اسرائیل کی فورسز غزہ میں مسلسل کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حزب اﷲ کے زیرکنٹرول جنوبی لبنان بھی اسرائیلی فورسز کے نشانے پرہے حالانکہ اس علاقے میں فائر بندی معاہدہ بھی ہوچکا ہے، یہی نہیں بلکہ شام کے علاقے بھی اسرائیلی فورسز کے ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔
تینوں محاذوں پر مسلسل ہلاکتیں ہورہی ہیں۔اقوام عالم جنگ بندی کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، عالمی عدالت انصاف بھی غزہ میں جنگ بندی کرنے کا کہہ چکی ہے لیکن اسرائیل کی حکومت کوئی دباؤ قبول نہیں کررہی ہے۔ ادھر امریکا کے نومنتخب صدر نے اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے دھمکی آمیز بیان جاری کردیا ہے۔
انھوں نے حماس کا نام لیے بغیر انتباہ کیا ہے کہ اگر ان کی اعلان کردہ تاریخ تک یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا بھگتنی ہوگی۔
عالمی اور مقامی میڈیا کے مطابق امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا کہ ’’ہر کوئی یرغمالیوں کے بارے میں بات کر رہا ہے جنھیں مشرق وسطیٰ میں دنیا کی مرضی کے خلاف رکھا گیا ہے، لیکن یہ سب باتیں ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی!‘انھوں نے لکھا کہ ’برائے مہربانی سچائی کو اس بات کی نمایندگی کرنے دیں کہ اگر یرغمالیوں کو 20 جنوری 2025 سے پہلے رہا نہیں کیا گیا، اس تاریخ کو میں فخریہ امریکا کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھاؤں گا، تو مشرق وسطیٰ میں اور انسانیت کے خلاف ان مظالم کا ارتکاب کرنے والوں کو تمام سزائیں بھگتنا ہوں گی، ذمے داروں کو امریکا کی طویل ترین تاریخ میں کسی سے بھی زیادہ سخت نشانہ بنایا جائے گا لہٰذا یرغمالیوں کو اب رہا کرو!
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں مسلسل یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ برسراقتدار آکر جنگیں ختم کرائیں گے ، جنگیں شروع نہیں کریں گے ، انھوں نے غزہ میں جنگ بند کرانے اور تنازعہ فلسطین حل کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے لیکن ان کا حالیہ بیان کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے، اسی دوران ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکلنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قرارداد منظور کرلی ہے ۔
جنرل اسمبلی نے 8 کے مقابلے میں 157 ووٹوں سے قرارداد منظور کی ہے، امریکا اور اسرائیل نے قرارداد کی مخالفت کی جب کہ 7 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یوں دیکھا جائے تو سوائے امریکا اور اسرائیل کے اقوام متحدہ کے کسی رکن نے فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی مخالفت نہیں کی ہے۔اسرائیل چونکہ اس تنازعہ کا ملزم فریق ہے ، لہٰذا اس کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں صرف امریکا نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے حق کو ہی تسلیم نہیںکیا ہے بلکہ مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ پٹی پر اسرائیلی قبضے کو بھی ناجائز قرار دیا ہے ۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی قوانین کے تحت مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 1967 کی سرحدی تقسیم کے مطابق دو ریاستی حل کا مطلب ہے کہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہیں۔اجلاس کے دوران جون 2025 میں نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں سفارتی کوششوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کی بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کیا گیا۔
ادھر غزہ پٹی کے انتظام پر حماس اور فتح کے مذاکرات معاہدے کے قریب پہنچنے کی اطلاعات بھی ہیں جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ دونوں فلسطینی گروپوں کو اپنے عوام کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔ باہمی اختلافات بعد میں طے ہوتے رہیں گے ۔ جنگ بندی کے بعد غزہ پٹی کے انتظام پرحماس اورفتح کے درمیان مذاکرات میں فریقین آزاد سیاسی ٹیکنوکریٹس کی کمیٹی بنانے پر متفق ہیں اور معاہدے کے قریب ہیں۔فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ٹیکنوکریٹس کمیٹی کے تقرر سے غزہ پر حماس کی حکمرانی ختم ہو جائے گی، یوں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔
یہ کمیٹی انسانی امداد اور تعمیر نو کے لیے مقامی اور بین الاقوامی فریقین کے ساتھ مل کرکام کرے گی۔فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کے بنیادی نکات پر اتفاق ہو گیا ہے، کمیٹی 12 سے 15 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں اکثریت کا تعلق غزہ سے ہوگا۔
