موبائل فون پر میسیج کی ٹون بجی میں نے فوراً اٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا کہ "پاکستانی حکومت نے کرکٹ ٹیم کو بھارت کے خلاف کھیلنے سے روک دیا، جب تک بلوچستان و دیگر مقامات پر بھارتی سرپرستی سے ہونے والی دہشتگردی ختم نہیں ہوتی کسی بھی طرز کے کرکٹنگ تعلقات بھی بحال نہیں ہوں گے، ترجمان"۔
یہ پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ شاید اس سے پاکستان کو کرکٹ میں تنہا کر دیا جائے گا، ایک پی سی بی میٹنگ کا بھی پتا چلا جہاں "وکیل صاحب" اعلی حکام کو ڈرا رہے تھے کہ سر اگر ایسا کیا تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا لیکن کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہ تھا،اس کے بعد آئی سی سی پاکستان پر دباؤ ڈالنے لگی کہ چیمپئینز ٹرافی میں بھارت کیخلاف میچ کھیلو ورنہ اتنا نقصان ہو جائے گا، جواب میں پی سی بی نے کہا ہم کیا کریں ہمیں جو حکومت نے کہا اسی پر عمل کر رہے ہیں، بھارتی بورڈ نے تلملا کر کہا کہ اچھا پھر وہ خط دکھاؤ جو حکومت نے لکھا ہے، پی سی بی نے فورا ہی خط بھیج دیا، ساتھ چیمپئنز ٹرافی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیلنے کا مطالبہ بھی مان لیا۔
بھارتی ٹیم کے تمام میچز یو اے ای میں رکھے گئے، سب کو پاک بھارت میچ کا انتظار تھا لیکن پاکستانی ٹیم نہیں گئی اور واک اوور دے دیا،آئی سی سی نے ہنگامی اجلاس بلوا لیا جہاں پی سی بی پر حاوی ہونے کی کوشش کی تو آفیشل نے بڑے اچھے انداز میں انگلینڈ، آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کو یاد دلایا کہ کس طرح انھوں نے مختلف وجوہات پر ورلڈکپ میچز کا بائیکاٹ کر کے حریف کو واک اوور دیا تھا، اب ہماری حکومت نے اجازت نہیں دی تو کیسے اس کے خلاف جائیں، کسی نے مشورہ دیا کہ پاکستان پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ایسے میں لیگل ایڈوائزر نے ایک آئی سی سی آفیشل کے کان میں کہا کہ حکومت کے روکنے پر ہم کچھ نہیں کرسکتے، میٹنگ ختم ہوگئی اور پھر براڈ کاسٹر بڑے مالی نقصان کا جواز بنا کر آئی سی سی کے خلاف مقدمہ کرنے کا سوچنے لگا، دیگر بورڈز کو بھی اس سے نقصان اٹھانا پڑا، بھارتی ٹیم فائنل میں نہیں پہنچی تو لاہور میں میچ کے انعقاد کا موقع بھی مل گیا۔
مزید پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی: پاکستان کی تجویز پر بھارت کا روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے کا امکان
شائقین سے کھچا کچھ بھرے اسٹیٹ آف دی آرٹ قذافی اسٹیڈیم میں خوب رونق نظر آئی، لوگ محسن اسپیڈ کو سراہتے نظر آئے کہ انھوں نے جو کہا وہ کر دکھایا اور زبردست اسٹیڈیمز بنا دیے، ٹی وی پر میچ دیکھنے کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، اسپانسرز بھی کم نہ ہوئے، پاکستانی کرکٹ ٹیم نے دلچسپ مقابلے کے بعد انگلینڈ کو شکست دے کر ٹرافی حاصل کرلی،آئی سی سی نے اس میچ کو اپنا سب سے زیادہ دیکھے جانے والا مقابلہ قرار دیا،براڈ کاسٹر کی بھی جان میں جان آئی،اب پی سی بی کو لوگ ڈرانے لگے کہ پی ایس ایل میں کوئی نہیں آئے گا،سب آئی پی ایل دیکھیں