میرے والد عبدالقادرحسن ۔ چند یادیں

میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اپنے والدین کی بزرگی میں ان کے قدموں میں رہنا نصیب ہوا

باپ اور بیٹے کا رشتہ انمول ہوتا ہے ،ماں کے بعد باپ ہی اس کا آئیڈیل اور رول ماڈل ہوتا ہے ۔ ہر بیٹا اپنے باپ کی تقلید کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

وہ اولاد نہایت خوش بخت ہوتی ہے جن کو اپنے والدین کی خدمت کا موقع ملتا ہے ۔ والدین اولاد کا وہ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن کا کوئی نعمل بدل نہیں ہوتا اور خصوصاً جس اولاد کو والدین کی بزرگی میں خدمت کا موقع مل گیا اوروہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تو مراد پا جاتے ہیں۔ہمارے تو دین میں بھی اولاد کو اسی بات کا حکم دیا گیا کہ والدین جب بوڑھے ہو جائیں تو انھیں اُف تک نہ کہو، کہیں تمہارے اعمال ضایع نہ ہوجائیں۔

میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اپنے والدین کی بزرگی میں ان کے قدموں میں رہنا نصیب ہوا، یہ دعویٰ تو میںنہیں کر سکتا کہ میں اپنے والدین کی تابعداری میں کس حد تک کامیاب رہا لیکن یہ بات میں یقیناً دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ روز قیامت میرے والدین میری تابعداری کی گواہی ضرور دیں گے۔

 میرے والد عبدالقادر حسن کی وفات کو چار برس گزر چکے ہیں لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ کہیں آس پاس ہی موجود ہیں، ان کی بے باک اور بے بدل تحریریں آج بھی مجھ سمیت ان کے قارئین کو ان کی یاد دلاتی ہیں۔ میری والدہ کا انتقال تو کئی برس پہلے ہی ہو گیا تھا لیکن والد صاحب نے ان کی وفات کے بعد مجھے اپنے والدہ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ایک مرتبہ کسی انٹرویو نگار نے ان سے پوچھا کہ آپ کی زندگی میں سب سے بڑا دکھ کیا ہے تو کہنے لگے کہ اس سے بڑا دکھ کیا ہوگا کہ میری والدہ اس دنیا سے چلی گئیں۔

میرے والد اپنے علاقے کے ایک بڑے زمیندار کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، ان کو خاص طور پر دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روائتی اسکول کے بجائے ایک دوسرے گاؤں میں مولانا محمد بخش صاحب کی زیر سرپرستی دین کی تعلیم کے لیے بھجوا دیا گیا جہاں سے انھوں نے دین کے متعلق ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور بعد ازاں ان کو لاہور بجھوا دیا گیا جہاں پر انھیں اپنے وقت کے جلیل قدر علماء جن میں مولانا سید داؤد غزنوی، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبدالغفار حسن سے دین اور فقہ میں اکتساب فیض کا موقع ملا۔

عربی، فارسی اور درس نظامی انھی اساتذہ کرام کا فیض تھا ۔ان کے کالموں میں انفرادیت اور اچھوتا پن انھی زبانوں پر دسترس کی وجہ سے تھا ۔ کچھ عرصہ تک باقاعدہ طور پر جماعت اسلامی کے رکن بھی رہے، وہ مولانا مودودی کی فکر سے متاثر تھے لیکن صحافت کے شعبے کو بطور پیشہ اپنانے کے بعد انھوں نے غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے جماعت سے استعفیٰ دے دیا ۔

صحافت کے شعبے میں ان کو سبط حسن، فیض صاحب، ظہور عالم شہید، حمید نظامی اور بعد ازاں حمید نظامی مرحوم جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا جنھوں نے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔بطور رپورٹر ایک طویل عرصہ تک صحافتی میدان میں موجود رہے، یہی وجہ ہے کہ ان میں نیوز سینس بہت تھی جس کی جھلک ان کے کالموں میں نمایاں رہی ۔ وہ جب لکھنے بیٹھتے تھے تو ان کا قلم کسی غرض اور لالچ کے بغیر کاغذ پر موتی بکھیرتا ، تقویٰ اور فقر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، درویشانہ مزاج ان کے بزرگوں کی وجہ سے تھا جو صوفیا کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

