کے سکے کشتی میں رسیوں، بانسوں، نلکیوں اور غوطہ خوری کے دیگر سامان کے نیچے دبے رہے۔ یوں وہ کسی کی نظر میں نہ آسکے۔ چوروں کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اتنا قیمتی خزانہ یوں کشتی میں کھلا پڑا ہو گا۔ میں روزانہ رات کو کشتی کا چکر لگا لیا کرتا۔ لیکن یہ احتیاط کرتا کہ غوطہ خوری کا لباس پہن کر جاؤں ورنہ لوگوں کو شک ہو سکتا تھا۔
خاتمہ داستان
چند دن بحری جہاز سے برآمد ہونے والی اشیا کی نمائش کے بعد آرتھر سی کلارک، مائک ولسن اور پیٹر ایک بحری جہاز میں خزانے کو برطانیہ لے گئے۔ وہاں انھوں نے نقرئی سکے مختلف امرا کے ہاتھ بیچ دیے۔ جتنی رقم حاصل ہوئی، وہ دوستوں نے آپس میں تقسیم کر لی۔ یہ رقم اتنی ضرور تھی کہ سبھی دوستوں کی بقیہ زندگی کام کاج کے بغیر ٹھاٹھ سے بسر ہوئی۔ یوں مغل خزانے نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔مائک ولسن 1995ء میں چل بسا۔ جبکہ آرتھر سی کلارک 2008ء کو عالم بالا پہنچ گئے۔ لیکن انھوں نے غرق شدہ مغل جہاز سے جو لاکھوں نقرئی سکے برآمد کیے وہ آج بھی نجی و قومی عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