اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو آپ نے یہ بات ضرور سنی یا پڑھی ہو گی: بیجوں سے نکلے کھانا پکانے کے تیل صحت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ وہ جان بھی لے سکتے ہیں۔
اس میڈیا میں براجمان کئی ماہرین طب کا دعوی ہے کہ ان تیلوں میں موجود ’’چکنائی کے تیزاب‘‘(fatty acids) کئی بیماریاں پیدا کرتے ہیں، مثلاً امراض قلب، ذیابیطس قسم دوم، بلڈ پریشر، جسمانی سوزش، تھکن اور جلد کی خرابیاں۔ سوال یہ ہے کہ طبی سائنس اس سلسلے میں کیا کہتی ہے؟
سّکہ بند ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا میں بیجوں کے تیل کے ضمن میں جو خوف وہراس پھیلایا جا رہا ہے، وہ ٹھوس حقائق کم رکھتا ہے اوراس کے پیچھے افواہوں اور جھوٹ کا زور زیادہ ہے۔ لہٰذا دیکھنا چاہیے کہ طبی سائنس کے حقائق کیا ہیں۔
بیجوں کے تیل کیا ہیں؟
مارکیٹ میں مختلف بیجوں سے نکلے کھانا پکانے کے تیل دستیاب ہیں تاہم سوشل میڈیا پر سرگرم خود ساختہ طبی ماہرین سورج مکھی، کپاس، مونگ پھلی، تل، کنولا، مکئی، سویابین، السی اور چاول کے چوکر سے نکلے تیلوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ملزم بنے ان تیلوں میں چکنائی کے تیزاب ملتے ہیں (جو دراصل انسانی جسم کو درکار اہم غذائی گروپ ہے۔) ان تیزابوں میں’’ اومیگا 6 ‘‘چکنائی کا تیزاب خصوصاً نشانہ ِ تنقید بنتاہے۔
چکنائی کے تیزاب ’’چربی‘‘ (Fat) بناتے ہیں۔ چربی کی دو بنیادی قسیں ہیں: سیچوریٹیڈ اور ان سیچوریٹیڈ ۔ گوشت اور دودھ سے بنی اشیا اور پام و ناریل کے تیل’’ سیچوریٹیڈ ‘‘چربی رکھتے ہیں۔’’ ان سیچوریٹیڈ ‘‘چربی بیجوں، سبزی ، پھل میں پائی جاتی ہے۔ ان سیچوریٹیڈ چربی کی دو اقسام ہیں: پولی ان سیچوریٹیڈ اور مونو ان سیچوریٹیڈ ۔ چربی کے تیزاب ٹریگلیسیرڈیز (triglycerides) بناتے ہیں ، جو ہمارے جسم میں چربی کے مکمل سالمے(molecule) ہیں۔
اومیگا 6 کی اپنی ذیلی اقسام ہیں۔ سوشل میڈیا میں سرگرم طبی ماہرین ان میں سے ایک قسم، لائنولک تیزاب (Linoleic acid) کو نشانہ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ لائنولک تیزاب ہمارے جسم کے لیے ضروری غذائی عنصر ہے۔ ہمارا جسم اسے تیار نہیں کر سکتا، جبکہ اسے اس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسمانی خلیے عمدگی سے ایک دوسرے کو پیغام بھجوا یا منگوا سکیں، اپنا کام بخوبی انجام دیں اور ہمارا مدافعتی نظام طاقتور ہو جائے۔
مگر بیجوں کے معتوب تیلوں پہ تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ جدید انسان بہت زیادہ لائنولک تیزاب لے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ انسانی جسم میں لائنولک تیزاب کی ضمنی پیداوار، اراشیڈونک تیزاب (arachidonic acid)کی مقدار بڑھ چکی۔ اراشیڈونک تیزاب نہ صرف انسان کے بدن میں سوزش پیدا کرتا بلکہ اومیگا 3 چکنائی کے تیزابوں کی افادیت بھی تباہ کر دیتا ہے۔ اس باعث انسان ذیابیطس قسم دوم، دل کی بیماریوں اور کینسر جیسے موذی امراض میں بھی مبتلا ہو رہا ہے۔ اومیگا 3 بھی چکنائی کا تیزاب ہے۔
کچھ سچ تو ہے!
