دمِ زندگی رمِ زندگی

پاکستان کی تعمیر میں حصہ ڈالیں…تخریب میں نہیں

صدر جمعیت اہلحدیث، پاکستان

پاکستان کی بنیاد اور آزادی میں جن شہداء کا خون ہے، ان کی اگلی نسل ابھی زندہ ہے، جو تیری میری کی تقسیم میں اسے اجاڑنے کے حق میں نہیں کیوں کہ انہوں نے اْجاڑے دیکھے ہیں اور انہیں معلوم ہے اجڑنا کسے کہتے ہیں۔

کسی دعوت میں ایسے ہی اک بزرگ سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے ’’بیٹا اس ملک کے لئے کچھ نا کچھ کرتے رہا کرو، میں نے عرض کی، بابا جی مجھے بتائیں! میں اس ملک کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟ کہنے لگے، بیٹے جب سے اجڑ کر آئے ہیں تب سے میں بلا ناغہ دو نفل پڑھ کر اس ملک کے لئے، اس کے رہنے والوں کے لئے اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ اے اللہ! ہم اجڑ کر یہاں آئے ہیں، اب یہ نا اجڑیں۔

اسی اک بات سے ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں اس ملک کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ہم نے اس ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم اس بات کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں، ہم ابتداء ہی سے اسے اجاڑنے کا ذمہ دار اک دوسرے کو قرار دیتے آرہے ہیں۔

الزام لگانے سے انسان اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوجاتا۔ اگر آپ کہیں کہ میں نے تو اس ملک کا کوئی نقصان نہیں کیا، تو میں آپ سے پوچھوں گا، مجھے بتائیے جس ڈرم سے گندم نکال کر کھائی جائے اک وقت آنے پر وہ خالی نہیں ہو جاتا ؟ کیا پھر اس کو دوبارہ بھرا نہیں جاتا ؟ جو دوبارہ بھرنے کا سوچے ہی نا، اس کے بارے آپ کی کیا رائے ہے؟ اور اگلی نسل کے لئیے زمین کی وہ حالت کردے کہ وہ فصل دینے سے انکاری ہوجائے، تو یہ تخریب نہیں تو کیا ہے؟ آپ جب اس ملک میں ہیں، کھاتے پیتے آرہے ہیں، لیکن اسے دیا کیا ہے؟

حکمرانوں کو چھوڑیں ہم خود کو دیکھیں۔ کھیتوں سے گندم اٹھائی،کھاگئے، نا کوئی عشر نا کوئی گلی محلے کی تعمیر میں حصہ۔ باقیات کو آگ لگائی اور ملک کو دھواں دیا، اک زمیندار درخت اگا کر شاہراہوں کوخوب صورتی بخش کر اس ملک کی فضاؤں کو خوش گوار نہیں کرسکتا؟ آنے والی نسل کو سموگ سے پاک پاکستان دینے کے لئے۔ فضائی آلودگیوں سے پھیلنے والی بیماریوں سے اپنی نسل کو بچانے کے لئے ہم پاکستانی اتنی بھی تعمیر نہیں کرسکتے کہ سال میں ایک درخت ہی لگا دیا کریں۔ جنگلات ہم کھا گئے،کالونیوں کی تعمیر کرتے کرتے اس ملک میں تخریب پیدا کردی۔ کنکریٹ کے جنگل بچھا دئیے، لیکن موٹرویز کے گرد درخت لگانے کی توفیق نا ملی۔ اک سکول ٹیچر لاکھوں روپے سرکار سے لیتا ہے۔

کیا ان اساتذہ نے کبھی سوچا کہ اس ملک کو ایک بھی ایسا شاگرد دیا جو لاکھوںکمانے والا ہو؟ تدریس کے نام پر اپنی نوکری عزیز رہی اور آگے نوکر پیدا کئے۔ آپ آج بھی سکولز میں چلے جائیں، آج سے بیس سال پہلے اگر آپ نے پرائمری کیا تھا تو وہی کرسیاں اسی حالت میں استعمال ہورہی ہوں گی، جو آپ کے ہوتے تھیں۔ اساتذہ نے طلباء کے پیسے لگائے تو بھی کھانے پینے کے کسی فنگشن پر، سکولز ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور معمار فنڈ کھا رہے ہیں۔

سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور سکول ایک بھی معمار پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ سچائی اور دیانت بنیاد میں ہی ہڈیوں میں اتار دینے کے خصائص ہیں لیکن یہاں پانچویں کے کسی طالب سے پوچھیں جھوٹ کسے کہتے ہیں؟جھوٹ سے ملکوں کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ اسے معلوم نہیں ہوگا۔ خیانت کیا ہے؟کرپشن کسے کہتے ہیں؟کرپشن سے ٹوٹ پھوٹ کیسے ہوتی ہے؟ دور دور تک طلباء کو خبر نہیں۔ مڈل میں بچے بالغ ہورہے ہیں، کوئی ان کی تربیت اور فکری تعمیر کرنے والا نہیں، وہ اپنے اجڑنے کا آغاز اسکولوں سے کررہے ہیں، جہاں ٹیچر کی شکل میں ملازم بیٹھے ہیں اور صرف مہینہ پورا کرکے تنخواہ لینا مقصد ہے۔ وہاں پھر تعمیر کون کرے گا؟ طلباء کو بتانے والا کہ بیٹو اس ملک کو ہم آباد کیسے کرسکتے ہیں اور اسے آباد ہم ہی نے کرنا ہے۔ یہ سبق پڑھانے والے معلم ندارد ہے۔

اب تو جگہ جگہ لکھا یہ ملتا ہے، بیرون ملک ویزہ آسان قسطوں میں، فرنچ سیکھیں اور باہر جاکر کمائیں۔ ڈنکی لگائیں اور یورپ جائیں۔ یہاں حکمرانوں سے لیکر اک عام آدمی تک بس یہی فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ میرا کچھ بننا چاہیے، باقی سب جائے بھاڑ میں۔ یہاں سڑکیں تعمیر ہوتی ہیں اور سیوریج والے اگلے دن ہی توڑ جاتے ہیں،کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ معیاری انڈسٹری کا قیام کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں اور جو ٹوٹی پھوٹی ہے، وہ اپنے کیمیکلز سے ملک کو کھنڈر بنا رہی ہے۔

دھواں ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور حکومت سکول بند کرکے بیٹھی ہے۔ ہر بندہ اپنے حقوق کا رونا تو روتا ہے، لیکن اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بچوں کو یہ سکھایا ہی نہیں جارہا کہ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ گزشتہ پونی صدی میں ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ کسی کو گندہ کس طرح کرتے ہیں۔ اپنے جرائم کا قصور وار کسی دوسرے کو کیسے قرار دیتے ہیں اور بس۔ تھانے کچہری میں چلے جائیں، بداخلاقی اور بوسیدہ خیالوں کے ایسے کھنڈرات نظر آتے ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ عدالت میں پیش ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہتھوڑے شائد وطن عزیز کو توڑنے کے لئے رکھے ہیں۔

میڈیا کی طرف نظر دوڑائیں تو سب پیسے کی گیم نظر آتی ہے۔ نامور صحافی جو تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتے اور اس ملک کے بارے میں آواز اٹھاتے تھے، آج کل مورنگا کا پاؤڈر بیچ رہے ہیں۔ پیٹ ملک سے مقدم ہوچکا،اور ذات انجمن سے۔ سسٹم میں جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ ہے۔ ڈاکٹری کو مسیحائی کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی اب صرف کمائی کا کھیل رہ گیا، اس سے آگے کچھ نہیں۔ سب صبح سے شام تک دوڑ رہے اور سمت معلوم نہیں۔ آئیے دوستو! تھوڑا رک جائیں، آبا کے ملک سے اس حد تک زیادتی اچھی نہیں۔ صبح وشام اس ملک کو چھوڑنے کا خواب دیکھنے والے جوانو! پردیس دیس سے بہتر نہیں۔

غیروں کا کام کرنے کے بجائے ہم اپنا کیوں نہیں کرتے؟ ہم وہ قوم ہیں جو پورا مکان تعمیر کرکے گھر کے سامنے کا کھڈا بھرنے میں حکومت کو کوستے ہیں۔ کرائے کے مکان کا کرایہ دے کر بھی ہم سمجھتے ہیں اسے توڑنے کا ہمیں اختیار نہیں۔ لیکن ملک ہے کہ جو چاہیں اس کے ساتھ کریں۔ جہاں چاہیں گندگی کے ڈھیر لگادیں، جب چاہیں توڑنے لگ جائیں۔ احتجاج کے نام پہ ملک کو چھوڑ کر پارٹیوں کے ساتھ ہو جائیں اور جلاؤ گھیراؤ کریں۔ سرکار عوام کی خدمت کے لئے عہدہ دے لیکن ہم اسی عہدہ کو مال ہتھیانے کے لئے استعمال کریں،کیا یہ تعمیر ہورہی ہے؟

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں

کچھ باغباں ہے برق و شرر سے ملے ہوئے

تعمیر کیسے ہوگی؟

تعمیر کے لئیے ضروری ہے کہ اس ملک کو حقیقی معنوں میں اپنا اور اپنی نسل کا ذاتی گھر سمجھا جائے۔

بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

صوبوں، شہروں، ذاتوں اور امیری غریبی کی تقسیم سے نکل کر خود کو پاکستانی سمجھا جائے، ملکِ عزیز، اللہ کی عظیم الشان نعمت ہے، اس نعمت کی دل میں قدر بٹھائی جائے، اس کی سڑکوں سے لے کر اس کے ایک ایک درخت کے نقصان کو ذاتی نقصان سمجھا جائے۔

کسی پاکستانی کو کسی بھی طور حقیر نہ جانا جائے۔ حکومت،ادارے،میڈیا،ٹیچرز ،تمام سیاسی پارٹیاں ،مذہبی جماعتیں ملک کی قدرومنزلت پہ کسی قسم کا کمپرومائز نہ کریں۔ کسی کا رہنا اس ملک میں دشوار نہ ہو۔ جو جرم کرے اسے اس کی سزا ملے، درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ انسانی جان کو مکمل احترام حاصل ہو۔ کوئی بھی عہدے دار اپنے عہدے سے انحراف نہ کرے۔ اور نہ ہی اپنے عہدے کی بنیاد پہ کسی کو تنگ کرے اور اپنے مفادات حاصل کرے۔ جب تک شخصیات ملک سے مقدم رہیں گی، تعمیر نہیں ہوگی۔

اپنی ذات ملک سے مقدم ہوگی تو بھی تعمیر نہیں ہوگی۔ تعمیر کی اکائی یہ ہے کہ ایک ایک فرد ملک کا سوچے، گاؤں ،گلی محلوں سے ملک سنوارنے کی تحریک شروع ہو اور ہر پاکستانی اس تحریک کا رکن ہو۔ اشرافیہ لوٹ کھسوٹ سے باز آئیں۔ قانون کے شکنجے ان پہ سخت ہوں، باہر کی دولت ساری ملک میں آئے۔ پاکستان کی مصنوعات بیچی جائیں، روپیہ ملک میں لایا جائے، سودی خوری سے اجتماعی توبہ کی جائے ،کرپشن کا ناسور ہنگامی بنیادوں پر ختم کیا جائے۔

دمِ زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی

غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ’ یہی ہے شان قلندری

زکوۃ کے نظام کا اس ترتیب سے منظم کیا جائے کہ حقدار تک اس کا حق پہنچے۔ خیرات تقسیم کرنے اور ماہانہ دو ہزار، تین ہزار دے کر راشن پیکج جیسے وقتی شاباش سمیٹنے کے تمام تر ذرائع عوام کو روز گار دینے پہ صرف کئے جائیں۔ بھیک نہیں کاروبار، یہ ٹرینڈ چلنے چاہئیں۔

کسی بھی کام کرنے والے کے کام کی توہین نہیں ہونی چاہیے۔ اگر مجبور یا بوڑھا کام کر رہا ہو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ناکہ اسے بے چارہ کہہ کر اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اسے بھیک پہ لگانا چاہیے۔ سیرت رسولؐ میں اک خوبصورت واقعہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اک ضرور مند شخص آیا اور اپنا عذر پیش کرکے آپ سے اپیل کرنے لگا۔ حضورؐ نے اس سے پوچھا تیرے گھر کچھ نہیں وہ کہنے لگا حضورؐ کچھ نہیں سوائے اک چادر اور پیالے کے۔آپؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ لیکر آؤ ،وہ شخص چادر اور پیالہ لیکر واپس آیا تو آپؐ نے ان دونوں چیزوں کو بیچنے کی آواز بلند فرمائی، ایک درہم قیمت لگی، آپؐ نے فرمایا زیادہ کون دے گا اک شخص نے دو درہم دئیے آپؐ نے وہ چادر اور پیالہ اسے بیچ دئیے، دو درہموں میں سے اک درہم چادر اور پیالے کے مالک کو دے کر فرمایا کہ اس کا راشن لے کر گھر والوں کو دے اور دوسرے درہم سے کلہاڑا لے کر آؤ۔

اس شخص نے ایسے ہی کیا۔ وہ ایک درہم کا راشن لے کر گھر والوں کو دے کے بازار سے کلہاڑا لینے چلا گیا جبکہ حضورؐ نے خود اپنے ہاتھوں سے دستہ بنایا اور کلہاڑے میں ٹھونک کر اس شخص سے فرمایا کہ جنگل نکل جاؤ اور پندرہ دن لکڑیاں اکٹھی کرو، یہاں نظر نہ آنا، وہ شخص پندرہ دن بعد آیا تو اس کے ہاتھ میں درہموں کی تھیلی تھی تو آپ ؐنے فرمایا یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، (ابوداؤد)

لہٰذا! جب معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں تو ہر فرد کوکردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا

Load Next Story