نہ جانے کیوں میں اب اپنے دوستوں کو بھولنے لگا ہوں یا پھر مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ میرے دوست مجھے یاد نہیں کرتے۔ شاید دو تین سال پہلے کی بات ہے جب Seven sister's tunnel کا ٹریک کیا تھا۔ گھر واپس آ کر اٹک خورد ریلوے اسٹیشن کی فوٹو ڈالی تو سلیم کی کال آ گئی۔
جب اسے معلوم ہوا کہ میں اب گھر واپس آچکا ہوں تو تھوڑا خفا سا ہوا اور سیلم سے زیادہ میں اپنے آپ سے خفا ہوا کہ میں اسے کیسے بھول گیا۔ اسی طرح ایک دو بار لاہور گیا تو جب واپس آ کر فوٹو ڈالی تو لاہور کے چند ہاسٹل کے دوستوں نے خفگی کا اظہار کیا، حالاں کہ عرصہ ہوا تھا ان سب سے بات بھی کیے ہوئے۔ یہاں سے مجھے یہ شک گزرا کہ میرے دوست مجھے اتنا بھی نہیں بھولے جتنا میں سمجھتا ہوں۔
ایسے ہی جب چکوال سے بھی ہوکر آیا تو ضیاء نے بھی خفگی کا اظہار کیا۔ اب کی سوچتا ہوں کہ ملاقات خواہ نہ ہو مگر میں کم از کم اپنے اس شہر کے دوستوں کو یاد تو کروں جو اس شہر سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ کہ میں اس وقت ڈیرہ غازی خان کے جنرل بس اسٹینڈ کے ویٹنگ روم میں بیٹھا اپنے راہ نما کا منتظر ہوں مگر مجھے پھر بھی یہاں سے تونسہ شریف کی خوشبو آتی ہے کہ تونسہ شریف سے میرا ایک کلاس فیلو عمران تھا۔
سیدھا سادہ بھولا بھالا محبت کرنے والا عمران جس نے کم از کم مجھ سے جب بھی بہت کی انتہائی محبت اور خلوص سے بات کی اور ڈیرہ غازی خان سے ہی ایک عدنان احمد بھی تو تھا۔
اونچا لمبا چوڑے شانوں والا عدنان جو اپنے وجود سے ہی سرائیکی لگتا تھا اور راستے میں خانیوال بھی تو آیا تھا جب میں گاڑی میں سورہا تھا تو اچانک گاڑی کی بتیاں جلنے پر میں آنکھ کھلی تو کنڈکٹر نے آواز لگائی کہ خانیوال کی کوئی سواری اندر نہ ہو تو مجھے ایک دم سے اپنا چاکلیٹی ہیرو شہباز یاد آگیا۔ شہر تو نہ جانے کون کون سے راستے میں آئے جن کو میں نے سوتے ہوئے ہی گزار دیا مگر آج کی رات مجھے بس اپنے یہی تین ہاسٹل کے دوست یاد آئے۔
آپ سب اپنے اپنے کام دیکھیں، مجھے تلقین کی گئی ہے کہ ناشتہ ڈیرہ غازی خان میں نہیں کرنا بلکہ سخی سرور کے کسی ٹرک ہوٹل پر کرنا ہے تاکہ وہ وہاں کا ٹرک آرٹ بھی دیکھ سکوں مگر نہ جانے میرا راہ نما کہاں رہ گیا ہے۔ یہ ابھی تک آ کیوں نہیں رہا۔
ارے ہاں۔۔۔ مجھے یاد آیا کہ وقاص اشرف بھکر سے بھی تو تھا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ بھکر آس پاس ہے یا وقاص کی طرح وہ بھی مجھ سے دور ہے ورنہ اسے بھی یاد کر لیتا۔
…………
تو قصہ مختصر یہ ہے کہ کوہ سلیمان وہ علاقہ ہے جو بہت خوب صورت ہے مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ پتا نہیں کس سیانے بزرگ نے کہا تھا کہ
An apple in a day, keeps the doctor away.