اپنی درویشانہ طبیعت کے باعث قلم کی حرمت ہمیشہ ان کا مشن رہا ۔ صحافتی دنیا کی چمک دمک ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی، بلاشبہ انھوں نے قلم کی حرمت کی صدق دل سے پاسداری کی، پاکستانیت اور دفاع پاکستان پرسمجھوتہ کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے۔وقت کے جابر حکمرانوں کے سامنے بھی کلمہ حق بلند کیا۔ زندگی بھرتپاک جاں سے لکھنے والا معاملہ رہا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کی عقیدت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی ۔

کسی حکمران کے ڈر اورخوف کے بغیر وہی لکھا جو حق اور سچ کی آواز تھی۔حکمرانوں سے دوستیاں بھی بہت تھیں لیکن ان کی باز پرس بھی خوب کرتے تھے ۔ ان کو بین السطور اپنی بات کہہ جانے میں ملکہ حاصل تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے پریس کانفرنس میں ڈاکٹر قدیر کے بارے میں کہا کہ وہ میرے ہیرو نہیں ‘اس موقع پر میرے والد بابنگ دہن ان کے منہ پرکہا کہ ڈاکٹر قدیر میرے ہیرو ہیں۔یہ جملے قارئین کو آج بھی یاد ہیں۔

وہ ایک خالص پنجابی دیہاتی آدمی تھے، جب کبھی گاؤں کا چکر لگاتے توسر پر اعوانوں والی روائتی پگڑی بڑے شوق سے پہنتے تھے ۔ میری شادی کے موقع پر جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کمال مہربانی کرتے ہوئے ہمارے گاؤں تشریف لائے تو ان کے لیے بھی اسی روائتی پگڑی کا بندو بست کیا اور خود اپنے ہاتھوں سے انھیں پہنائی۔ گاؤں میں وقت گزارنے کی خواہش عمر بھر رہی ۔

کہتے تھے کہ جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا تو گاؤں چلا جاؤں گا جہاں اپنے آباؤ اجداد کی زمینوں کی دیکھ بھال کروں گا لیکن جب عمر ڈھلنے لگی تو کہنے لگے کہ اس عمر میں علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے جو گاؤں میں میسر نہیںہوتا لہذا بہ امر مجبوری لاہور میں ہی قیام کو ترجیح دی۔لیکن وہ دیہاتی زندگی سے جڑے رہے اور ان کے اندر سے جماندور دیہاتی نہ نکل سکا۔

جب کبھی گاؤں کا چکر لگتا تو لاہورواپسی پر ان کے کالموں میں دیہات کی سوندی مٹی اور پھلائی کے درختوں سے پھوٹنے والی خوشبو کو قارئین ضرور محسوس کرتے تھے ۔ وہ گاؤں کے متعلق لکھتے ہوئے نثر میں شاعری کر جاتے تھے اور قارئین کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ کسی گاؤں میں ہی ہیں ۔

زندگی بھر ہمیشہ اچھی گاڑی میں سفر کو ترجیح دی اور ہمیشہ مرسیڈیز گاڑی کو زیر استعمال رکھا، ان کی شہرہ آفاق مرسیڈیز سے ان کے قارئین بخوبی آشنا ہیں اور یہ مرسیڈیز آج بھی گاؤں کے آبائی گھر میں کھڑی ان کی یاد دلاتی رہتی ہے۔30 نومبر 2020 کی ایک سرد شام کو میری بانھوں میں وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے اور یکم دسمبر کو انھیں آبائی گاؤں کھوڑہ وادی سون میں سپرد خاک کیا گیا۔ قارئین سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔

Load Next Story