مزید نہروں کی تعمیر زرعی معیشت کیلیے خطرہ، مراد علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ینگ پارلیمنٹرین فورم کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے اس بات سے آگاہ کیا کہ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 1919 میں سندھ میں 40 لاکھ ایکڑ اراضی کو طویل نہری نظام کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا تھا، جبکہ سندھ کراپ رپورٹنگ سروسز 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اب 14 آبپاشی کینال کو سندھ کے تین بیراجوں کے ذریعے پانی کی فراہمی کی جاتی ہے، جس سے 4.6 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جاتا ہے۔
مرادعلی شاہ نے کہا کہ پانی کی مسلسل کمی کے باوجود ہم زراعت کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، پانی کے معاہدے پر دستخط کے بعد سے سندھ کو اوسطاً 11 فیصدپانی کی کمی کا سامنا ہے، مرادعلی شاہ نے کہا کہ سندھ پانی کی مسلسل کمی کے باوجود ہم زراعت کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں مزید نہروں کی تعمیر سے صوبے کی زرعی معیشت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ینگ پارلیمنٹرین فورم کے وفد نے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا کہ وہ انھیں موجودہ آبی وسائل کا ڈیٹا فراہم کریں تاکہ وہ پارلیمنٹ میں ان کے مقصد کی حمایت کر سکیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی اس معاملے کو قومی اسمبلی میں اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
اجلاس میں سینئر وزیر اطلاعات شرجیل میمن، وزیر آبپاشی جام خان شورو اور وزیر بلدیات سعید غنی نے بھی شرکت کی، وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کرنے والے وفد میں پی وائی ایف کی صدر سیدہ نوشین افتخار، جنرل سیکریٹری میر جمال خان رئیسانی، سیکریٹری اطلاعات اقبال خان و دیگر شریک تھے۔
ینگ پارلیمنٹرین فورم رہنماؤں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ صحت کی سہولیات جیسا کہ جے پی ایم سی، این آئی سی وی ڈی، این آئی سی ایچ، گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اور ایس آئی یو ٹی بے مثال ادارے ہیں، ملک میں اس جیسے ادارے نہیں۔
دریں اچنا وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سے ملاقات میں کوسٹل ہائی وے کی تعمیر اور20 دیگر زیر التوا منصوبوں کی پلاننگ کمیشن سے منظوری کے حوالے سے بات چیت کی۔
ملاقات میں کوسٹل ہائی وے کو اکنامک کوریڈور بنانے پر اتفاق کیاگیا، کیونکہ یہ کیٹی بندر، کراچی اور ملک کی تمام دیگر شاہراہوں سے منسلک ہے، اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی و توانائی سید ناصر شاہ نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ انھوں نے وزیر پی اینڈ ڈی ناصر شاہ سے مل کر آج (منگل کو) کوسٹل ہائی وے کے دوسرے مرحلے میں زمین کو ہموار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، احسن اقبال نے کہا کہ مکران کوسٹل ہائی وے کو تقریباً 25 سال ہوچکے ہیں، مگر اسے اکنامک کوریڈور کا درجہ نہ مل سکا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے تعمیر کی جانے والی کوسٹل ہائی وے میں معاشی سرگرمیوں کے قابل ذکر امکانات موجود ہیں، ناصر شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو زیر تعمیر کوسٹل ہائی وے پر بریفنگ دی۔
سندھ کوسٹل ہائی وے کی کل لمبائی 279 کلومیٹر ہے جوکہ گھارو، ضلع ٹھٹھہ میں N5 سے شروع ہوتی ہے اور علی بندر ضلع بدین تک پھیلی ہوئی ہے، یہ منصوبہ سندھ حکومت نے 2007 میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) کے تحت شروع کیا تھا، مالی مجبوریوں کی وجہ سے یہ منصوبہ مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے احسن اقبال کے ساتھ مختلف صوبائی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا جوکہ گزشتہ دو سالوں سے نظرثانی کی وجہ سے التوا کا شکار ہیں۔
ان منصوبوں میں حیدرآباد پیکج یعنی ایسٹرن کی تعمیر اور سدرن سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کی توسیع شامل ہے۔ حیدرآباد شہر کو صاف پانی فراہم کرنے کے لیے فلٹر پلانٹ اور واٹر سپلائی نیٹ ورکس کی توسیع بھی اس کا حصہ ہے۔ وفاقی وزیر نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ ان کی منظوری جلد جاری کر دی جائے گی۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ وہ سائٹ انڈسٹریل ایریا کا دورہ کریں گے اور پھر ان کو پلاننگ کمیشن کلیئر کرائیں گے۔ 2022 میں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے سندھ میں موجودہ اسکولوں کی تعمیر اور تعمیر نو کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام (1800 یونٹس) کو ہر لحاظ سے کلیئر کر دیا گیا ہے اور پہلی سہ ماہی فنڈنگ جاری کر دی گئی ہے۔
تمام اسکولوں کے لیے ٹینڈرز فی الحال جانچ کے مرحلے میں ہیں اور دوسری سہ ماہی کے لیے 2000 ملین روپے تجویز کیے گئے جوکہ کافی نہیں ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بار کام شروع ہوجائے تو مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے۔