مجھے لگتا ہے وہ سیانا بزرگ بھی کوئی میری اور آپ کی طرح کا ہی کوئی ہو گا۔ چلیں میں آپ کو بات میں زبردستی نہیں گھسیٹتا، صرف اپنے آپ کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیے دیتا ہوں کہ وہ سیانا بزرگ کوئی میری طرح کا ہی ہوگا جو جوانی میں بس ایوئیں لفٹر سا رہا ہوگا اور بڑھاپے میں جاکر اسے سیانا ڈکلیئر کردیا ہوگا کیوں کہ یہ بات اگر سچ ہوتی تو جتنے سیب میں کھاتا ہوں، مجھے ڈاکٹر مزمل حسین سے اتنا ہی دور ہونا چاہیے تھا جتنا چاند زمین سے دور ہے مگر ہر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ میں ان سے دور جانے کی بجائے، ان سے قریب ہوتا چلا جا رہا ہوں۔
نہ جانے کب کہاں اور کس پوسٹ پر ڈاکٹر صاحب سے ٹکراؤ ہوگیا اور دو سال پہلے میں ڈاکٹر صاحب سے ایسا جڑا کہ میں پھر ڈاکٹر صاحب سے جدا نہ ہو سکا۔ دو سال پہلے کی ملتان یاترا ہو یا پھر پچھلے برس والے مسجد سکینہ صغریٰ کو دیکھنے والا معاملہ، ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ ہی Out of box جا کر میری مدد کی۔ پچھلے برس تو شہزاد کی شکل میں کیسا انمول ہیرا ڈاکٹر صاحب نے میری جھولی میں ڈالا تھا اور اس برس تو ڈاکٹر صاحب نے جیسے مجھے خرید ہی لیا ہو۔
اگرچہ منصوبہ بندی کسی اور شے کی تھی مگر بات وہی ہے کہ ایک منصوبہ ہم بناتے ہیں اور ایک منصوبہ اوپر والا بناتا ہے اور ہوتا وہی ہے جو اُس کی منشاء ہوتی ہے۔ پہلے دن جیسے تیسے کر کے مٹ چانڈیہ نخلستان تو دیکھ لیا مگر راستے میں ہی میرے راہ نما کی طبعیت ایسی بگڑی کہ بے چارہ سڑک پر ہی الٹیاں کرنے لگا۔ جو دوست مٹ چانڈیہ جا چکے وہ اس علاقے کی ویرانیوں سے واقف ہی ہوں گے۔
یہ وہ علاقہ ہے جس پر بلوچستان دعویٰ دار ہے۔ جیسے تیسے کر کے ہم مٹ چانڈیہ نخلستان سے شام ڈھلے ڈی جی خان واپس پہنچے تو جھجکتے جھجکتے میں نے ڈاکٹر صاحب کو آج کی صورت حال بتا دی۔ رات مجھے ہونا کہیں اور چاہیے تھا جب کہ میں اس وقت ڈی جی خان ہوٹل میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جو فون گھمانے شروع کیے تو تھوڑی ہی دیر میں سلطان صاحب میرے پاس پہنچ گئے جو ڈی جی خان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سلطان صاحب کے ساتھ ہی مل کر میرا یہ منصوبہ طے پایا کہ ہم صبح سویرے ڈی جی خان دیکھیں گے اور پھر وہ مجھے کوٹ مٹھن کے لیے روانہ کردیں گے۔
اب آپ اندازہ کریں کہ سلطان صاحب جیسے سنیئر سیاح مجھے ڈی جی خان سے کوٹ مٹھن لوکل جانے نہیں دے رہے، بضد ہیں کہ چوں کہ میں مہمان ہوں، اس لیے وہ میرے ساتھ ڈی جی خان سے کوٹ مٹھن جائیں گے۔ کوٹ مٹھن کو آپ ڈی جی خان کی بغل میں مت سمجھیے۔ گوگل میپ کے مطابق کوٹ مٹھن، ڈی جی خان سے پونے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے جس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے کہ بائیک پر کم از کم ساڑھے تین سے پونے چار گھنٹے لگ ہی جانا تھے مگر پھر بھی وہ بضد تھے کہ وہی مجھے بائیک پر کوٹ مٹھن لے کر جائیں گے۔ صبح چھے بجے سلطان صاحب میرے ہوٹل کے نیچے میرے منتظر تھے۔
