انسان خواب کیوں دیکھتا ہے؟

شاید اسی لئے خواب میں ہونے والے اکثر واقعات بے ربط اور الجھاؤ کا شکار ہوتے ہیں۔


ڈاکٹر خالد جمیل December 05, 2024

اس سوال کا جواب سائنس دان ایک طویل عرصے سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب انسان سو جائے تو اس کا شعور بھی سو جاتا ہے اور چونکہ اس وقت لاشعور جاگ رہا ہوتا ہے اس لئے لاشعور میں موجود خیالات، جذبات یا ایسی خواہشات جو زورآور ہوں، شعوری زندگی میں پوری نہ ہو سکتی ہوں وہ سر اٹھاتی ہیں اور دماغ کی سکرین پر لاشعوری زاویوں سے نظر آنے لگتی ہیں۔

شاید اسی لئے خواب میں ہونے والے اکثر واقعات بے ربط اور الجھاؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ لاشعور میں اسی طرح ایک کارنر لینز بھی لگا ہوا ہوتا ہے جو بہت زیادہ خوفناک یا بے ہودہ مناظر کو دکھانے سے روک دیتا ہے۔ خواب میں ایسے واقعات اشاروں میں دکھائے جاتے ہیں، کبھی کبھی خواب اس سنسرشپ سے آزاد ہو جائیں تو ہیجان آمیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ خواب مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں، اکثریت کا خیال ہے کہ ان کا تعلق مستقبل سے نہیں بلکہ ہمارے ماضی کے تجربات، یادیں اور واقعات کی گود سے خوب جنم لیتے ہیں۔ ہم اوسطاً آٹھ گھنٹے سوتے ہیں۔ دورانِ نیند تقریباً دو گھنٹے کا دورانیہ ایسا ہوتا ہے جس میں ہم خواب دیکھتے ہیں۔ نیند کے اس دورانیے کو ’’ریم خواب‘‘ کہتے ہیں۔

بیس بیس منٹ کے وقفہ کے لئے تین چار مرتبہ یہ دورانیہ ہماری حالت نیند میں آتا ہے۔ ہم خواب صرف اسی دورانیے میں دیکھتے ہیں گویا ہم رات بھر دورانِ نیند ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیس منٹ کے لئے یہ خواب دیکھتے ہیں اور پھر ڈیڑھ گھنٹے کے لئے گہری نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا ہے۔ اگر ہماری آنکھ خواب دیکھتے ہوئے کھل جائے تو وہ خواب ہمیں یاد رہ جاتے ہیں ورنہ رات بھر دکھائی دینے والے خواب صبح تک بھول چکے ہوتے ہیں۔

کیا ہماری دن بھر کی سوچ کا اثر ہمارے خوابوں پر اثرانداز ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ صرف سوچ ہی اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ وہ سوچ جس میں فکر و پریشانی شامل ہو، اس کے اثرات ضرور نمایاں ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا جن لوگوں کی سرجری کروانی ہوتی ہے انہیں سرجری سے کچھ دن قبل قدرے مختلف خواب آنا شروع ہو جاتے ہیں اور کامیاب سرجرجی کے بعد پھر نارمل حالت کی طرف لوٹ آتے ہیں۔

میرے خیال میں خواب چار اقسام کے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر خوابوں کی نوعیت بے معنی ہوتی ہے بلکہ آپ کے لاشعور میں چلنے والی لہریں اپنا راستہ خود تراشتی و تلاشتی ہوئی کچھ شعوری حصوں کی حدود سے گزرتی ہیں اور ہماری پلکوں پر خواب سجتے چلے جاتے ہیں جن میں بامعنی واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔ ہماری پوشیدہ خواہشات کی تشنگی مٹانے کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات ہماری زندگی کی خوف زدگی سے لبریز اور پراسرار کہانیاں ہمیں نیند کے کینوس پر نظر آتی ہیں۔

دوسری قسم ان خوابوں کی ہے جو intruccional ہوتے ہیں۔ ایسے خواب بامعنی ہوتے ہیں۔ ہمارا شعور جن باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور کسی وجہ سے ہم ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو رہے ہوں تو شعور ہمیں لاشعور کے ذریعے ہمارے خواب میں آ کر ہمیں مشورہ دیتا ہے، متنبہ کرتا ہے اور درست راہ میںہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ان خوابوں میں ہمیں اشارتاً کوئی ایسا پیغام مل سکتا ہے کہ ہمیں فلاں کام کرنا چاہئے یا اسے کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

تیسرے درجے کے خواب ’’تخلیقی‘‘ قسم کے کہلاتے ہیں۔ خوابوں کی اس قسم میں دماغ کے لاشعور کا حصہ اپنے شعور والے حصے کی مدد کرنے کے لئے بڑا پرسکون ہو کر کسی خاص مسئلہ کا حل دریافت کرتا ہے۔ وجود میں نہ آنے والی تصویر کو وجود بخشتا ہے، صفحہ قرطاس پر رقم نہ ہونے والی نظم ترتیب دیتا ہے۔

سائنسی مسئلہ کا جواب بن کر زندگی کے پیچ وخم کی الجھن سے محفوظ رکھتا ہے اورکبھی بعید سے پردہ اٹھا دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو آپ کو ایسے بے شمار واقعات ملیں گے جن میں لوگوں نے اپنے خوابوں کے ذریعے زندگی کی حقیقت میں رنگ بھرے ہیں۔ اسی طرح انسولین اور پنسلین ایجاد ہوئی۔

چوتھی قسم کے خواب مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق آگاہی دیتے ہیں جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے قرآن پاک میں خواب کا ذکر کیا گیا ہے کہ آنے والے سات سالوں میں عرب کے اس علاقہ میں قحط سالی ہو گی وغیرہ وغیرہ … ایسے خواب عام لوگوں کی چشم سے اوجھل رہتے ہیں بلکہ جو لوگ روحانی طور پر قدرت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہ ایسے خواب دیکھنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

خوابوں کی ایک ایسی قسم بھی ہے جسے ’لیوسڈ ڈریم‘ ) (Lucid Dream کہتے ہیں۔ خواب کی یہ شاخ بذاتِ خود بہت طویل اور بحث طلب ہے لیکن میں اختصار سے کام لیتے ہوئے بتانا چاہوں گا کہ یہ ایسے خواب ہیں جو ہم اپنی مرضی سے اپنی پلکوں تک لے آتے ہیں یعنی ہم جیسا خواب دیکھنا چاہیں ہم اسی طرح دیکھ لینے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو جاتے ہیں۔

خواب میں دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہاں واقعات کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب تر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وقت ساکت ہو جاتا ہے یعنی آپ پانچ منٹ کے خواب میں برسوں کے یارانے گزار دیتے ہیں۔ بچے سے جوان ہو کر بڑھاپے کو اپنی کھال کی تہہ در تہہ سلوٹوں میں اترتا محسوس کرتے ہیں اور یہ سب جسمانی طور پر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیالی لہریں دماغ میں خواب بننے کا سبب بنتی ہیں۔ ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔ گویا رات بھر ے چند خوابوں میں ہم کتنے جیون بنا دیتے ہیں۔ 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں