مشرق وسطیٰ کا بحران تاریخ کا ایک پیچیدہ، کثیرالجہتی اور طویل ترین تنازعہ ہے جس میں اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ سب سے اہم اور تنازعے کی جڑ ہے۔
اسرائیل کی عسکری پالیسی، گریٹر اسرائیل کا تصور اور اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کا کردار نہ صرف فلسطینی عوام کےلیے بلکہ پورے خطے کے امن کےلیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
شام، فلسطین، مصر، اردن، لبنان، عراق، ترکی، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، اور سعودی عرب جیسے اہم عرب ممالک کا منافقانہ رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس تجزیاتی مضمون میں، میں نے کوشش کی ہے کہ مسئلہ فلسطین اور غزہ میں حالیہ اسرائیلی دہشتگردی جس میں اب تک 16 ہزار سے زائد بچوں اور 12 ہزار سے زائد خواتین سمیت اب تک 44 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اسرائیل کے اس مجرمانہ عمل جس کو نسل کشی قرار دیا جارہا ہے، پر ان ممالک کے کردار کو مختلف زاویوں سے دیکھیں گے جس میں ان کی منافقت اور مجبوری کا تجزیہ شامل ہے۔
اس سے قبل میں عرب ممالک کا تفصیلی ذکر کروں یہاں مشرقی وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کے کردار پر مختصر روشنی ڈالنا ضرور سمجھتا ہوں۔ شام اور فلسطین کے تنازعات میں عالمی طاقتیں ہمیشہ شامل رہی ہیں۔ امریکا، روس، اور یورپی ممالک ان تنازعات میں اپنے جغرافیائی اور اقتصادی مفادات کےلیے سرگرم ہیں۔
امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، لیکن حالیہ صہیونی ریاست کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بندی کے معاہدے میں اس نے ایران کے ساتھ تعاون کیا۔ روس شام میں بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین نے حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھایا ہے، خاص طور پر اقتصادی تعاون کے ذریعے جب روس کی ثالثی سے طویل تاریخ رکھنے والے حریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان ملاقات کرائی گئی۔
مشرق وسطیٰ ایک ایسی پیچیدہ صورتحال میں گھرا ہوا ہے کہ ایک جانب ایک ملک ایک کا حریف بنتا ہے تو دوسرے مقام پر وہی ملک اسی ملک کا حلیف نظر آتا ہے، یعنی اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی وسطیٰ جدید تاریخ کے سب سے پیچیدہ تنازعات کا مرکز ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ میری رائے میں اگر مشرقی وسطیٰ کے مسئلے کی جڑ کو دو الفاظ میں بیان کرنے کو کہا جائے تو میں اس کو سعودی عرب اور ایران کہوں گا۔
سعودی عرب کی مشرق وسطیٰ میں اہم حیثیت اور اس کی پالیسیوں کا اثر فلسطین کے مسئلے اور غزہ کی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ دعویٰ کہ اگر سعودی عرب چاہے تو غزہ کی جنگ بند ہوسکتی ہے، اپنی جگہ وزن رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کئی پیچیدگیاں اور مفادات بھی جڑے ہیں جو اس پوزیشن کو متاثر کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست میں سعودی عرب اور ایران دو اہم حریف ہیں، جن کی رقابت اکثر خطے کے تنازعات میں جھلکتی ہے۔ ایران، فلسطین میں حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرتا ہے، جبکہ سعودی عرب عمومی طور پر اسرائیل کے ساتھ براہ راست تنازع میں شامل نہیں ہوتا، لیکن فلسطینی کاز کے ساتھ زبانی حمایت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ ایران حماس اور اسلامی جہاد جیسے گروہوں کی مالی اور عسکری مدد کرتا ہے۔ یہ گروہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، لیکن سعودی عرب ان کی کارروائیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے جس کا سادہ سا مقصد سعودی بادشاہت کو خطرہ کہا جاسکتا ہے۔
سعودی عرب ایران کی پراکسیز کے خلاف کھلے عام اقدامات کرنے سے گریز کرتا ہے، کیونکہ یہ عمل مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے تصادم کو جنم دے سکتا ہے، جو سعودی معیشت اور داخلی استحکام کےلیے نقصان دہ ہوگا۔
سعودی عرب کے مفادات کا زیادہ تر تعلق خطے کے استحکام سے زیادہ اپنی قیادت کی مضبوطی اور اقتصادی ترقی سے ہے۔ لیکن غزہ کی جنگ کے خاتمے میں سعودی عرب کے کردار کو سمجھنے کےلیے چند اہم نکات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سعودی عرب فلسطین کے معاملے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کو پسند نہیں کرتا، لیکن وہ براہ راست غزہ کی جنگ میں مداخلت کرکے ایران کے اثر کو کم کرنے کے بجائے سیاسی حل کو ترجیح دیتا ہے۔
سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کے حل کےلیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں کی ہیں، جیسے عرب امن منصوبہ، لیکن یہ منصوبہ اب تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عملی حل نہیں لا سکا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ملک وژن 2030 پر عمل کر رہا ہے، جس میں معیشت کو تنوع دینے اور خطے میں اقتصادی قیادت حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ غزہ کی جنگ میں مداخلت اس ایجنڈے کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
سعودی عرب جو خود کو مسلم دنیا کا سربراہ سمجھتا ہے اس کی عدم دلچسپی کے باعث فلسطین پر اسرائیلی دہشتگردی جاری ہے، دوسری جانب فلسطین پر عالمی طاقتوں کے مفادات اور ان کی پالیسیوں کا بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکا، روس، چین اور یورپی ممالک کی شمولیت نے اس بحران کو ایک عالمی مسئلہ بنا دیا ہے۔