سلطان صاحب کے ساتھ کچھ ڈی جی خان دیکھا اور ان سے گزارش کی کہ آپ مجھے لاری اڈا اتار دیں۔ اب میں جو ڈی جی خان سے کوٹ مٹھن جا رہا ہوں تو مجھے راستے میں فون آتا ہے کہ میں کوٹ مٹھن سے پندرہ کلومیٹر پہلے راجن پور اتر جاؤں اور فون کرنے والا بھی ایک سنیئر بائیکر ہے۔ پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب رات ہی راجن پور سے کسی کی ذمے داری لگا چکے تھے جو مجھے بائیک پر راجن پور سے کوٹ مٹھن لے کر جائیں گے اور میری مطلوبہ فہرست کے مطابق مجھے آوارگی کروائیں گے۔
اب یہ جو سارے وسیب واسی ہیں، یہ میرے کیا لگتے ہیں جو میرے ایک فون کال پر میں جہاں بھی ہوں، میری مدد کو آن پہنچتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ وسیب کے پانیوں میں ایسا کیا ہے کہ ان کی زبان اور یہ خود بھی مٹھاس سے بھرے پڑے ہیں۔ میں جب بھی وسیب جاتا ہوں، ڈاکٹر صاحب کی بدولت ہیرے بندے میرے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور مجھے سارا وسیب دکھاتے رہتے ہیں۔
سمجھ سے باہر ہے کہ یہ وسیب واسی مادہ پرست کیوں نہیں ہوتے؟ میں ان وسیب واسیوں کا کیا کروں، ان کی محبتوں کا قرض کیسے اتاروں؟ کہتے ہیں کہ محبت اور احسان کی سب سے خوب صورت شکل یہ ہے کہ اسے چپ چاپ اپنے پاس رکھ لیا جائے، اسے اتارا نہ جائے اور نہ واپس کیا جائے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں ان وسیب واسیوں کی محبت کا بدلہ نہیں دے سکتا، اس لئے چپ چاپ ان محبتوں کو سمیٹ کر اپنے مادہ پرست ماحول میں لیے جا رہا ہوں۔ شاید کہ وسیب کی اس محبت کی بدولت مجھ جیسے مادہ پرست انسان میں بھی محبت کی چند کونپلیں پھوٹ پڑیں۔
برصغیر پاک و ہند کا وہ پہلا شہر جسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ انگریزوں نے ایک ویرانے میں تعمیر کروایا، وہ ڈیرہ غازی خان تھا۔ سننے میں شاید یہ آپ کو عجیب لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ موجودہ شہر ڈیرہ غازی خان کو انگریزوں نے 1910 میں پرانے ڈیرہ غازی خان سے مشرق میں پندرہ کلومیٹر دور بسایا تھا۔ یہ وہ ڈیرہ غازی خان نہیں جسے پندرہویں صدی عیسوی میں ایک بلوچ قبائلی سردار حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر آباد کروایا تھا۔
بلوچی زبان میں ڈیرہ کا مطلب آرام گاہ ہے۔ ڈیرہ غازی خان کا مطلب ہوا، غازی خان کی آرام گاہ۔ غازی خان کے والد اور بلوچ قبائلی سردار حاجی خان میرانی کا 1476 عیسوی میں انتقال ہوا۔ خود جب غازی خان اپنی ایک عمر کو پہنچ چکا تو اسے اپنا مقبرہ بنوانے کا خیال آیا۔
حالاں کہ پرانا ڈیرہ غازی خان موجودہ شہر سے 15 کلومیٹر دور ہے مگر اس وقت غازی خان نے اپنے پیر کے کہنے پر اپنا مقبرہ شہر سے دور ایک ویرانے میں تعمیر کروایا۔ یقیناً اس وقت پیر صاحب پر بھی سوال اٹھے ہوں مگر غازی خان نے بھی اپنا مقبرہ شہر سے ہٹ کر ہی بنوایا۔ بہت بعد میں جب پرانا ڈیرہ غازی خان سیلاب کی نذر ہوگیا اور انگریزوں نے نئے شہر کی تعمیر کے لیے یہی علاقہ چنا تو ڈیرہ غازی خان کا مقبرہ نئے شہر کے بیچوں بیچ آ گیا۔