گے، واقعی خدشات تو تھے اور غیرملکی اسٹارز کی کمی بھی محسوس ہوئی لیکن میدان پھر بھی بھرے رہے،ٹی وی پر بھی بڑی تعداد میں شائقین نے میچز دیکھے،پی سی بی کی تجوریاں مزید بھر گئیں، بعض نئے کھلاڑی بھی ابھر کر سامنے آئے، انگلینڈ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آتی رہیں،ہماری کرکٹ رکی نہیں،رینکنگ میں ٹیم اور پلیئرز کو نمایاں پوزیشن حاصل رہی،بھارت میں جب فروری،مارچ 2026میں ٹی20 ورلڈکپ ہونے لگا تو بی سی سی آئی اور آئی سی سی حکام یکجا ہو کر بیٹھے کہ پہلا ہی میچ احمد آباد میں پاکستان اور بھارت کا کروا دیتے ہیں شائقین کی آمد کا ریکارڈ بن جائے گا۔
مزید پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی تنازع؛ پاکستان نے پیچھے ہٹنے کی کہانیاں "فضول" قرار دے دیں
اسپانسر شپ اور براڈ کاسٹنگ سب سے خوب رقم بھی کمائیں گے،اس ایک میچ سے ہی پورے ٹورنامنٹ کے اخراجات پورے ہو جائیں گے،پھر اگر دونوں ٹیموں کا فائنل ہوا تو مزید وارے نیارے،پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کیخلاف کھیلنے سے منع کیا تھا اب ایسا نہیں ہوگا،البتہ شیڈول کے اجرا سے پہلے پی سی بی نے پھر اعلان کر دیا کہ حکومت ہمیں بھارت جانے سے روک رہی ہے،ہم کچھ نہیں کر سکتے،بی سی سی آئی اس پر بڑا تلملایا اور کہا کہ کھیلوں اور سیاست کو الگ رکھنا چاہیے،آپ آئیں ہم فول پروف سیکیورٹی دیں گے۔ پاکستان نہ مانا اور حکومت کا خط پیش کر دیا،مجبورا دونوں ٹیموں کا میچ سری لنکا میں رکھنا پڑا،بعد میں فائنل بھی روایتی حریفوں کا ہوا،بھارت نے ممبئی میں میچ رکھا تھا لیکن پاکستان کے کوالیفائی کرنے پر کولمبو کا آپشن تھا،ہوم گرائونڈ پر اتنے بڑے میچ میں اپنی ٹیم کو ایکشن میں نہ دیکھنے پر بھارتی شائقین چراغ پا ہوگئے۔
مزید پڑھیں: ’’پاکستان کے بھارت نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘؛ سابق بھارتی کرکٹر کا طنز
انھوں نے اپنے بورڈ کے خلاف مظاہرے کیے،مگر میچ سری لنکا میں ہی ہوا، اس کے بعد بھی پاکستان میں کرکٹ چلتی رہی،اکائونٹس میں بڑا منافع بھی ظاہر ہوا،کئی نئے کرکٹرز نے عمدہ کارکردگی سے ٹیم میں جگہ بنا لی،پاکستان بدستورکرکٹ کی بڑی قوتوں میں شمار ہوتا رہا،ملک میں کھیل کا شوق بھی کم نہ ہوا،پی سی بی نے پی ایس ایل کو بڑا برانڈ بنانے پر بھی توجہ دی،دو نئی ٹیموں کی شمولیت سے آمدنی مزید بڑھ گئی،بھارت کیخلاف نہ کھیلنے کا پاکستان کو کوئی نقصان نہ ہوا،پہلے بھی طویل عرصے تنہا رہنے سے ملکی کرکٹ کی ترقی نہیں رکی تھی، اب تو صرف ایک ہی ٹیم سے روابط ختم ہوئے تھے،میں یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا کہ اچانک کانوں میں زور سے بیٹے کی آواز آنے لگی کہ بابا اٹھیں کیا ہمیں اسکول چھوڑنے نہیں جانا اور میں نیند سے جاگ اٹھا،او یہ سب خواب تھا میں یہ سوچنے لگا لیکن اگر حقیقت میں بھی ایسا ہو جائے کہ پاکستان اسٹینڈ لے کر بھارت کیخلاف کھیلنے سے انکار کر دے تو کیا خدانخواستہ ہماری کرکٹ ختم ہو جائے گی یا پھلتی پھولتی رہے گی، آپ کا کیا خیال ہے مجھے ضرور بتایئے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)