امریکا ہمیشہ سے اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے اور اس کی حمایت فلسطین کے مسئلے پر ایک تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات قائم کیے ہیں جو نہ صرف اسرائیل کے دفاع بلکہ اس کی عالمی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس روس، جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھا، نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کو اپنا حلیف بنایا اور اس کی حمایت کی، جس سے مشرق وسطیٰ میں روس کا اثر بڑھا ہے۔ چین کی موجودگی بھی بڑھ رہی ہے، خاص طور پر اقتصادی میدان میں۔ چین نے مشرق وسطیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے اور ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھایا ہے۔
عالمی طاقتوں کی موجودگی نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان طاقتوں کے مختلف مفادات اور نظریات فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے میں ایک رکاوٹ بنے ہیں اور ان کی مداخلت سے حل کی راہ مزید مشکل ہوگئی ہے۔
عرب ممالک کا منافقانہ رویہ
عرب ممالک کا فلسطین کے مسئلے پر منافقانہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں وہ عوامی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کی مدد بہت کم نظر آتی ہے۔ یہ منافقت کئی عوامل کی بنا پر ہوتی ہے، جن میں داخلی سیاسی دباؤ، عالمی امداد، اور ان کے اپنے مفادات شامل ہیں۔
1۔ شام:
شام نے ہمیشہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی ہے، لیکن 2011 سے جاری خانہ جنگی نے اس کی پوزیشن کو کمزور کردیا ہے۔ شام کے اندرونی بحران نے اسے فلسطینیوں کےلیے عملی طور پر کم مدد فراہم کرنے کی حالت میں ڈال دیا ہے۔
2۔ مصر:
مصر نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے لیکن اس کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد اس کا کردار محدود ہوگیا ہے۔ مصر غزہ کی ناکہ بندی میں شامل ہے لیکن عملی طور پر فلسطینیوں کے حق میں کوئی بڑا اقدام نہیں اٹھاتا۔
3۔ اردن:
اردن نے 1967 تک مغربی کنارے کا انتظام کیا لیکن اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد اس کا کردار بھی محدود ہوگیا ہے۔ اردن کی حکومت بھی زبانی طور پر فلسطینیوں کے حق میں ہے لیکن عملی طور پر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھتا ہے۔
4۔ لبنان:
لبنان نے فلسطینی مہاجرین کو پناہ دی ہے اور حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی ہے، لیکن اس کا داخلی بحران اور سیاسی پیچیدگیاں اس کےلیے فلسطینیوں کے حق میں کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
5۔ ترکی:
ترکی نے فلسطین کے حق میں کئی بار زبانی حمایت کی ہے اور اسرائیل پر تنقید کی ہے، لیکن اس کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات اس کی منافقت کو ظاہر کرتے ہیں۔
6۔ قطر:
قطر نے حماس کی حمایت کی ہے اور غزہ کی تعمیر نو کےلیے مالی امداد فراہم کی ہے، لیکن اس کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات اور مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بھی اس کی پالیسیوں میں تضاد پیدا کرتے ہیں۔
7۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین:
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں، جسے فلسطینیوں نے دھوکا تصور کیا۔ ان ممالک کےلیے فلسطین کے حق میں مؤثر اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ عالمی سطح پر اپنے مفادات کو بہتر بنانا ہے۔
عرب ممالک کی مجبوریاں اور عالمی سیاست
عرب ممالک کی پالیسیوں میں منافقت کے ساتھ ساتھ کچھ مجبوریاں بھی ہیں۔ ان ممالک کی پالیسی عالمی سطح پر اپنی پوزیشن اور مفادات کو مضبوط بنانے کےلیے کی جاتی ہے۔ مغربی امداد، عالمی تعلقات اور داخلی سیاسی حالات عرب ممالک کے فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ عرب ممالک، خاص طور پر وہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرچکے ہیں، عالمی سیاست میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کےلیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر حل کی کمی
مشرقی وسطیٰ کے تنازعات میں عالمی سطح پر کسی سنجیدہ حل کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے فلسطین کے حق میں قراردادیں تو منظور کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی سخت اقدامات نہیں کیے جاتے۔ امریکا کی اسرائیل کے حق میں ویٹو کی پالیسی اور یورپ کا خاموش رویہ فلسطینیوں کو انصاف کے حصول میں مزید مشکلات میں ڈالتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود فلسطینی عوام کی جدوجہد آج بھی جاری ہے، اور فلسطینیوں کی مزاحمت نے اسرائیل کی ریاست کے خلاف ایک نیا جذبہ پیدا کیا ہے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد اب پہلے کی نسبت زیادہ منظم اور عالمی سطح پر مؤثر ہوتی جارہی ہے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کی مداخلت اور عرب ممالک کی خاموشی نے اس جدوجہد کو سست کردیا ہے۔
پھر بھی، فلسطینیوں کا عزم بلند ہے، اور وہ اپنے حق خودارادیت کےلیے لڑ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند ہورہی ہے، اور عالمی سطح پر بھی اس مسئلے کو حل کرنے کےلیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کا حل آسان نظر نہیں آتا، اور اس کےلیے عالمی سطح پر مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