موجودہ ڈیرہ غازی خان کا رقبہ 11500 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ پنجاب کا وہ شہر ہے جس کی سرحدیں سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ملتی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ محمد بن قاسم اور پھر امیر تیمور سب ڈیرہ غازی خان سے ہی گزر کر ملتان گئے اور ملتان کو فتح کیا۔
ڈیرہ غازی خان کے مغرب میں کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ جب کہ مشرق میں سارا میدانی علاقہ ہے۔ کوہ سلیمان کا یہ پہاڑی سلسلہ نیچے ایران تک جب کہ پاکستان کے شمال تک جاتا ہے۔ کوہ سلیمان کے ان ہی پہاڑی سلسلوں میں بہت سی معدنیات جن میں یورینیم، کوئلہ، گیس بھی شامل ہیں، موجود ہیں۔ کوہ سلیمان کے بلند ترین اور خوبصورت مقامات فورٹ منرو اور یک بائی ٹاپ بھی ڈیرہ غازی خان کے قریب ہی واقع ہیں۔
ماضی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے بنائے گئے صدر فاروق احمد خان لغاری اور پنجاب کے گورنر ذوالفقار احمد کھوسہ کا تعلق بھی ڈیرہ غازی خان سے رہا ہے۔ ماضی قریب میں وزیراعلیٰ پنجاب رہنے والے بزدار صاحب بھی ڈیرہ غازی خان سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
فاروق احمد لغاری نے ہی ڈیرہ غازی خان میں ایک ایئرپورٹ بھی تعمیر کروایا جس کی کم از کم میری نظر میں تو ضرورت نہ تھی۔ اس ایئرپورٹ کا مقصد صرف اور صرف عوام سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا۔ آج ڈیرہ غازی خان کے ریلوے اسٹیشن سمیت ڈیرہ غازی خان کا ایئرپورٹ بھی بند پڑا ہے۔
میں صبح سویرے جو ڈیرہ غازی خان پہنچ چکا تھا۔ میں رات کے سفر میں سونے کی عادت نے یہاں بھی میرا بھرپور ساتھ دیا۔ شام ساڑھے چھے بجے گاڑی سیال کوٹ لاڑی اڈا سے باہر نکلی تو کچھ ہی دیر بعد میں نے حسبِ عادت اونگھنا شروع کردیا۔ مجھے علم نہ ہوسکا کہ کون سا شہر گزرا یا کون سا گزر رہا ہے۔ اسی برس جنوری میں جب صادق آباد گیا تھا تو گاڑی کچھ دیر کے لیے لاہور رکی تھی۔
اتنا وقت تو مل ہی گیا تھا کہ میں پیٹ پوجا کرلیتا۔ میں نے آرام سے کھانا کھایا اور چائے کا مزہ بھی پورا کرچکا تو گاڑی صاحبہ نے روانگی کا ہارن بجا دیا تھا مگر اب کی بار نہ جانے اس گاڑی کا کیا شیڈول تھا کہ یہ لاہور نہ رکی بلکہ باہر باہر سے ہی نہ جانے کن راہوں پر نکل پڑی۔ شدید بھوک سے میرا برا حال تھا۔ میں نے سیال کوٹ سے روانگی کے وقت اسی لیے کچھ نہ لیا تھا کہ لاہور اسٹاپ ہوگا تو کچھ نہ کچھ کھا پی لوں گا مگر یہ گاڑی تو نہ جانے اپنی کن مستیوں میں گم تھی۔
چلتی گئی چلتی گئی چلتی گئی اور بالآخر اس نے رات تین بجے کے قریب ایک ویران سے ہوٹل کے سرہانے بریک لگا دی۔ ہوٹل ویران نہیں تھا، رات کے تین بج رہے تھے۔ میں فوراً کچھ کھانے کے لیے بھاگا تو پتا چلا کہ کچھ دیر پہلے ہی یہاں ایک گاڑی رکی تھی جس کی وجہ سے سارا کھانا ختم ہوچکا ہے۔ فقط بریانی باقی ہے اور وہ بھی چکن کے بغیر۔ میں آگے بڑھا کہ ساتھ موجود دکان سے کوئی برگر وغیرہ مل سکے مگر سب ختم ہوچکا تھا۔ مجبوراً وہی بریانی کھانا پڑی جس کو دیکھنے کو بھی جی نہ چاہتا تھا۔
