غریب کے دکھوں کا مداوا
نصیر الدین زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے، وہ پیشہ کے اعتبار سے ڈرائیور ہیں۔ وہ ریٹائر میاں بیوی اساتذہ کی گاڑی چلاتے ہیں۔ انھیں 40 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ اسے ورثے میں بھینس کالونی میں ایک مکان ملا ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ اور 9بچوں کے ساتھ رہتے ہیں، تین بیٹے مختلف کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔
دوبچیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ ان کے چار کمروں کے گھر میں ایک ایک پنکھا اور ایک ایک بلب لگا ہوا ہے۔ گھر میں پانی کے لیے ایک موٹر مگر ابھی ٹیلی وژن خریدنے کی استعداد نہیں ہے۔ نصیر الدین کو نومبر میں بجلی کا بل ملا تو ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ وہ فوری صدمہ کا شکار ہوئے۔ نصیر الدین کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں 12 گھنٹے روزانہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، بجلی کا بھاری بل دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ محلے کے لوگوں نے اسے بتایا کہ ان کا میٹر خراب ہے۔
میٹر تبدیل کرانے کی کوشش کریں۔ نصیر الدین اور اس کے تینوں لڑکے ملازمتوں کی وجہ سے خود بجلی کے دفتر نہیں جاتے ، نصیرالدین کی اہلیہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کے الیکٹرک کے دفتر کے چکر لگاتی ہیں۔ عملہ درخواست لے کر رکھ دیتا ہے اور شکایت کنندہ کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ پہلے بجلی کا بل جمع کرائیں، پھر میٹر ٹیسٹ کیا جائے گا۔ بعض اوقات عملے کے کسی رکن کے دل میں انسانیت کا جذبہ زور مارتا ہے تو پھر بل کی قسطیں کردی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال ایک نصیر الدین کو درپیش نہیں بلکہ ہزاروں شہریوں کو درپیش ہے۔ وہ کراچی کا واحد شہر ی نہیں جو بجلی کے بلوں کے بوجھ سے سخت پریشان ہے مگر ان کے مسئلہ کا حل کمپنی کے پاس نہیں ہے۔
ادھر ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کے الیکٹرک نے نیپرا میں یہ عرضداشت دائرکی ہے کہ گزشتہ 8برسوں میں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی بناء پر 68 کروڑو روپے کا خسارہ ہے۔ یہ بل بڑے صنعت کاروں، کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس وغیرہ نے ادا نہیں کیے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ڈیفالٹر افراد اور فرمز سے واجبات وصولی کے بجائے باقاعدہ بل ادا کرنے والے صارفین کے بلوں میں یہ رقم شامل کی جارہی ہے ۔ ایک باخبر رپورٹر نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ اگرکے الیکٹرک کی یہ عرضداشت منظور کر لی گئی تو بجلی صارفین پر بلوں کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ یوں ایک طرف تو وہ صاحبِ ثروت افراد بجلی بلوں کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجائیں گے تو دوسری طرف عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی۔
بائیں بازو کے سینئر کارکن حسن اطہر ہمیشہ نیپرا کے حکام کی عوامی شکایت کی سماعت کی کھلی کچہری میں جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیپرا کی عوامی شکایت کی سماعت کی کھلی کچہری میں عام آدمی کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا، اجلاس اچانک ملتوی کردیا جاتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا ہے۔
جب کراچی میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن KESC بجلی کی فراہمی کی واحد ذمے دار تھی تو اس وقت ہر زون کے افسروں کو بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی ذمے داری دی جاتی تھی۔ اس وقت افسروں کی ترقی اور ان کے سالانہ انکریمینٹ کو اس رقم کی وصولی کے ہدف سے منسلک کیا جاتا تھا تو یہ افسران کچھ صارفین کے ساتھ اچھا سلوک تو کرتے تھے اور ان کے بل کم ہوجاتے تھے۔
افسران اپنا ہدف پورا کرنے کے لیے عام صارفین کے بلوں میں رقم کا اضافہ کردیتے تھے۔ عام صارف لاعلمی کی بناء پر زیادہ بل ادا کرنا تھا۔ کراچی کو طبقاتی بنیادوں پر بجلی تقسیم ہوتی ہے۔ جن علاقوں میں صد فی صد بل جمع ہوتے ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی مگر وہاں پر بھی مینٹیننس کے نام پر گھنٹوں بجلی بند کی جاتی ہے، مگر جن علاقوں میں مقررہ ہدف پورا نہیں ہوتا وہاں دو گھنٹے سے لے کر چودہ گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ متوسط طبقہ کی بستیوں کے مکین باقاعدگی سے بل دیتے ہیں مگر ان کی بستی کے ساتھ اگر کوئی ایسی بستی ہے جہاں بل نہیں دیا جاتا تو انھیں بھی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بجلی کی چوری میں عملہ بھی ملوث ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کی سابقہ حکومت میں بجلی کے نرخ بڑھنا شروع ہوئے تھے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہر مہینہ دو مہینے بعد ملک کے کسی بھی زون میں بجلی کے نرخ بڑھانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ 3 برسوں کے دوران بجلی کے نرخوں کی شرح میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سندھ اسمبلی کی توانائی کی کمیٹی کے سامنے کے الیکٹرک کے نمایندہ نے واضح طور پرکہا تھا کہ ان کی کمپنی لوڈشیڈنگ والے علاقوں میں بجلی فراہم نہیں کرسکتی۔ یہ فریضہ صوبائی حکومت کو انجام دینا چاہیے۔ مگروزیر اعلیٰ اس موقع پر خاموش رہے۔ یوں بجلی کے بلوں کے بوجھ سے معاشرہ میں ابتری کی صورتحال نمایاں ہوئی۔
گزشتہ دس برسوں سے سولر انرجی عام ہوئی۔ سولر انرجی ماحولیات دوست انرجی ہے،اس پر اخراجات کم آتے ہیں، مگر ہر آدمی اس وقت یہ سہولت حاصل نہیں کرسکتا۔ یوں ملک بھر میں سولر انرجی کا استعمال بڑھ گیا مگر اچانک اسلام آباد کی بیوروکریسی کو احساس ہوا کہ سولر انرجی کے عام ہونے سے بجلی کی کمپنیوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے، سولر انرجی کی صنعت پر ٹیکس لگانے کی تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں۔
سولر انرجی کا استعمال بڑھنے سے بجلی کمپنیوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے، اس کا بوجھ بھی باقاعدہ بل دینے والے صارفین پر منتقل کیا جائے گا، اس طرح ہر مہینہ عام آدمی کا بل زیادہ آئے گا اور میاں نصیر الدین جیسے لاکھوں افراد بلڈ پریشر اور ذہنی خلجان جیسی بیماروں کا شکار ہوںگے۔ ان کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