سرتاج عزیز ، وطن کا قابل فخر فرزند
خیبرپختون خوا کے ضلع نوشہرہ میں اس خطے کے ایک عظیم روحانی پیشوا اورکاکاخیل میاں گان کے جد امجد حضرت شیخ سیدکستیر گل المعروف بہ حضرت شیخ رحمکار کاکا صاحب کا مزار واقع ہے‘ یہ مرجع خلائق ہے اور لوگ بڑی تعداد میں ان کے مقبرے کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔
یہ اس علاقے کی وجہ شہرت ہے اوراسی بنا پر گاؤں کانام زیارت کاکاصاحب پڑگیا ہے۔ ویسے تو یہ علاقہ کئی ایک اورحوالوں سے بھی جانا جاتا ہے مثلاً قاضی حسین احمد‘جوملت اسلامیہ کا ایک نایاب ہیرا تھے، وہ زیارت کاکا صاحب کے ایک دینی وعلمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ معروف دینی وعلمی سکالر سید تقویم الحق کاکاخیل نے بھی اسی گاؤں میں آنکھ کھولی۔
ان نمایاں شخصیات میں بین الاقوامی سطح پر جانی مانی شخصیت سرتاج عزیزبھی شامل ہیں جن کی گراں قدر خدمات سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتا۔ وہ نہ صرف ایک زیرک سیاستدان تھے بلکہ اعلٰی پائے کے معیشت دان بھی تھے ۔ اس مضمون میں سرتاج عزیز کی ابتدائی زندگی، ان کی جدوجہد ،کامیابیوں اور پاکستان کے لیے خدمات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
سید سرتاج عزیز 1929 میں خیبرپختون خواکے ضلع نوشہرہ کے مردم خیزاورایک علمی سید کاکا خیل خاندان میں پیدا ہوئے۔ پانچویں تک تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی، ان کی زندگی کے ابتدائی دن چارسدہ، ہری پور، ایبٹ آباد اورڈیرہ اسماعیل خان میں گزرے اورانہوں نے میٹرک کے امتحان میں ڈی آئی خان ضلع میں پہلی اورصوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان کے والد اس دوران ان شہروں میں بطور نائب تحصیل دار، تحصیل دار اور ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
سرتاج عزیز جب محض چار برس کے تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد ان کی پرورش ان کی بڑی بہن نثار نے کی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد سرتاج عزیز نے اسلامیہ کالج لاہور، ہیلے کالج آف کامرس اوردیگر تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ 1949 میں پنجاب یونیورسٹی سے اقتصادیات کے شعبے میں ڈگری حاصل کی، امریکاکی ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرزکیا۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن رہے اورپھر مرتے دم تک پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے متحرک رہے۔
2013 میں مسلم لیگ کی حکومت آئی توانہیں خارجہ امور جیسے اہم شعبے کی دیکھ بھال کا فریضہ سونپاگیا۔ اس عرصے میں نہ صرف انہوں نے دنیا بھرکے اہم ممالک کے دورے کیے، وہاں پاکستان کامؤقف رکھا بلکہ اندرونی پالیسیوں اورقانون سازی کے عمل میں بھی خاصے متحرک رہے۔
ان کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کیا گیا۔ انہوں نے گلگت بلتستان اور کشمیر سے متعلق بھی وفاقی حکومت کو اہم رپورٹس مرتب کر کے پیش کیں، اپنی کتاب ’’بِٹوین ڈریمز اینڈ ریئلٹیز‘‘ میں انہوں نے اپنی زندگی کے چار مراحل کا تفصیل سے ذکرکیا ہے۔ وہ تحریک پاکستان کاحصہ رہے، مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے رہنما کے طور پر وہ بانی پاکستان قائد اعظم سے بھی ملے اورپھر زندگی ایسے گزاری جیسے ان کی نصیحتیں اپنے پلو سے باندھ رکھی تھیں۔
انہوں نے1950 میں ملازمت اختیار کی، کریئر کے ابتدائی20 سال یعنی 1950 سے لے کر 1970 تک وہ بطور سول سرونٹ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1971 سے 1984 تک وہ انٹرنیشنل سول سرونٹ کے طور پرمتحرک رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے اقوام متحدہ، ورلڈ فوڈکونسل، انٹرنیشنل فنڈ فارایگری کلچرڈویلپمنٹ اوردیگر اداروں میں کام کیا۔ اس کے بعد1984 سے لے کر1999 تک وہ سیاسی میدان کے شہسوار ٹھہرے۔ سید سرتاج عزیز نے 1984 میں وطن واپسی پرپاکستانی سیاست میں حصہ لیا اور وزیر مملکت برائے خوراک وزراعت کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے۔ 1985اور 1994میں خیبر پختون خوا سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ اکتوبر1985 میں وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے خوراک و زراعت مقرر ہوئے۔