چاول ایسے تھے کہ بس چند نوالے کھا کر ہی چھوڑنے پڑے کہ پیسوں سے زیادہ ضروری میرا پیٹ تھا اور اگلے دو دن تک میرا پیٹ تن درست رہنا بہت ضروری تھا۔ چائے پینے کا دل تو بہت تھا مگر چائے کی شکل دیکھ کر اس سے دور رہنا ہی مناسب سمجھا۔ میں چپ چاپ منہ بنا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی پھر چل پڑی اور مجھے خالی پیٹ بھی نیند نے آن لیا۔ نیند کے ساتھ میری کیا ہی پیاری دوستی ہوچکی ہے۔
اب کی بار آنکھ تھوڑی دیر کے لیے تب کھلی جب ملتان کی آواز لگائی گئی۔ میں نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا تو کچھ سواریاں اتر چڑھ رہی تھیں۔ میں نے پھر ڈیڈی کی نشانی یعنی وہ چادر جو وہ سردیوں میں اوڑھا کرتے تھے، اپنے منہ پر کر لی اور سوگیا۔ آج سے چار سال پہلے جب ڈیڈی نے اس دنیا سے جنت کی طرف سفر کیا تھا تو ان کے ذاتی سامان میں سے میں نے فقط دو چیزیں اپنے پاس رکھ لیں۔ ایک وہ گرم شال جو وہ سردیوں میں اوڑھا کرتے تھے اور ان کے دو عدد گرم جرابوں کے جوڑے۔ وہی شال میں اب ہمیشہ سفر میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں اور ذرا خنک زدہ راتوں میں اپنے اوپر لے کر سوجاتا ہوں۔
گاڑی جو ملتان شریف سے چلی تو نہ جانے اس نے کہاں بریک لگائی۔ کانوں میں بس اتنی آواز پڑی کہ نماز کے لیے گاڑی بیس۔ منٹ یہاں رکے گی۔ نماز پڑی گئی اور میں پھر گاڑی میں سوار ہوکر سو گیا۔ نہ جانے کیوں کر اتنی نیند مجھے سفر میں آتی ہے۔ لوگوں کو سفر میں تھکان ہوتی ہے اور میں سفر میں مزے سے سوتا رہتا ہوں۔ اب کی بار آنکھ تبھی ہی کھلی جب گاڑی ڈیرہ غازی خان کی خدود میں داخل ہوچکی تھی۔ ڈیرہ غازی خان کو آپ پنجاب کا آخری شہر ہی سمجھ لیں۔ میں گاڑی سے اترا تو تھکاوٹ اترنے کے لیے منہ ہاتھ دھونا ضروری جانا۔ اپنے میزبان کو بھی اطلاع کردی کہ حضرت میں ڈیرہ غازی خان پہنچ چکا ہوں۔
آپ بھی پہنچ جائیں۔ کچھ جو وقت ملا تو میں نے موبائل چارجنگ پر لگا دیا۔ تقریباً آٹھ بج چکے تھے۔ شہر ابھی بیدار ہونا شروع ہوا تھا۔ میرا میزبان بھی پہنچ چکا تھا۔ نہ جانے کیا بھلا سا نام تھا اس کا۔ میں اتنا مادہ پرست ہو چکا ہوں کہ اپنے راہ نما کا نام تک بھول چکا ہوں۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی۔ میرے میزبان نے میرے ساتھ تقریباً نیم دھوکا کیا تھا۔ اس لیے اس کا نام بھول جانے میں ہی بہتری ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی جانب سے حکم تھا کہ ناشتہ سخی سرور کے قریب کہیں کیا جائے تو ہم نے ڈیرہ غازی خان میں وقت ضائع کیے بنا منہ طرف سخی سرور کیا۔ سخی سرور ڈیرہ غازی خان سے زیادہ دور نہیں۔ چکر کا ایک چکر لگا کر ہم سخی سرور جانے والی مرکزی شاہراہ پر تھے۔ کسی مہاسیانے نے کہا تھا کہ اتنا پنجابی ولیمے کی دلہن کو نہیں سجاتے جتنا سرائیکی اپنے ٹرک کو سجاتے ہیں اور جس مہا سیانے کا یہ قول ہے وہ مہا سیانا میں خود ہوں۔ سخی سرور آنے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ٹرک آرٹ کو قریب سے دیکھا جائے۔ ٹرک آرٹ پر سرائیکی اور بلوچی، دونوں ہی اپنا حق جماتے ہیں۔
