انٹارکٹکا کی آئس شیٹ زمین کا 8.3فیصد جب کہ گرین لینڈ 1.2فیصد حصہ ڈھکے ہوئے ہے جب کہ گلیشیئرز سے زمین کا صرف 0.5فیصد ڈھکا ہوا ہے۔ زمین کا چھوٹا سا حصہ ڈھکے ہوئے ہے مگر وہ تیزی سے غائب ہو رہا ہے۔ اگر ہمارے سیارے کا درجہ حرارت اتنی تیزی سے ہی بڑھتا رہے جتنی تیزی سے ابھی بڑھ رہا ہے تو سطح سمندر 25 سینٹی میٹر بڑھ جائے گی اور زیادہ پریشان کن صورتحال میں یہ 42 سینٹی میٹر تک بھی بڑھ سکتی ہے۔
اس میں تقریبا نصف حصہ گلیشیئرز کے پانی کا ہوگا۔ واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ ڈبلیو آر آئی کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جہاں شدید آبی مسائل کا سامنا ہے ۔بظاہر تو پانی دنیا کے 70 فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے، لیکن اس کا صرف تین فیصد ہی پینے کے قابل ہے جو آبادی بڑھنے، آلودگی اور دوسری وجوہات کی بنا پر ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔
دنیا میں کم از کم ایک ارب لوگوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور 2.7ارب انسان ایسے ہیں جنھیں سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔2014 میں دنیا کے پانچ سو بڑے شہروں کا سروے کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ہر چار میں سے ایک شہر پانی کے مسائل سے دوچار ہے۔
دنیا کے چھ ایسے اہم شہروں میں بھارت کا شہر بنگلور سرفہرست ہے۔بنگلور کی جھیلیں بری طرح سے آلودہ ہو رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کے بعد بنگلور کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جس کا اثر لامحالہ طور پر پانی کی فراہمی اور نکاسی کے نظام پر پڑا ہے۔ شہر میں پانی کی ترسیل کا نظام اس قدر خراب ہے کہ مقامی حکومت کے مطابق نصف صاف پانی ضایع ہو جاتا ہے۔جو پانی گھروں تک پہنچ بھی جاتا ہے وہ بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔بیجنگ کے گردونواح کو بھی قحط سالی کا سامنا ہے۔
بیجنگ کے دو کروڑ سے زیادہ باسیوں کو صرف ایک لاکھ 45 ہزار لیٹر پانی سالانہ میسر تھا۔چین کو مجموعی طور پر پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ وہاں دنیا کی کل آبادی کا 20 فیصد حصہ آباد ہے لیکن اس کے حصے میں صرف سات فیصد صاف پانی آیا ہے۔ ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بیجنگ کا 40 فیصد پانی اس قدر آلودہ ہے کہ پینا تو درکنار، زرعی اور صنعتی مقاصد کے لیے بھی کارآمد نہیں رہا ہے۔
قاہرہ شہر کے اندر سے بہنے والا دریائے نیل کا وہ حصہ جو قاہرہ شہر کے درمیان سے گزرتا ہے، آلودہ ہوچکا ہے۔نیل پورے مصر کے صاف پانی کا 97 فیصد فراہم کرتا ہے، لیکن اب یہ رہائشی اور زرعی فضلے سے آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق مصر میں آلو د ہ پانی سے متعلقہ بیماریوں سے بڑے پیمانے پر اموات ہو رہی ہیں، اور 2025 تک وہاں پانی کی شدید کمی کا خدشہ ہے۔
روس میں پانی وافر ہے لیکن اس کا بڑا حصہ آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔روس میں میٹھے اور تازہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ پایا جاتا ہے، لیکن سوویت دور میں کی جانے والی زرعی توسیع اور صنعتی ترقی کی وجہ سے اسے بھی آلودگی کا سامنا ہے۔ماسکو کا 70 فیصد پانی زیر زمین ذخائر سے حاصل ہوتا ہے، جو زیادہ آسانی سے آلودہ ہو جاتا ہے۔مقامی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کا 35 سے 60 فیصد پانی حفظانِ صحت کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
اعداد و شمار کے مطابق ترکی کو صاف پانی کی کمی کا سامنا ہے،2030 تک یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر لے گا۔حالیہ مہینوں میں ایک کروڑ 40 لاکھ آبادی والے استنبول میں خشک موسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔ شہر میں پانی کے ذخیرے میں 30 فیصد کمی ہوچکی ہے۔
لندن میں بڑے پیمانے پر پانی کا ضیاع ہوتا ہے، عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہاں بہت بارش ہوتی ہے، لیکن دراصل لندن میں بارش کی شرح پیرس اور نیویارک سے کم ہے اور یہاں کا 80 فیصد پانی دریا سے آتا ہے۔گریٹر لندن اتھارٹی کے مطابق 2025 تک شہر میں پانی کم پڑنا شروع ہو جائے گا اور یہ مسئلہ 2040 تک سنگین شکل اختیار کر لے گا۔