کراچی:
وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس چوری پر قابو پانے میں ناکامی کے باعث مالی سال 2023-24میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 8.77 فیصد تک گر گیا ہے، جو 2021-22میں 9.22 فیصد تھا۔
یہ تشویشناک کمی پاکستان کی معیشت پر بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کو ظاہر کرتی ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ صرف تنخواہ دار طبقے پر انحصار کرکے ریونیو ہدف حاصل کرنے کا طریقہ غیر پائیدار ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا کہ اگر ریئل اسٹیٹ، ہول سیل، ریٹیل اور زراعت جیسے غیر ٹیکس شدہ شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا گیا تو حکومت کو تنخواہ دار افراد پر مزید بوجھ ڈالنا پڑے گا۔
ٹیکس چوری پر ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پانچ بڑے شعبوں میں ٹیکس چوری اور غیر قانونی تجارت کے باعث سالانہ 950 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
صرف غیر قانونی سگریٹ کی تجارت ہر سال 300 ارب روپے سے زیادہ کی ٹیکس چوری کا سبب بنتی ہے۔
یہ حیرت انگیز اعداد و شمار اس دیرینہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں، جو معیشت سے متعلق قیمتی وسائل کو ضائع کرتا جا رہا ہے۔
ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لیے حکومت نے بڑی صنعتوں میں پیداوار اور فروخت کی ڈیجیٹل نگرانی کے لیے ایک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرایا تاہم کئی سال کی تاخیر اور ناقص منصوبہ بندی نے اس اقدام کو بڑی حد تک غیر مؤثر بنا دیا ہے۔
پاکستان کو اپنے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس چوری کے لیے سخت سزائیں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی تجزیہ کار اسامہ صدیقی کے مطابق‘‘حکومت کو تنخواہ دار طبقے پر مالی بوجھ بڑھانے کے بجائے ٹیکس چوری اور غیر قانونی تجارت پر قابو پانے پر توجہ دینی چاہیے۔