بقول میرے سرائیکی دوستوں کے ٹرک آرٹ سرائیکی ثقافت کی پہچان ہے جب کہ یہ دعویٰ میرے بلوچ بھائیوں کا بھی ہے۔ دونوں میں سے جو بھی حق پر ہو، ٹرک آرٹ ایک زبردست شے ہے اور ان علاقوں میں حقیقتاً لوگ اپنے ٹرک کو بالکل دلہن کی طرح سجا کر رکھتے ہیں۔ میرے بلوچی بھائی بہت اچھے ہیں، کمال ہیں مگر صرف ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ اتنے بڑے گھیر والی شلوار کیوں پہنتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر ان کی شلواریں ایسے اڑ رہی ہوتی ہیں کہ آپ کو ایسے گمان ہوتا ہے جیسے اگلے ہی لمحے وہ شلوار اڑتی ہوئی آپ پر آن گرے گی۔
میرے راہ نما نے ایک بڑے سے ٹرک ہوٹل پر بریک لگا دی۔ اس تمام علاقے میں آپ کو سرائیکی اور بلوچ بہت زیادہ ملیں گے اور اردو بولنے والے بہت کم۔ سرائیکیوں سے بھی زیادہ بلوچ اس علاقے میں آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بلوچ نہیں بھی ہے تو پھر بھی بلوچی زبان کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔
ہمارے ہاں تو عام ہوٹلوں پر چنے کی پلیٹ بھری ہوئی ملتی ہے مگر یہاں جب پراٹھوں کے ساتھ چنے منگوائے تو ظالموں نے ایک بڑی سی پلیٹ میں تھوڑے سے چنے ڈال کر دے دیے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ بالائی اور وسطی پنجاب کے لوگ پراٹھے کے ساتھ سالن بھی ٹھیک ٹھاک کھاتے ہیں۔
ابھی آدھا پراٹھا بھی نہ کھایا گیا تھا کہ سالن ختم ہوگیا۔ سالن کا غم ہلکا کرنے کے لیے دہی منگوانا پڑا۔ دہی بھی بس نام کا ہی دہی تھا۔ عجیب سا کھٹا کھٹا سا۔ اسے بھی زبردستی اپنے پاپی پیٹ کے اندر کیا۔ ایک منفرد شے جو دیکھی وہ یہ تھی کہ ایک پلیٹ میں تھوڑا سا دیسی گھی شکر ڈال کر دیا گیا۔ یقیناً مزے کا ہی ہو گا مگر میں نے اپنے نازک پیٹ کی وجہ سے اسے نا کھانا ہی مناسب سمجھا۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو سفر دوبارہ شروع کردیا۔ سخی سرور کا شہر قریب ہی تھا۔ میری خواہش تھی کہ سخی سرور دربار دیکھ لیا جائے مگر میرے راہ نما نے کہا کہ ہم اسے کل واپسی پر دیکھیں گے۔
ہمارا پلان کچھ یوں تھا کہ ہم مٹ چانڈیہ سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے کوہِ سلیمان کی تینوں مشہور ٹاپس مبارکی ٹاپ، یک بائی ٹاپ اور فورٹ منرو دیکھیں گے۔ ایسے میں ہمیں ایک اچھی بائیک کی ضرورت تھی کیوں کہ مبارکی ٹاپ، یک بائی یہاں کوئی پکی سڑک نہیں جاتی۔ آپ کو آف روڈ بائیک چلانا پڑتی ہے۔ میری اپنے راہ نما سے فون پر بات ہوئی تھی کہ وہ ایک اچھی بائیک لے آئے گا مگر جب وہ میرے سامنے آیا تو ایک عام سی موٹرسائیکل پر تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اس بائیک کے ساتھ ہمارا ان ٹاپس کو کور تقریباً ناممکن ہوگا۔ مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