جنوری 1986 میں وفاقی وزیر خوراک، زراعت و دیہی ترقی کے عہدے پر فائزہوئے۔ اگست 1990سے جولائی 1993 تک وفاقی وزیرخزانہ، منصوبہ بندی ومعاشی امور کے وزیر بھی رہے۔ نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد نوازشریف کے بعد آنے والے شاہد خاقان عباسی نے عزیزکو ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن مقرر کیا۔ سرتاج عزیز مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کی چارسیاسی تقرریوں میں شامل تھے۔ اپنے مختصر دورمیں ان کا ہدف کمیشن کی فعالیت کو بہتر بنانا تھا، وہ 31 مئی 2018 تک اس حیثیت میں کام کرتے رہے۔
مسلم لیگ (ن) کی 2013 میں حکومت آنے سے قبل وہ اپنی زندگی کے چوتھے فیز میں تعلیمی شخصیت کے طور پر سامنے آئے اورنجی تعلیمی ادارے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے۔ سرتاج عزیز اپنی کتاب میں قائداعظم سے پاکستان بننے اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے لے کر ضیا الحق کے دور تک اور محمد خان جونیجوسے نوازشریف اور پرویزمشرف، پیپلزپارٹی اورپھرمسلم لیگ(ن) کے دورکا احاطہ کرتے ہیں۔
سرتاج عزیزغیرمتنازع شخصیت کے مالک تھے،جو ذمہ داری ملتی اسے بخوبی انجام دیتے۔ سرتاج عزیز 1993 سے 1997 تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل رہے، ان کے ذمے معاشی اصلاحات پرعمل درآمد یقینی بنانا بھی شامل تھا۔ سرتاج عزیز نظم وضبط کا بہت خیال رکھتے اورپارٹی کا سیکریٹریٹ بھی انہوں نے احسن انداز میں چلایا۔ 1967 میں وہ پلاننگ کی وزارت میں آئے اور پھر ملک کے لیے کئی اہم معاشی منصوبے تیارکیے، پیرانہ سالی کے باوجود ان کاحافظہ بہت تیزتھا، وہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔
طویل عمری ان کے کام پربالکل اثرانداز نہیں ہوئی، وہ بڑی دل جمعی سے کام کرتے تھے۔ یادداشت بہت مضبوط تھی اورحقائق پر بات کرتے۔ ان کا وزارت خزانہ کا تجربہ خارجہ پالیسی میں بھی کام آتا تھا، وہ چیزوں کو محص سیاسی نہیں بلکہ معاشی اعتبارسے بھی دیکھتے۔ بھارت کے ساتھ ’’ لاہور پراسس‘‘ پرانہوں لکھاکہ چناب فارمولا اور لاہور ڈکلریشن پر تفصیل سے مذاکرات ہوئے، ان کے مطابق یہ بدقسمتی ہوئی کہ انڈیا میں واجپائی حکومت کے اقتدار سے بے دخل ہونے سے مسئلہ کشمیر پھر کھٹائی میں پڑگیا۔
ان کے مطابق جب میں 12 جون 1999 کو نیودہلی میں واجپائی سے ملا تو مجھ سے بات کرتے ہوئے جذبات میں ان کی آواز بھرآئی اور انہوں نے کہاکہ ’’میں دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کے لیے بڑی نیک نیتی اوربڑی امید سے پاکستان گیا تھا، مگر کارگل بحران نے سب تہس نہس کردیا۔‘‘
سرتاج عزیز اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیںکہ یہ بات سن کرمیں نے خود بڑی مشکل سے اپنے جذبات پرقابو پایا۔ ان کے مطابق جب وہ مارچ 2005 اور 2006 میں انڈیا میں مختلف کانفرنسز میں گئے توہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے انہیں ذاتی حیثیت میں کھانے پر بلایا اوران سے خوب دل کی باتیں کیں اورکہا کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے ساتھ پائیدار امن کے خواہاں ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر میں اپنے دورحکومت میں اس بڑے ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب ہوگیا توشاید تاریخ میں میرا نام رقم ہو جائے‘‘
سرتاج عزیز نے انڈیا کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے پر بھی تفصیل سے کتاب میں لکھا ہے، ان کے مطابق وفاقی کابینہ میں چند آوازیں ہی جلد انڈیا کو جواب دینے کے لیے بے تاب تھیں، ان کے مطابق وفاقی کابینہ نے یہ کہہ کرمعاملہ وزیراعظم پرچھوڑدیا کہ اگردھماکے کرنے پڑتے ہیں توپھرپلان بی بھی تیارکرلیں جس میں یہ واضح ہو کہ امریکہ اور عالمی پابندیوں کا ہم نے کس طرح مقابلہ کرناہے۔
سرتاج عزیزکے مطابق دھماکوں سے قبل نوازشریف نے امریکی صدرکوبڑے اطمینان سے بتا دیاکہ اب کوئی اورچارہ نہیں رہ گیا ہے۔ ان کے مطابق چاربرس بعد 2002 تک ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا توکیا ہو جاتا، مگر ان کے مطابق جب 13دسمبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پرحملے کے بعد جس طرح دس ماہ تک پانچ لاکھ کی تعداد میں انڈین فوج پاکستان کی سرحد پرتعینات رہی تواس سے ایٹمی دھماکوں کی اہمیت بھی واضح ہوگئی۔
