واحد راستہ
زندگی کے جملہ معاملات کا ایک بہترین اصول یہ ہے کہ پچھلے لوگ جب ابتدائی منزلیں طے کر چکے ہوں تو اسی وقت یہ ممکن ہے کہ بعد کے آنے والے لوگ آگے کی منزلوں پر اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ اگر اول لوگوں نے اپنے حصے کا کام درست حکمت عملی کے تحت نہ کیا ہو، تو آگے آنے والے لوگوں اپنا سفر آگے کی بجائے پیچھے سے شروع کرنا پڑے گا۔
کیوں کہ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہوں، نہ کہ وہاں سے جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ جس مکان کے نیچے کی دیواریں ابھی تیار نہ ہوئی ہوں تو اس مکان کی بالائی منزلیں کس چیز کے اوپر کھڑی کی جائیں گی؟
جو قوم ایک ایسے ماضی کی وارث ہو جس نے وراثت میں اپنی اگلی نسلوں کو جذباتی نعرے اور پرجوش تقریریں دی ہوں، جو اپنے عاقبت نااندیش رہنماؤں کے مفاد پرستانہ طرز عمل، غیر سنجیدہ رویوں، ناقص حکمت عملیوں، بودے اقدامات، کھوکھلے دعوؤں اور ناپختہ اقدامات اور سیاسی بداعمالیوں کے طفیل بار بار بربادیوں اور تباہیوں سے دوچار ہوتی رہی ہو، جو خوش فہمیوں، خوش گمانیوں، امیدوں اور آشاؤں کی نرم و میٹھی غذا کھاتے کھاتے اور سبز باغ دیکھتے دیکھتے زمینی سچائیوں اور حقیقت پسندی کی تلخیوں سے ناآشنا ہو جائے۔
جو قوم اپنی افتاد طبع کے باعث سیاسی ناہمواریوں، ہنگامہ آرائیوں اور جذباتی رویوں کی وجہ سے تعلیم، صحت، تجارت، اصول، قانون، ضابطوں، آئینی حقوق، عدل و انصاف، دیانت داری، نظم و ضبط اور وفاداری جیسے رہنما اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے، بجائے آگے بڑھنے کے دیگر قوموں کے مقابلے میں پیچھے رہ گئی ہو، جو مطالبات مہم جوئیوں اور احتجاجی سیاستوں میں الجھ کر یہ بھول گئی ہو کہ مانگنے سے پہلے خود کو اس چیز کے قابل بنانے اور اپنی اہمیت منوانے کی طاقت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایسی بے عمل اور ذہنی و فکری انتشار کا شکار قوم کی اگلی نسلیں آگے کی منزل سے اپنا سفر شروع نہیں کر سکتیں۔
ان کو لامحالہ وہاں سے اپنے سفرکا آغازکرنا پڑے گا جہاں ان کے آبا و اجداد نے اپنا سفر چھوڑا تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اچھا عملی نتیجہ صرف درست حکمت عملی اور صحیح وقت پر درست سمت میں قدم اٹھانے سے ہی نکل سکتا ہے۔ الفاظ کی جذباتی کھیتی میں راست عمل کی فصل نہیں کاٹی جا سکتی ۔ قدرت کو جب ایک درخت لگانا ہوتا ہے تو وہ بیج بونے سے اپنا عمل شروع کرتی ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے انسان کے لیے ایک خاموش سبق ہے۔ بیج سے آغاز کر کے کوئی بھی شخص درخت تک پہنچ سکتا ہے، مگرکوئی فرد اگر درخت سے اپنا سفر شروع کرنا چاہے تو ممکن ہی نہیں۔
ہماری قوم کے رہنماؤں و قائدین کا المیہ یہ ہے کہ وہ وطن عزیزکے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں، نظریات اور فرمودات پر عمل کرنے کے بڑے بلند و بانگ دعوے تو شد و مد کے ساتھ تواتر کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھیں تو ان کے تمام فیصلے، پالیسیاں، اقدامات اور منصوبے قائد اعظم کے سیاسی فلسفے کے مخالف سمت میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ معیشت سے لے کر سیاست تک، عدالت سے لے کر قیادت تک ہر عمل میں ذاتی، سیاسی، خاندانی اور جماعتی مفادات سرفہرست نظر آتے ہیں۔
ان کا ہر قدم ملک کو آگے لے جانے کی بجائے ترقی معکوس ثابت ہو رہا ہے۔ اہل سیاست نے ایک دوسرے کو زیر کرنے اور اپنی حاکمیت و بالادستی ثابت کرنے کے لیے آئین و قانون سے لے کر عدل و انصاف کے ایوانوں تک اور پارلیمنٹ سے لے کر دفاع وطن کی قیادت تک سب کو داغ دار اور تضادات کا شکارکردیا ہے آج کی قیادت سے عوام کا اعتماد و یقین اٹھتا جا رہا ہے۔ قوم تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ملک و قوم کی خاطر افہام و تفہیم سے بات چیت کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے سیاسی اختلاف ختم کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ ایک دوسرے پر الزامات و احتجاج کے راستوں پر چل کر ملک کو مزید مشکلات و مسائل سے دوچار کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی حکومت میں ہیں، جے یو آئی اور پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے کو ملک کے موجودہ حالات کا ذمے دار قرار دے رہی ہیں۔
پی ٹی آئی احتجاج کے راستے پر ہے لیکن حکمت عملی کے فقدان اور اپنے بانی کی قید کے باعث انتشار و اختلافات کا شکار ہے۔ بانی کی ’’فائنل کال‘‘ پر اسلام آباد کے ڈی چوک تک احتجاجی مارچ کے شرکاء ڈی چوک تک تو پہنچ گئے لیکن وزیر اعلیٰ کے پی کے اور بشریٰ بی بی کے منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی واپسی کے سفر نے پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کردیا، اندرونی اختلافات ابھرنے لگے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کا اعتماد متزلزل ہو گیا، وہ اپنی قیادت سے شکوہ طراز ہیں جو ناقابل فہم نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو عوام کے ایک بڑے طبقے کی حمایت ضرور حاصل ہے لیکن موجودہ قیادت میں اعتماد، اتحاد، اتفاق اور حکمت عملی کا گہرا فقدان ہے جس کے باعث ہر مرتبہ ان کا احتجاج ناکام ہوتا ہے۔
ادھر حکومت مطمئن کہ فائنل کال کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے لیکن حکومت نے جو حکمت عملی اپنائی اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ قصہ کوتاہ یہ کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے مصالحانہ حکمت کے تحت مذاکرات سے اپنے اختلافات ختم کرنا ہوں گے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لانے کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