غزہ کے بچے، نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری
میں نے کچھ دن پہلے بھی فلسطین کے حوالے سے کالم لکھا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ فلسطین میں ہونے والے مظالم پہ جتنی بات کی جائے، لکھا جائے وہ کم ہے۔ اس احتجاج کو جاری رہنا چاہیے تاکہ فلسطینی عوام کو انصاف حاصل ہوسکے۔
آج دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو ظلم ناانصافی اور طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کی کہانیاں ہر کونے میں بکھری نظر آتی ہیں، لیکن ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں ظلم و زیادتی رکنے میں نہیں آرہی اور بے گناہ انسانوں کا خون مسلسل بہایا جا رہا ہے۔
یہ غزہ ہے فلسطین کا وہ حصہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے۔ جہاں بچوں تک کو ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آئے دن ماں باپ اپنے جگر گوشوں کو تاریک قبروں کے سپرد کر رہے ہیں، جہاں ہر گلی موت کا منظر پیش کرتی ہے۔اس اسرائیلی جارحیت کا سب سے نمایاں چہرہ موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو ہے، جسے تاریخ میں ایک ایسے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کے ہاتھ بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
نیتن یاہو کو حال ہی میں انٹرنیشنل کرمنل کوٹ (آئی سی سی) نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات پر گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ یہ ایک تاریخی قدم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قدم غزہ کے ان بچوں کے لیے امید کی کوئی کرن لے کر آیا ہے جو آج بھی گولیوں، بموں اور ملبے تلے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
غزہ کے بچے جو دنیا کے دیگر بچوں کی طرح ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں، آج خوف، بھوک اور بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں۔ ان کی ماؤں کی آغوش خالی ہے اور ان کے پھول سے بچے منوں مٹی تلے دفن کر دیے گئے ہیں۔ ان کے کھیل کے میدان کھنڈر بن چکے ہیں۔ جنگی طیاروں کی گونج نے ان سے ان کا بچپن چھین لیا ہے وہ خوف و ہراس میں گھری زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ یہ بچے صرف اس لیے یہ سب جھیل رہے ہیں کیونکہ ان کا تعلق فلسطین سے ہے۔
عالمی برادری اس ظلم کے خلاف ایک ساتھ کھڑی ہے اور پوری دنیا میں ہر رنگ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت کے ناتے فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
امریکا اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں بچوں نے اس ظلم کے خلاف جس طرح احتجاج کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ بچوں کو گرفتارکیا گیا، ان کو مارا گیا، ڈرایا گیا مگر وہ حق کے ساتھ کھڑے رہے۔ میری نواسی پیرس میں Sciences Po میں پڑھتی ہے اور وہاں ہونے والے دھرنوں میں جاتی رہی ہے، جس کی مجھے بہت خوشی ہے۔ وہ بتاتی رہتی ہے کہ ان دھرنوں میں یورپ کے مختلف ملکوں کے بچے شامل ہوتے ہیں۔
فلسطینی بچوں کی زندگیاں صرف اسرائیلی بمباری سے ہی تباہ نہیں ہوئیں بلکہ محاصرہ اور بنیادی سہولیات کی کمی نے ان کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ خوراک، پانی، دوا یہ سب کچھ غزہ کے بچوں کے لیے خواب بن چکا ہے۔ آئی سی سی کے جاری کردہ گرفتاری وارنٹ ایک امید یا محض ایک علامتی قدم؟ بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ نیتن یاہو کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور حکمران کو جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہو لیکن یہ ضرور ایک اہم لمحہ ہے، جب اسرائیل کے وزیراعظم کو عالمی قوانین کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئی سی سی کے وارنٹ کا مطلب یہ ہے کہ نیتن یاہو کو اب دنیا کے کسی بھی ملک میں گرفتارکیا جا سکتا ہے جو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے دائرہ کار کو تسلیم کرتا ہے۔ اس سے اسرائیل پر سیاسی دباؤ بھی بڑھے گا اور عالمی برادری کے لیے یہ پیغام بھی جائے گا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئی سی سی کے فیصلے کا عملی نفاذ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کو تحفظ دیا ہے، کیا وہ نیتن یاہو کے خلاف کارروائی کی اجازت دیں گی؟ امریکا اور یورپ جو اسرائیل کے دیرینہ حامی ہیں کیا وہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے دیں گے؟
آئی سی سی کے اس فیصلے نے عالمی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ترقی پذیر ممالک جو پہلے ہی سامراجی طاقتوں کے استحصال کا شکار ہیں، اس فیصلے کو انصاف کی جیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، لیکن سامراجی طاقتوں کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔
اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر مظاہرے اور احتجاج پہلے ہی زور پکڑ چکے ہیں۔ نیتن یاہو کے وارنٹ نے ان مظاہروں کو مزید تقویت دی ہے۔ یورپ، امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں فلسطین کے حامیوں نے نیتن یاہو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جب کہ اسرائیل کے حق میں آوازیں پہلے کے مقابلے میں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔
نیتن یاہو کو ایک ایسا حکمران کہا جا سکتا ہے جو طاقت کے نشے میں تمام انسانی اقدارکو روندتا چلا گیا۔ اس کی قیادت میں اسرائیل نے نہ صرف فلسطین بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے فیصلے صرف جنگی جرائم تک محدود نہیں رہے بلکہ نسل پرستی، مذہبی منافرت اور سیاسی انتہا پسندی بھی ان میں شامل ہے۔
کیا یہ فیصلہ غزہ کے بچوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکے گا؟آئی سی سی کے وارنٹ سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ عالمی برادری فلسطین کے مسئلے پر فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن صرف یہ وارنٹ غزہ کے بچوں کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
غزہ کے بچوں کو اس وقت ضرورت ہے، فوری امداد کی تاکہ ان کو خوراک، پانی اور ادویات کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کیے بغیر غزہ کے بچوں کا مستقبل بہتر نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر نیتن یاہو کے خلاف آئی سی سی کا فیصلہ عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ دنیا کے مظلوموں کے لیے ایک نئی امید کا آغاز ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ فیصلہ صرف کاغذوں تک محدود رہتا ہے تو یہ ایک ایسے خواب کی طرح ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔
دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا وقت آ چکا ہے۔ نیتن یاہو جیسے حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا بہت ضروری ہے ورنہ غزہ کے بچے جو آج بھی بموں اور گولیوں کے سائے میں سانس لے رہے ہیں، ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں دفن ہو جائیں گے۔