سرتاج عزیزکے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اوراس وقت کی اپوزیشن لیڈربے نظیر بھٹو نے بھی حکومت پر ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا لیکن سرتاج عزیزدھماکوں کا مطالبہ کرنے والوں پرتنقید کرتے رہے۔ سرتاج عزیز نے اپنی کتاب میں بھی پیپلزپارٹی کے دورمیں بدعنوانی کے واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی قیادت پر بھی بے باک تبصرے کیے لیکن مسلم لیگ (ن) پرقابل ذکر تنقید نہیں کی۔ انہوں نے محمد خان جونیجوکے دورسے مسلم لیگ کے دھڑوں کو یکجا کرنے سے متعلق اپنی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
سرتاج عزیز نے ذاتی طورپر بہت کامیابیاں سمیٹیں اورہرشعبے میں انہوں نے ایک مقام حاصل کیا، جس کا اعتراف بیرونی دنیا نے بھی کیا۔ تاہم ان کے ساتھ ایک المیہ یہ ہواکہ تحریک پاکستان کے کارکن کے طورپر وہ 75 سال انتظار کرتے رہے کہ ان کے خوابوں کی تعبیر مل سکے گی لیکن جوخواب انہوں نے دیکھے تھے وہ ادھورے رہ گئے۔
وہ اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتے ہیںکہ یہ درد ان کے لیے ناقابل بیان ہے، وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کسی عسکری قوت کے نتیجے میں نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد اورووٹ کے ذریعے بنا مگر پھر یہاں جمہوری عمل اور ووٹ کا تسلسل 75 برسوں تک جاری نہ رہ سکا۔
سرتاج عزیز جدید معاشی اصلاحات کے بانی تھے مگر بدقسمتی سے ملک میں جمہوری تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وژن پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1990 کی دہائی میں جومعاشی پالیسیاں پاکستان اختیارکیے ہوئے تھا اسی پر انڈیا اور بنگلہ دیش نے بھرپورعمل کیا مگر ان کے آگے نکلنے کی وجہ وہاں جمہوری عمل کا تسلسل رہا۔ وہ وقت کے بہت پابند تھے، انتہائی محتاط گفتگوکرتے، ان کے مطابق وہ کبھی بھی بنا تیاری اور موضوع پر متعلقہ افسران اور ماہرین سے تازہ ترین معلومات لیے بغیر میٹنگ میں نہیں جاتے تھے۔
بطور ڈپٹی چیرمین انتہائی پیچیدہ موضوعات پرتیار ہونے والی دستاویزات پر زبانی بریفنگ پر اکتفا کرنے کے بجائے بچشم خود مطالعہ اورضروری تحقیق کرکے نوٹ ڈالنے کی صورت اپنی رائے کاتحریری اظہارکرتے۔ فیصلہ سازی میں تاخیر ان کی فطرت کے خلاف تھی، فیصلوں پرعمل درآمدکی بابت بازپرس کرتے اور بروقت جواب طلبی کرتے ہوئے متعلقہ افسران سے بازپرس کرتے اورذرا سی تاخیر بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ صرف دفتری اوقات کی پابندی ہی نہ کرتے بلکہ عمومی رویوں کے برعکس بالخصوص صبح کے وقت پندرہ منٹ پہلے پہنچ جاتے۔
اگرکسی محفل میں ان کی تقریر یا گفتگو پندرہ منٹ کی رکھی گئی ہے توسولہواں منٹ نہیں ہونے دیتے تھے۔ درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر سیکرٹری تک ہر ایک ان سے کھل کر بات کرنے میں آزاد تھا، یہ قابل تقلید شخصیت 2 جنوری 2024ء کو 94 سال کی عمرمیں دارفانی سے کوچ کرگئی ۔ممتاز ناول نگار نثار عزیز بٹ ان کی بڑی ہمشیرہ تھیں۔
اعزازات
سید سرتاج عزیز نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لیا۔ 46۔1945ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کے لیے کام کرنے پر انہیں مجاہد پاکستان کاسرٹیفکیٹ بھی ملا۔ انہوں نے مارچ 1946ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں اسلامیہ کالج لاہور میں اپنی کلاس میں اول آنے پرانعام بھی حاصل کیا۔
1959 اور 1967ء میں منصوبہ بندی وترقی کے شعبہ میں گراں قدرخدمات سر انجام دینے پرحکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ پاکستان اورستارہ خدمت سے بھی نوازے گئے۔ سرتاج عزیزمسلم لیگ (ن) کی سنٹرل کمیٹی کے رکن بھی رہے، انہوں نے پاکستان کی تاریخ اور معاشی موضوعات پرکئی کتابیں لکھیں، پاکستان کی تاریخ پر ان کی کتاب ’’بِٹوین ڈریمز اینڈ ریئلٹیز‘‘ ایچی سن کالج کے نصاب میں شامل ہے۔