ڈیرہ غازی خان سے سخی سرور جاتے ہوئے جہاں سخی سرور زیرہ کلو میٹر کا سنگِ میل ہے، اسی کے ساتھ دائیں طرف ایک سڑک ذرا اوپر کا اٹھتی ہے اور ذرا آگے جا کر ہی آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ اب آپ پنجاب کی دھرتی پر نہیں رہے۔ انتظامی طور پر آپ پنجاب میں ہی ہوتے ہیں مگر ان علاقوں میں اکثریت تو چھوڑیں، ہر طرف آپ کا بلوچ ہی نظر آتے ہیں۔ ان ہی کی ثقافت ملتی ہے۔
اب ہم ایک ویرانے میں سفر کر رہے تھے۔ ہمارے اردگرد پہاڑ تھے۔ بعض اوقات منظر کھلتا کوہِ سلیمان کے یہی پہاڑ ذرا دور ہوجاتے مگر رہتے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ ویران سڑکوں پر کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں ہلکی پھلکی ٹک شاپس بنی ہوئی ہیں۔ ان علاقوں میں آ کر آپ ہم بالائی پنجاب والوں کو بھی پانی کی قدر کا ذرا احساس ہوتا ہے کیوں کہ آپ کے آس پاس پانی کہیں بھی نہیں ہوتا۔ آپ کو پانی خرید کر ہی پینا پڑتا ہے۔ گھڑوں میں چشموں کا پانی تو ہوتا ہے مگر ہم اسے پی نہیں سکتے۔
ہمیں عادت کو نہیں ایسے پانی کی۔ ہم بالائی پنجاب والے جتنا پانی ضائع کرتے ہیں، خدا کی پناہ مگر اب مجھے لگتا ہے کہ ہمیں جلد ہی اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ ویرانے میں اچانک سے ایک بڑی سی عمارت آئی۔ معلوم پڑا اٹامک انرجی کمیشن کی طرف سے قائم کردہ اسکول ہے جس کے ساتھ چھوٹی سی ڈسپنسری بھی ہے۔ یہ علاقے کا واحد اسکول اور ڈسپنسری ہے۔ ذرا آگے ہی ہوں تو آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ فلسطین میں چل رہے ہوں۔ سڑکوں کے دونوں جانب باڑ لگی ہے۔ چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں اٹامک انرجی کمیشن کا ہی کوئی پروجیکٹ شروع ہونے والا ہے۔
ذرا آگے کو ہوئے تو ایک چشمہ بہہ رہا تھا، جس کے درمیان سے سڑک گزر رہی تھی۔ پُرلطف بات یہ تھی کہ سڑک کے دونوں طرف جو پانی تھا، اس میں مچھلیاں تیر رہی تھیں اور بعض اوقات چند چھوٹی چھوٹی مچھلیاں سڑک پار کر کے ایک طرف سے دوسری طرف جاتیں تو منظر دوبالا ہوجاتا۔ مزید آگے ہوئے تو دس بارہ سال کے لڑکے اور لڑکیاں چھوٹی چھوٹی بوریوں میں کہیں سے مٹی کا رہے تھے۔ معلوم پڑا کہ یہ کوئی خاص مٹی ہے اور اسی مٹی سے مقامی لوگ اپنے بال دھوتے ہیں۔ نہانے دھونے کی جدید چیزیں ابھی ان علاقوں میں شاید نہیں پہنچیں۔ چاروں اطراف ویرانہ تو تھا مگر سڑک پکی ہے۔
فی الحال یہی ایک سہولت ہے جو وہاں کی عوام کو میسر ہے۔ میرے راہ نما نے اچانک موٹرسائیکل روکی اور قے کرنا شروع کردی۔ نہ جانے اسے اچانک سے کیا ہوگیا تھا۔ مجھے اپنا یہ سیاحتی دورہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا ہوا محسوس ہوا۔ کچھ دیر آرام کے بعد ذرا طبعیت سنبھلی تو ہم نے پھر مٹ چانڈیہ نخلستان کی طرف رخ کیا۔ سڑک دائیں طرف مڑی اور اچانک سے بہت چھوٹی سی ہوگئی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم گورنمنٹ ہائی اسکول مٹ چانڈیہ کے سامنے کھڑے تھے۔