THATTA/
کراچی:
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ 4سال قبل کی حکومت نے گوادر کے تمام بجلی اور پانی کے منصوبوں کو بند کردیا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے 16 ماہ میں گوادر کو ایران کی ٹرانسمیشن لائن سے نیشنل گرڈ سے منسلک کرکے گوادر میں بجلی اور پانی کا منصوبہ فعال کردیا ہے۔
یہ بات انھوں نے منگل کو پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تقریب کے بعد میڈیا ٹاک کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ گوادر بندگارہ کی گہرائی کو ساڑھے 4 ارب روپے کی لاگت سے دوبارہ بحال کیا ہے، حکومت کی نصف امپورٹ اب گوادر پورٹ کے ذریعے ہوگی، گوادر کو سینٹرل ایشیا اور بلوچستان کے مائننگ منصوبوں سے جوڑا جارہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر کراچی میں پینے کا پانی نہیں ہے تو یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، وفاق اور صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991 کا ایکٹ موجود ہے، ہر صوبے کا پانی محفوظ ہے، لہذا کوئی صوبہ کسی دوسرے صوبے کے پانی کو غصب نہیں کرسکتا۔
انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں 25 ارب روپے کی لاگت کا گرین لائن منصوبہ بنایا تھا اور کراچی میں کے فور منصوبہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، اسکے باوجود اسکی سرمایہ کاری وفاق کررہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت حیدرآباد اور سکھر موٹر وے کا منصوبہ جلد شروع کررہی ہے، کراچی حیدرآباد موٹر وے کی تعمیر کو مزید بہتر کرنے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔
سیاسی عدم استحکام نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے، تنازعات کے ساتھ کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، قبل ازیں پی ایس ایکس کی چئیرپرسن شمشاد اختر نے استقبالی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ نے ایک بڑا سفر طے کیا ہے، اسٹاک مارکیٹ کو تاریخ ساز سطح تک پہنچانے میں اسکے بروکرز کا اہم کردار ہے، اسٹاک مارکیٹ میں 2017 کے بعد دوبارہ کیپٹلائزیشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پی ایس ایکس کے چیف ایگزیکٹو فرخ ایچ سبزواری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں ہم معاشی سے زیادہ سیاسی گفتگو کرتے ہیں، ہمیں صبح کی میٹنگ کے بعد یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آج کیا بیچنا ہے، حکومت ہمیں سیاسی استحکام دے، ہم اس سے مزید اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔
دریں اثنا احسن اقبال نے آئی بی اے کے تحت ورلڈ اسلامک فنانس فورم 2024 سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افلاطون نے سوچا تھا کہ یہ ملک نہیں چل سکے گا، تاثر پھیلایا گیا کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے گا لیکن پاکستان سری لنکا نہیں ہے بلکہ ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے، ہم نے کراچی پورٹ کو ایک بڑا معاشی حب بنادیا ہے، پالیسیوں کو 10سال کیلیے منجمد کریں گے۔
علاوہ ازیں احسن اقبال نے سائیٹ لمیٹڈ کے دفتر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سائیٹ صنعتی علاقے کے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد منعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 30 رکنی پاکستانی ماہرین کے وفد کو چین نے مدعو کیا ہے۔
پاکستانی وفد 10دسمبر سے 23دسمبر کو چین کا دو ہفتوں کا دورہ کرے گا، دورے کے موقع پر سی پیک کے فیز ٹو پر کام کریں گے۔
قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سائٹ کے لیے 5 ارب روپے کے منصوبے منظوری دی ہے، انھوں نے کہا کہ پانچ سالہ منصوبہ پاکستان کو مضبوط بنائے گا، اس 5 سالہ منصوبے کا اعلان وزیراعظم رواں ماہ کریں گے۔
علاوہ ازیں احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے حریف ہو سکتے لیکن ملکی سالمیت کے لیے حلیف ہیں۔ ایک دن کے دھرنے نے پاکستان کی معیشت کو پیچھے دھکیل دیا لیکن دھرنا پسپا ہوتے ہی معیشت میں ریکارڈ تیزی آگئی۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے ٹھٹھہ میں سندھ کوسٹل ہائی وے کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اور اسپیشل انیشیٹیو احسن اقبال نے سندھ کوسٹل ہائی پر جاری کام کا معائینہ کیا۔
میڈیا سے گفتگو میں احسن اقبال کا کہناتھاکہ سندھ کوسٹل ہائی وے منصوبہ سندھ حکومت نے شروع کیا اور 37 کلو میٹر وفاقی حکومت کے تعاون سے مکمل کیا جائے گا، وفاقی حکومت سندھ باالخصوص یہاں کے ساحلی علاقوں کی ترقی کے لیے سندھ حکومت کے ساتھ مل کرکام کر رہی ہے۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، ہم ایک دوسرے سیاست میں حریف ہو سکتے ہیں لیکن ملکی سالمیت کے لیے حلیف ہیں، 2018 سے پہلے ہم ایک دوسرے کے حریف تھے لیکن پاکستان پر مشکل وقت آیا تو ایک دوسرے کا ساتھ دیا، عام انتخابات 2023 دونوں جماعتوں نے الگ لڑے لیکن پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے پھر ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔
انکا کہنا تھاکہ 1991 میں وفاقی حکومت نے تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پانی کے معاہدے پر دستخط کیے، 1991 کے معاہدہ آب کے بعد کوئی بھی کسی کا پانی چرا سکتا ہے اورنہ ہی ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ 1991 کا پانی معاہدہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں تمام قیادت کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا جس پر چاروں صوبوں نے اتفاق کیا تھا یہ معاہدہ ایک مضبوط فریم ورک ہے۔جس میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کوئی صوبہ دوسرے صوبے کا پانی چوری نہیں کر سکتا اور نہ ہی دوسرے صوبے کا پانی چوری کر سکتا ہے۔وفاقی حکومت 1991 کے معاہدے کو تسلیم کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد کرے گی۔