وفاقی کابینہ نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کی قومی پالیسی2024، خصوصی عدالتوں کی حدود/ دائرہ کار میں تبدیلی کی منظوری دی ہے۔ پالیسی کے تحت معاشرے میں امن، رواداری اور تنوع کی اقدار کو فروغ دینے اور پرتشدد انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو مؤثرطور پر استعمال کیا جائے گا، اس پالیسی کا مقصد معاشرے کے پسماندہ طبقات کو تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔
پاکستان میں اس وقت جو پرتشدد انتہاپسندی کے مظاہر نظر آتے ہیں، وہ پاکستانی معاشرے کی اجتماعی سوچ، فکر اور کلچر سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ پرتشدد انتہاپسندی کے پس پردہ مخصوص مائنڈ سیٹ کا حامل طبقہ طاقتور طبقہ ہے جو عوامی رائے، سوچ ، فکر اور کلچر کو بزورقوت دبانے کی شعوری کوشش کررہا ہے تاکہ اس اقتدار پر کنٹرول کرکے اس ملک کے وسائل پر قبضہ کرسکے ۔
اس مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل طبقے نے اپنے اثرورسوخ اور مقتدر ہونے کے ناتے پاکستان کی معاشرت، سیاست اور کلچر کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں نصاب تعلیم سے لے کر معاشرت اور سیاست تک کو مخصوص نظریات کا تڑکا لگا کر اسے آئینی اور قانونی تحفظ دینے کی شعوری کوشش کی گئی ہے اور یہ گروہ اب بھی اس کوشش میں مصروف ہے۔ معاشرے میں روشن خیال، معتدل اور رواداری کی سوچ اور سیاست کو کچلنے کے لیے رجعت پسند تنظیموں، سیاسی پارٹیوں ، مذہبی گروہ اور شخصیات کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ اس پالیسی کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
پورا ملک انتہاپسندی اور اس سے جنم لینے والے تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان مخالفت خارجی قوتوں نے اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور وہ اب بھی کررہاہے۔ پرتشدد انتہاپسندی پاکستان کے امن و استحکام کے فروغ، انسانی حقوق کے تحفظ، انسانی امداد کی فراہمی اور پائیدار ترقی کے فروغ کی مشترکہ کوششوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ہمیں پہلے سے زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ متشدد انتہا پسند گروہ اپنا زہر پھیلانے کے لیے انٹرنیٹ پر سازگار جگہیں ڈھونڈچکے اور مسلسل اپنا کام کر رہے ہیں۔
یورپ میں نیو نازی اور سفید فام برتری کی حامی تحریکیں مضبوط ہورہی ہیں، بھارت میں ہندوتوا سوچ بھی اسی متشدد انتہاپسندی کی شکل ہے جب کہ ایران ، ترکی اور عرب ممالک میں بھی علاقائی و قبائلی عصبیتں پروان چڑ رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں بھی اس سے ملتی جلتی سوچ نے تشدد پسندی کارخ اختیار کیا ہے ۔ اس پرتشدد انتہاپسندی نے مذہب و مسلک کا لبادہ بھی اوڑھ رکھا جب کہ قومی پرستی کا اثر بھی موجود ہے ۔ پرتشدد انتہاپسندی دراصل دہشت گردی کی ہی ایک شکل ہے۔پاکستان میں بھی ایسے عناصر متحرک ہیں جو عوام کے اجتماعی مفادات اور ریاست کے مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔
دراصل یہ گروہ تشدد اورکالے دھن کی طاقت کے ذریعے ریاست کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستانی تاریخ کو دیکھا جائے تو پاکستان انتہا پسندی کو مخصوص مائنڈ سیٹ کی حامل طاقتور اشرافیہ کی مدد، حمایت اور سہولت کاری حاصل رہی ہے اور اب بھی ہے۔پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو مسلسل نرم رکھنے کی پالیسی نے اس سوچ کو ماوراء آئین و قانون ہونے کا احساس دلایا ہے۔
جب کسی طبقے کو پاکستان کے آئین و قانون پرواہ نہ ہو، اسے ریاست اور حکومت کی رٹ کا بھی کوئی خوف نہ ہو، اس کے پاس اپنے ہی ملک میں ایسے علاقے موجود ہوں جہاں آئین و قانون کی عملداری نہ ہو، ریاست اور حکومت کی رٹ نہ ہو تو لازم ہے کہ ایسا طبقہ منہ زور ہوگا، وہ وسائل پر کسی قانونی گروہ سے زیادہ اپنا حق فائق سمجھے گا۔ پاکستان میں ایسا ہی ہورہا ہے۔
پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ جانوں اور اربوں ڈالرکا نقصان اٹھا چکا ہے ۔آج پاکستان قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ پاکستان میں شدت پسندی کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں اور اس سے وابستہ عناصر تن آور درخت بن گئے ہیں اور معاشرے میں تنگ نظری، نفرت، عدم برداشت اور جارحیت مزاج کا حصہ بنتی رہی جس کا خمیازہ آج برداشت کررہے ہیں۔ جب ریاست قتل غارت کرنے والوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرے گی، عوام میں مذہبی منافرت پھیلا کر ایک دوسرے کا ووٹ تقسیم کرنے کی خاطر انھیں گلدستے اور مٹھائیاں پیش کی جائیں گی تو پرتشدد واقعات معمول ہی بنیں گے۔
آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب اور قوم پرستی کا نام استعمال کرتی آرہی ہے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے مذہب ہی کو آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں یا قوم پرست تحریکوں کی مدد و حمایت کرتی ہیں۔ آج دہشت گردی پوری معیشت کا روپ دھارچکی ہے، شدت پسندی کا زہر ہمارے قومی وجود میں سرایت کرچکا ہے۔
شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں اور وقتاًفوقتاً ان کی کارروائیاں سامنے آتی رہتی ہیں، ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کررہی ہے۔ شدت پسندی نے پورے معاشرے اور ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آج ہماری بقا صرف اس میں ہے کہ ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہرکوشش کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہم عالمگیر معاشرے کا حصہ بن سکیں اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں۔
پرتشدد انتہا پسندی کا تعلق ہے، اس کے حل کے لیے قانون کی بالادستی اور عوام کی تربیت کی ضرورت ہے، نیز ان عوامل کو ختم کرنا ضروری ہے جس کے باعث عوام میں عدمِ تحفظ پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مخصوص گروہ کی بالادستی ختم کرنے کی ضرورت ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا تسلط جمائے بیٹھا ہے۔ انتہا پسندی ، یہ فعل ہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
سب سے پہلی وجہ جو انتہا پسندی کو بڑھاوا دیتی ہے وہ غیرمنصفانہ تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی اس کا سبب ہے۔ مطلب تعلیمی اور معاشی نظام انتہا پسندی کی آگ کو سلگاتا ہے ؟ محروم طبقہ مراعات یافتہ طبقہ کے بارے میں ہمیشہ منفی سوچتا ہے اور انتہا کا سوچتا ہے۔ اب یہ سوچ اس طبقہ کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلتی ہے یہ یقینی امر ہے۔ نظریات، ہمیں شروع سے ہی انتہا پسند نظریات پڑھائے اور سمجھائے جاتے ہیں۔ ہمارا سلیبس دیکھیں جس میں ان نظریات کی بھرمار ہے۔ جب ایک بچے کو انتہا پسند سوچ دیں گے تو اس بچے سے کیا امید کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں کیا کرے گا۔
تیسری وجہ سیاسی نظام ہے جو عوام کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرتا وہ عوام کو مجبورکرتا ہے کہ لوگ سڑک پر آ کر اپنے مطالبات کے حق میں جلاؤ گھیراؤ کریں اور اپنی آوازکو ایوان بالا تک پہنچائیں، توگویا ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام سرے سے رائج ہی نہیں جس کے توسط سے اپنی آواز اور مطالبات کا پرچارکیا جائے۔ ملک کے ریاستی نظام میں توازن نہیں ہے۔
ریاست اور حکومت کو چلانے والوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام متوازن نہیں ہے۔ نظام عدل یکطرفہ طور پر فیصلہ دینے والوں کی جانب جھکا ہوا ہے، ان پر کوئی چیک نہیں ہے۔ پولیس کی تفیتش پر کوئی چیک نہیں ہے۔ یہ کچھ ایسی بنیادی وجوہات ہیں، جن کے باعث ایک معاشرہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتا ہے اور ہمیں آئے روز سڑکوں پر اس کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہم کو بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری عزت ہو، تو ہم کو اپنی ترجیحات کا از سرے نو جائزہ لینا پڑے گا، مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بحیثیت قوم ہمیں عملی اقدامات کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ماضی میں بحیثیت قوم ہم نے بار بار اس حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہے۔
ہر نئی حکومت نے اس حوالے سے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جس کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں، ماضی میں بعض حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے انتہا پسندی کو پروان چڑھایا اور بعض نے اعتدال پسندی کی پالیسی اپنائی ہماری بار بار اس حوالے سے پالیسیاں تبدیل کرنی کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں، ہمیں انتہا پسندی یا اعتدال پسندی میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا تاکہ آیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اور آئے روز عالمی سطح پر شرمندگی سے بچا جا سکے۔ بلاشبہ قومی پالیسی کی منظوری سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ ہوا ہے، کیونکہ ان عوامل و عناصر نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