سّکہ بند ڈاکٹر کہتے ہیں، مخصوص بیجوں سے بنے تیلوں پر جو الزامات لگ رہے ہیں، ان میں کچھ سچائی ضرور ہے مگر اس کا براہ راست تعلق تیلوں نہیں کھانوں کے ہمارے انداز سے ہے۔ دراصل کئی مردوزن تلے ہوئے اور پروسیس کھانے بڑی مقدار میں کھاتے ہیں ۔
یہ طرز طعام صحت کے لیے مضر ہے۔ لہذا اگر آپ بیجوں کے تیل اس لیے کم کھانے لگیں کہ پروسیس کھانے کم کھائیں تو یقیناً صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ پہلے کی نسبت خود کو صحت مند پائیں گے۔ مزید براں ان تیلوں کو بہت زیادہ گرم یا بار بار استعمال کیا جائے تب بھی وہ نقصان دہ بن جاتے ہیں۔
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ جو لوگ تلے ہوئے اور پروسیس کھانے بہت کھائیں، ان کے جسم میں لائنولک تیزاب کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ یہی نہیں، اپنے طرز طعام کی وجہ سے وہ اومیگا 3 کی نسبت اومیگا 6 چکنائی کے تیزاب زیادہ کھاتے ہیں۔
یہ دونوں غذائی مادے ہماری غذا میں اس لیے زیادہ ہوئے کہ پچھلے چند عشروں سے گھروں سے لے کر ہوٹلوں تک کھانے پکانے میں پام، کنولا، سورج مکھی، مکئی، سویابین وغیرہ کے تیل وغیرہ بکثرت استعمال ہونے لگے ہیں۔ یہی نہیں، اب جانوروں کی خوارک میں بھی سویابین کافی مقدار میں ڈالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ، کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کے بدن میں واقعی لائنولک تیزاب کی سطح خاصی بلند ہو چکی۔ یہ رجحان پچھلے چالیس پچاس برس میں پروان چڑھا ہے اور کم ہونے میں نہیں آ رہا۔
اراشیڈونک تیزاب کیا بلا؟
مستند ماہرین طب کا کہنا ہے، یہ ’’نظریاتی شواہد‘‘موجود ہیں کہ انسانی جسم میں پہنچ کر لائنولک تیزاب کی کچھ مقدار اراشیڈونک تیزاب (Arachidonic acid) میں بدل جاتی ہے۔ اراشیڈونک تیزاب پھر ایسے کیمیائی مرکبات میں بدلتاہے جو سوزش کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن بتایا گیا، صرف ’’نظریاتی ‘‘ شواہد ملے ہیں کہ انسانی جسم میں لائنولک تیزاب کی کچھ مقدار اراشیڈونک تیزاب میں بدل سکتی ہے۔
گویا طبی سائنس تجربات و تحقیق سے یہ نظریہ عملی طور پہ ثابت نہیں ہوا۔ پروفیسر گائے ایچ جانسن (Guy H. Johnson) امریکا کے ممتاز ماہر ِ غذائیات اور یونیورسٹی آف الینائے اربنا شمپین میں پڑھاتے ہیں۔ کہتے ہیں:’’حقیقی زندگی میں آپ کے جسم کو اومیگا 3 مناسب مقدار میں مل رہا ہے تو اومیگا 6 چکنائی کا تیزاب جسم میں سوزش پیدا نہیں کر سکتا۔‘‘ برطانیہ کے مشہور ماہر غذائیات، فلپ کالڈر ( Philip Calder) یونیورسٹی آف ساؤتھ ہمپٹن میں پروفیسر بھی ہیں۔
وہ پروفیسر گائے ایچ جانسن کی بات سے اتفاق کرتے ہیں:’’انسانوں پر جو تحقیقات ہوئی ہیں، ان سے یہی پتا لگا کہ انسانی جسم میں سوزش کے کم یا زیادہ ہونے کا لائنولک تیزاب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تیزاب جسم میں کم ہو یا زیادہ، کم از کم سوزش پہ براہ راست اثرانداز نہیں ہوتا۔ ‘‘
یہ دونوں ماہرین غذائیات اپنی درس گاہوں میں اس امر پر بھی تحقیق کر چکے کہ کیا اومیگا 6 چکنائی کے تیزاب انسانی جسم میں سوزش پیدا کرتے ہیں؟ تحقیق سے افشا ہوا کہ اومیگا 6 تیزاب اور انسانی بدن میں جنم لیتی سوزش کا کوئی مضر صحت تعلق موجود نہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ کئی طبی تحقیقات سے تو انکشاف ہوا، انسانی جسم میں اومیگا 6 کا زیادہ ہونا صحت کے لیے مفید ہے۔
ولیم ایس ہیرس (William S. Harris) ایک اور امریکی ممتاز ماہر غذائیات ہیں۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ ڈکوٹا کے سانفورڈ اسکول آف میڈیسن میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ہم نے ہزارہا انسانوں کے خون میں اومیگا 6 کی سطح چیک کی ہے۔ ہمیں اپنی تحقیق سے یہی معلوم ہوا کہ جن مردوزن میں چکنائی کے اس تیزاب کی مقدار زیادہ پائی گئی، وہ تندرست وتوانا تھے۔‘‘
اومیگا 6 کے فوائد
پروفیسر ولیم ایس ہیرس پچھلے دس سال کے دوران اپنی ٹیم کے ساتھ ایسی کئی تحقیقات انجام دے چکے جن میں جائزہ لیا گیا کہ اومیگا 6 تیزابوں کی مختلف اقسام انسان کی صحت پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ 2017ء میں انھوں نے ایک تحقیق سے دریافت کیا کہ اومیگا 6 کی سطح جسم میں مناسب ہو تو ذیابیطس قسم اول چمٹ جانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح 2020 ء میں انجام پائی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اگر جسم ِ انسانی میں لائنولک تیزاب کی مقدار زیادہ ہو تو انسان دل کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔2020ء ہی میں پروفیسر فلپ کالڈر نے ایسی اڑتیس تحقیقات کا جائزہ لیا جن میں انسانی صحت اور لائنولک تیزاب کے مابین تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔ سبھی تحقیقات سے افشا ہوا کہ اگر انسان کے بدن میں لائنولک تیزاب کی سطح زیادہ ہے تو وہ کینسر اور امراض قلب سمیت کئی موذی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
بات یہ ہے کہ ہمارے جسم میں چکنائی کے تیزاب دیگر جسمانی نظاموں کے ساتھ جس طرح تال میل کرتے ہیں، وہ کافی پیچیدہ عمل ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر ولیم ایس ہیرس کہتے ہیں:’’انسان کے بدن میں اومیگا 6، اومیگا 3 اور چربی کے دیگر تیزاب آپس میں بڑ ے نفیس انداز میں غلط ملط ہوتے اور ہمارے میٹابولزم سے تعامل کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ نظریہ کہ اومیگا 3 اچھے ہیں اور اومیگا 6 برے تیزاب ، سائنس کی جانچ پرکھ میں درست ثابت نہیں ہوا۔ یہ معاملہ دقیق اور پُراسرار ہے۔‘‘
ٹرانس فیٹ نہ لیں
پروفیسر ولیم ایس ہیرس اور پروفیسر فلپ، دونوں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ایسی تحقیقات انجام پائی ہیں جن میں بیجوں سے نکلے کھانا پکانے کے تیلوں کو مضر صحت پایا گیا۔ تاہم دونوں پروفیسر حضرات ان تحقیقات کے چند اہم نقائض واضح کرتے ہیں۔ پہلا نقص یہ کہ زیرتجربہ لوگوں کو اومیگا 6 تیزاب کی بہت زیادہ مقدار دی گئی تھی۔ آج کل لوگ اتنے زیادہ اومیگا 6 تیزاب نہیں لیتے۔
دوسرے اس تحقیق میں مارجرین بھی استعمال کی گئی جس میں’’ ٹرانس فیٹ ‘‘ہوتے ہیں۔ اور سبھی جدید طبی ماہرین کا اتفاق ہے کہ ٹرانس فیٹ انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یاد رہے ، ٹرانس فیٹ انسان ساختہ چربی ہے۔ جب بیجوں سے نکلے تیل میں ہائڈروجن گیس ملائی جائے تاکہ اسے گھی یا مارجرین بنایا جاسکے تو ٹرانس فیٹ جنم لیتے ہیں۔ یہ انسان کو امراض قلب میں مبتلا کرتے ہیں۔
ہیکسین کیا ہے؟
سوشل میڈیا کے خودساختہ ماہرین غذائیات یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ بیجوں سے تیل نکالتے وقت ایک نامیاتی مرکب، ہیکسین ( hexane) استعمال ہوتا ہے۔ یہ مرکب انسان زیادہ مقدار میں لے تو مختلف امراض کا نشانہ بن سکتا ہے۔ پروفیسر ولیم ایس ہیرس تسلیم کرتے ہیں کہ فیکٹری میں بیجوں سے تیل تیار کرتے ہوئے یہ نامیاتی مرکب برتا جاتا ہے۔ مگر ان کا کہنا ہے، پروسیسنگ کے دوران تیار شدہ تیل سے ہیکسن نکال لیا جاتا ہے۔ لہذا لوگ مارکیٹ سے جو تیل خریدتے ہیں ، اس میں یہ نامیاتی مرکب موجود نہیں ہوتا ۔