ٹیکنوکریٹ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی کو رپورٹ کرے گی جس کا ہیڈ کوارٹر مقبوضہ مغربی کنارے میں ہے۔عالمی میڈیا کے توسط سے مقامی میڈیا نے حماس کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس اور فتح نے معاہدے کے بنیادی نکات پر اتفاق کرلیا ہے تاہم کچھ نکات پر بات چیت کا عمل جاری ہے ۔حماس رہنما کا کہنا تھا کہ شرائط پر تمام فلسطینی فریقین کے اتفاق کے بعد ہی معاہدے کا اعلان کیا جائے گا، تاہم معاہدے کے اعلان کے لیے کوئی وقت نہیں دیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اسرائیل کے اسٹرٹیجک ڈویژن کے سربراہ رون درمر سے ملاقات کی ہے جس میں تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لانے اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ ’الجزیرہ‘ کے مطابق، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ انتھونی بلنکن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کو غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے۔لبنان میں جنگ بندی پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔
امریکا کی موجودہ انتظامیہ کی پوزیشن عارضی سیٹ کی ہے۔ صدر جو بائیڈن چالیس روز تک اپنے عہدے پر رہیں گے، اس کے بعد نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال لیں گے اور نئی انتظامیہ کام کا آغاز کردے گی ، اس لیے انتھونی بلنکن کی سفارتی کوششیں زیادہ کارگر نہیں ہوں گے، لبنان میں حال ہی میں اعلان کردہ جنگ بندی پر عمل درآمد پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ادھرالجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انسانی حقوق گروپ ’بیت سلیم‘ نے رواں سال مئی اور اگست کے درمیان مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں ایک نئی رپورٹ شایع کی ہے۔ اس رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف تشدد، ذلت اور بدسلوکی کے واقعات کی وضاحت کی گئی ہے۔
بیت سلیم نے کہا کہ ظلم کا شکار ہونے والے 25 فلسطینیوں میں سے کسی پر بھی کسی جرم کا شبہ نہیں تھا اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا اور حملے کے فوری بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’متاثرین نے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے دردناک واقعات بیان کیے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تشدد کا یہ پیمانہ ظلم اور بے دخلی کی ایک منظم، دیرینہ پالیسی کا سفاکانہ اظہار ہے جو اسرائیلی نسل پرست حکومت کی جڑ ہے۔
لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیح بیری نے کہا ہے کہ بیروت میں 27 نومبر سے لے کر اب تک اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی کم از کم 54 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔نبیح بیری نے جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی پر زور دیا کہ وہ ’فوری طور پر‘ اس بات کو یقینی بنائے کہ اسرائیل اپنی خلاف ورزیوں کو روک دے۔اسرائیلی وزیر دفاع نے لبنانی حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی ناکام ہوتی ہے تو اسرائیل حزب اللہ اور لبنانی ریاست میں فرق نہیں کرے گا۔
ادھر سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر جاری اپنے بیان میں لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی جانب سے کہا کہ اس نے اسرائیلی خلاف ورزیوں کے جواب میں کفر شوبا میں اسرائیلی فوجی اڈے پر دفاعی حملہ کیا ہے۔ حزب اللہ کے اس حملے کے بعد اسرائیل نے لبنان پر پھر بمباری کردی۔ صہیونی فوج کی اس بمباری میں 11 لبنانی شہری جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ شام میں دمشق ایئرپورٹ کی سڑک پر ایک گاڑی پر اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔ امریکی سینیٹرز بری سینڈرز نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔
عالمی سطح پر ہونے والی سرگرمیوں سے یہی لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت سخت عالمی دباؤ کا شکار ہے،طویل جنگ کے دوران اسرائیل کی حکومت نے اپنے ٹارگٹس حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ فلسطینیوںکی اجتماعی سفارت کاری اور مغرب میں مقیم عربوں کی سفارتکاری بھی خاصی کارگر رہی ہے۔ اسرائیل عالمی دباؤ کا شکار ہوا ہے اور وہ اپنے سوفیصد ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