خناق

حلق کی یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے


نوید جان December 05, 2024

پاکستان بھر میں حلق کی بیماری ’’خناق‘‘ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وفاق نے صوبوں کو اس بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس ضمن میں قومی ادارہ صحت نے صوبوں کوخناق سے متعلق مراسلہ بھی ارسال کیا ہے۔ قومی ادارہ صحت کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ مختلف شہروں میں خناق کے کیسز اوراس میں اموات رپورٹ ہو رہی ہیں، یہ زہریلے مادے سے لاحق ہونے والاجان لیوا بیکٹریل انفیکشن ہے اور اس حوالے سے موثر نگرانی (سرویلنس) یقینی بنائی جائے۔

خناق ناک، حلق، گلے کی جھلیوں کونقصان پہنچاتا ہے، اس سے متاثرہ مریض کے حلق اور سانس کی نالی کے بالائی حصہ پرسوجن ہوتی ہے جب کہ اس کا جرثومہ ایک انسان سے دوسرے تک منتقل ہوسکتا ہے۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق مریض میں خناق کی علاماتدو سے پانچ دن میں ظاہرہونا شروع ہوجاتی ہیں، شدید کھانسی، خرخراہٹ اور سانس میں تنگی، بخار،گلے کی خراش، سردی، ناک بہنا اور بندش یہ سب خناق کی علامات ہیں، جب کہ خناق سے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں بھی نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔

قومی ادارہ صحت کے مطابق خناق کے علاج میں تاخیر پر 10 فی صد مریض انتقال کر جاتے ہیں، نان ویکسی نیٹڈ افراد میں خناق سے شرح اموات 5 تا 17 فی صد ہے۔ نان ویکسی نیٹڈ بزرگ افراد کو خناق سے زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر نان ویکسی نیٹڈ بچے بھی خناق سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پْرہجوم مقامات پر رہنے والوں میں خناق کے پھیلاؤ کا خدشہ رہتا ہے۔

قومی ادارہ صحت کے مطابق شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ خناق سے بچاؤکے لیے بر وقت ویکسی نیشن کرائیں۔ ملک میں خناق کے تشخیصی ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہے اور این آئی ایچ خناق کے مشتبہ سیمپل کا ٹیسٹ مفت کر رہا ہے۔ دوسری جانب خیبرپختون خوا میں بچوں کی مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس مکمل نہ کرنے پر یہ مرض پھیلاؤ اختیار کرگیا ہے۔ رواں سال 26 بچے اس مرض سے زندگی کی بازی ہارگئے ہیں۔

محکمہ صحت خیبرپختون خوا کے ’انٹیگریٹڈ ڈیسز سرویلنس رسپانس سسٹم‘ کے ڈیٹا کے مطابق رواں سال صوبے میں 380 سے زائد بچے خناق سے متاثر ہوئے ہیں۔ پشاور، مردان، کوہاٹ، ڈی آئی خان، بنوں سمیت 27 اضلاع میں خناق کے پھیلنے سے228 یونین کونسل متاثر ہوئی ہیں، زیادہ تر بچوں کے ساتھ ساتھ بڑی عمرکے افراد میں بھی یہ مرض رپورٹ ہوا ہے۔

خناق سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے ضلع پشاورسرفہرست ہے،جہاں سب سے زیادہ 12 بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ نوشہرہ اورچارسدہ میں تین تین جب کہ ضلع مہمند میں دو بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جان کی بازی ہارنے والے بچوں میں 75 فی صد کی عمریں پانچ سال اور اس سے زائد ہیں۔ ڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر اصغر کے مطابق متاثرہ بچوں نے پیدائشی حفاظتی ٹیکہ جات کے کورس مکمل نہیں کئے تھے۔ صوبے میں اس وقت بچوں کو 12 مہلک امراض سے بچاو کے لیے حفاظتی ویکسین دی جارہی ہے۔

خناق مرض کاشکار بچوں کے لیے اینٹی ڈپتھیریا سیرم بھی وافرتعداد میں موجود ہے تاہم والدین کو اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کرنا چاہیے،کیوں کہ والدین کی جانب سے بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کے صرف ابتدائی ٹیکے تو لگادئیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعدکے ٹیکوں کے لیے اپنے بچوں کونہیں لایا جاتا، جس سے بچوں کو باآسانی ویکسین کے ذریعے بچانے والے امراض بھی ختم نہیں ہورہے بلکہ یہ مہلک امراض بچوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے خیبرپختون خوا کے مشیرصحت احتشام علی نے بتایاکہ صوبے میں خناق سے متعلق جائزہ رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کا مقصد عوام اور میڈیا کو اعتماد میں لے کرخناق جیسی وبا سے متعلق حساسیت پھیلانا ہے، جب تک والدین اپنے بچوں کوخناق سمیت بارہ مہلک بیماریوں سے بچاؤکی ویکسین نہیں دیںگے تب تک صورتحال قابو میں نہیں آئے گی۔ صوبہ بھر کے والدین سے بالعموم اور پشاور کے والدین سے بالخصوص درخواست ہے کہ اپنے بچوںکو خناق سے بچاؤ کی ویکسین پلائیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے کے 27 اضلاع کے 228 یونین کونسلز سے اب تک خناق کے 383 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ان مثبت کیسز میں 91 فی صد بچے ایسے ہیں جن کوخناق سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگی۔ امسال پشاور، مردان، ڈی آئی خان، بنوں،کوہاٹ، چارسدہ، ہری پور اور صوابی میں 27 مرتبہ یہ مہلک وبا پھوٹی۔ خناق سے متاثرہ 75 فی صد بچوں کی عمریں پانچ سال سے زائد ہیں، امسال خناق سے جان کی بازی ہارنے والے 26 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ بیماری ایک بچے سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ تیزی سے پھیل رہی ہے، بچوں کی فوری ویکسینیشن اور ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ واحد حل ہے۔ صوبے میں اینٹی ڈیپتھیریا سیرم کی وافر مقدار موجود ہے، والدین کسی بھی صورت اپنے بچوں کو متعلقہ مراکز صحت پہنچائیں۔

ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟

آج کل چھوٹے بچّے خناق کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں، یہ مرض عام طور پر ناک اورگلے کی نالیوں کو متاثر کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس مرض میں اموات کی شرح تقریباً 30 فی صد ہے۔ خنّاق دراصل سائنو بیکٹیریا سے لاحق ہونے والی ایک بیماری ہے۔ سائنو بیکٹیریا خناق کا انفیکشن ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ ٹشوزکو نقصان پہنچتا ہے اوراس کی کئی اقسام ہیں۔

اس بیماری میں مبتلا افرادکے جسم میں زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں جوخون کے دھاروں میں شامل ہوتے ہیں، یہ متعدی بیماری ہے، جوسانس کے ذریعے پہنچتی ہے، اس مرض میں مبتلا شخص کھانستا یا چھینکتا ہے یا پھر اْس کی سانس اورناک کی رطوبت کسی دوسرے انسان تک ہوا کے ذریعے پہنچتی ہے تو دوسرا شخص بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے، اسے انفکشن ڈراپلیٹس کہتے ہیں۔

اگر کوئی شخص خناق میں مبتلا ہے تو علاج کے باوجود یہ مہلک ہو سکتا ہے۔ اس کی علامات میں گلے میں خراش ہونا، ٹانسلز اورگلے کی دیوار اورتالو پر سفیدی مائل دھبّے، غدود میں سوجن اور ان کا بڑھ جانا، سانس لینے میں دشواری، بخارہونا یا سردی لگنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، ناک بہنا، بھوک میں کمی اور بلغم کا اخراج بعض اوقات خونی بلغم کا اخراج شامل ہیں۔

جب کوئی شخص اس انفیکشن کاشکار ہوتا ہے تو دو سے پانچ دن میں اس بیماری کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں، مگر اس کے پھیلنے کا دورانیہ ایک سے 10 دن تک ہوتا ہے۔ جب ایک مرتبہ یہ بیماری انسانی جسم میں داخل ہو جائے، تو اس کے بیکٹیریا دو قسم کے زہریلے مادّے خارج کرتے ہیں، جنہیں ٹاکسن اے اورٹاکسن بی کہتے ہیں۔

ٹاکسن بی انسانی جسم کے ساتھ چپک کر ٹاکسن اے کو جسم کے خلیوں میں داخل کرنے میں مددکرتا ہے اور یہ ٹاکسن ہی اس بیماری کی اصل وجہ ہے۔ یہ زہریلے مادّے بہت تیزی سے اپناکام کرتے ہیں، جب کہ انسانی جسم جواباً ان سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس جسمانی ردِ عمل کو ایمیون سسٹم کہا جاتا ہے اوریہی وہ مدافعتی نظام ہے جو ویکسین کے ذریعے اپناکام کرتا ہے اور فوری طور پر بیماری سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بیماری اگر شدید نہ ہو تو عام طور پر سات سے 10 دن میں ختم ہوجاتی ہے لیکن شدید بیماری تقریباً چھے ہفتے تک اپنے اثرات برقرار رکھتی ہے۔

اگر کسی شخص میں خناق کی درج بالا علامات محسوس کی جائیں تو فوری طور پر ماہر معالج سے رابطہ کرنا چاہیے، اگر بر وقت اس مرض کی تشخیص اور علاج نہ ہوتو یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر مرض کی تشخیص ہوچکی ہے تو ڈاکٹرکے علاج کے ساتھ ساتھ مکمل صحت یاب ہونے کے لیے مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ خناق کے مریضوں کوکسی بھی جسمانی مشقت سے گریزکرنا چاہیے۔

خناق کی صورت میں غذا نگلنے میں دشواری ہو سکتی ہے، اس لیے نرم غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ وٹامنز سے بھرپور غذا کا استعمال بھی کیاجاسکتا ہے۔ انفیکشن کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے باربار ہاتھ دھونا اورنیم گرم پانی کے غرارے کرنا ضروری ہیں۔ خناق ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جو بہت سنگین ہو سکتا ہے لیکن ویکسینیشن کے ذریعے اس کی روک تھام ممکن ہے۔

خنّاق سے بچاو کے لیے جو ویکسینز لگائی جاتی ہیں، اْنہیں ’’ڈاپ ‘‘کہتے ہیں۔ اس ضمن میں نومولود بچے کو 6 سے 8 ہفتے پر پہلی، ایک مہینے بعد دوسری اور 5، 6 ماہ کی عْمر میں تیسری ویکسین دینا ای پی آئی پروگرام کاحصّہ ہے۔ ابتدائی 3 خوراکوں کے بعد 15 سے 18 ماہ میں چوتھی ڈوز لینی ہوتی ہے جو عموماً نجی طور پر لگوانی ہوتی ہے۔ پھر 4 سے 5 سال کی عْمر میں پانچویں ڈوز اور10سال بعد چھٹی ڈوز لی جاتی ہے،گویا مکمل ویکسی نیشن پروگرام 6 خوراکوں پر مشتمل ہے۔ 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں