آئینی بینچ نے الیکشن ایکٹ کیخلاف دوبارہ درخواست دائر کرنے کی اجازت دیدی

ملازمین کو انتظامی فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینے کے معاملے پر پشاور اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے جواب طلب

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے الیکشن ایکٹ کے خلاف دوبارہ درخواست دائر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے الیکشن ایکٹ میں دوسری ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا معاملہ بھی ہے، رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر دوبارہ درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کو صدر مملکت کی منظوری سے قبل ہی چیلنج کر دیا گیا تھا لہٰذا ہمیں الیکشن ایکٹ کے خلاف دوبارہ درخواست دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ اگر پہلے ہی دوبارہ درخواست دائر کر دیتے تو عدالتی وقت کا ضیاع نہ ہوتا۔

بینچ نے الیکشن ایکٹ کے خلاف دوبارہ درخواست دائر کرنے کی اجازت دے دی۔

ہائیکورٹس ملازمین کو اپیل کا حق

ہائیکورٹس کے ملازمین کو انتظامی فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینے کے معاملے پر آئینی بینچ نے پشاور اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے 10 روز میں جواب طلب کر لیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ آئینی بینچ کے سامنے سوال یہ ہے کہ ہائیکورٹ کے ملازم کے خلاف انتظامی فیصلہ آئے تو اپیل کہاں جائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہائیکورٹس کی ذمہ داری ہے خود سے رولز بنائیں۔ وکیل صفائی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے رولز بنائے جا رہے ہیں۔

رائل پام کلب کیس

آئینی بینچ نے رائل پام کلب کیس کی مزید سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ رائل پام کلب کی بڈنگ ہوچکی، گیارہ کمپنیوں نے اشتہار میں دلچسپی لی تھی، پام کلب کی بڈنگ صرف ایک کمپنی کی جانب سے دی گئی۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا ہم چاہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بڈنگ کو حتمی کرنے سے عدالت میں رپورٹ دی جائے گی، تین ہفتوں میں سارا پراسس مکمل کرلیا جائے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت نے از خود نوٹس لیا اور اب کہا جا رہا ہے پہلے سے کم بڈنگ آئی، اگر پہلے سے کم بڈنگ آئی تو پھر اس کیس کا کیا فیصلہ ہوا۔

کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ عدالتی حکم پر کیے گئے آڈٹ کو مکمل کیا جا چکا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ 2019 سے یہ مقدمہ عمل درآمد کے لیے چل رہا ہے، عمل درآمد کا سپریم کورٹ میں نیا تصور آیا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار نے کیا کہ تو کیا عمل درآمد کا تصور میں کامیاب ہیں یا ناکام؟ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آئین و قانون سے انحراف کرنے کا مطلب آپ آئین و قانون کو ناکام ثابت کر رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ جب ادارے کام نہیں کرتے تو پھر خلاء پیدا ہوتا ہے، ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے۔

Load Next Story