اس لیے وہ انسانی صحت پر کوئی اثرات بھی مرتب نہیں کرتا۔گویا طبی سائنس کی تحقیقات واضح کرتی ہیں ، اومیگا 6 والے تیلوں سے کھانا پکانا انسانی صحت کے لیے مضر نہیں، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ انسان کو فائدہ پہنچاتے ہوں۔ وجہ یہ کہ اومیگا 6 پولی ان سیچوریٹیڈ چربی ہے۔ ہمارا جسم یہ چربی نہیں بنا سکتا مگر اسے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کو غذا سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ پولی ان سیچوریٹیڈ چربی ہمارے جسم میں کولیسٹرول کی سطح گھٹا کر ہمیں دل کی بیماریوں اور فالج سے بچاتی ہے۔ کولیسٹرول بھی ایک قسم کی چربی ہے مگر اس کی زیادتی انسان کو امراض قلب میں مبتلا کرتی ہے۔
پھر ہم کیا کھائیں؟
درج بالا بحث سے مگر یہ نہ سمجھ لیں کہ بیجوں سے نکلا کھانے پکانے والا تیل جتنا مرضی استعمال کر لیا جائے، وہ صحت کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔اس کو اعتدال سے استعمال کریں۔ طبی ساینس بس یہ کہتی ہے، جدید انسان اپنی غذا کے ذریعے اومیگا 6 کی مطلوبہ مقدار جسم میں پہنچا رہا ہے۔
لہذا وہ سوشل میڈیا میں سرگرم ان خودساختہ ماہرین طب کے اس دعوی پر دھیان نہ دے کہ بیجوں سے نکلا فلاں تیل نہ کھایا جائے۔ وجہ یہ کہ اس اقدام سے انسانی جسم میں اومیگا 6 کی کمی ہو سکتی ہے۔ (کیونکہ دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کو بیجوں سے نکلے تیل کی صورت ہی چکنائی کے یہ تیزاب ملتے ہیں۔) یوں انسان کو اومیگا 6 سے جو طبی فوائد ملتے ہیں، وہ ان سے محروم ہو جائے گا۔ اس میں لائنولک تیزاب کے فائدے بھی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا کے ناپختہ ماہرین غذائیات کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے حقائق سے انجان مرد و زن مگر بیجوں سے نکلے تیل چھوڑ کر ایسی چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جو ان کی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ مثلاً یہ ماہردعوی کرتے ہیں کہ حیوانی چربی میں کھانا پکایا جائے یا مکھن جتنا مرضی استعمال کر لیں، صحت نہیں بگڑتی۔ کچھ جعلی ماہرین ہر قسم کے گوشت سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے اور کہتے ہیں کہ صرف سبزی کھائیں۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ جسے دیکھو، وہ سوشل میڈیا میں بیٹھا دوسروں کو الٹے سیدھے طبی مشورے دے رہا ہے۔
اس عمل سے یہ میڈیم طب وصحت کے سلسلے میں بے سر و پا باتوں کا گڑھ بن گیا ہے جو سائنسی لحاظ سے بے حقیقت ہوتی ہیں۔ بعض نام نہاد ماہرین زور دیتے ہیں کہ انسان گوشت کھا کر پیٹ بھرے۔ وہ پروٹین کو سپر غذا مانتے ہیں۔ جبکہ طبی سائنس سے ثابت ہے کہ گوشت کی زیادتی صحت کے لیے خطرناک ہے۔
گوشت کے روزانہ استعمال سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ خاص طور پہ سیچوریٹیڈ فیٹس کے باعث جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے۔ مستند ماہرین غذائیات کے نزدیک چربی کی تمام اقسام میں سب سے بہتر اومیگا 3 ہیں۔ اس کے بعد اومیگا 6 کا نمبر آتا ہے۔ جبکہ سیچوریٹیڈ فیٹس فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں۔