ہزاروں ساتھیوں سمیت

دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے


سعد اللہ جان برق December 05, 2024
[email protected]

ہم اس زبردست تقریباً جشن جیسی تقریب میں شامل تو نہیں تھے لیکن نہایت وثوق دار لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑی شاندار تقریب تھی جس میں اے این پی کے ایک’’رہنما‘‘ نے مسلم لیگ میں شامل ہوکر رہنما سے ’’ممتازرہنما‘‘کا درجہ حاصل کیا۔

ظاہر ہے کہ اس تقریب میں مسلم لیگ کی خوب خوب تعریف بھی کی گئی ہوگی کیونکہ اس تقریب کے دولہے اگر وہ شامل ہونے والے سابق رہنما اور اب ممتاز رہنما تھے تو شہ بالا ہمارے امیرمقام صاحب تھے۔جو پہلے ہی ایک اور پارٹی کی سیڑھی پر رہنما سے ممتاز رہنما بنے ہیں اور بنتے رہتے ہیں۔

مسلم لیگ میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں عام آدمی یا صرف رہنما نہیں ہوتے بلکہ جو بھی اس میں شامل ہوتا ہے وہ باون گزا یعنی ممتاز رہنما ہوجاتا ہے۔اور یہ جو اے این پی کے رہنما مسلم لیگ میں ممتاز رہنما بنے ہیں ان کے ساتھ یقیناً ہزاروں ساتھی بھی ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے آج تک کسی بھی پارٹی میں کسی کو اکیلے دکیلے کو شمولیت اختیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہر ایک اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔

ہمارے علاقے میں بھی ایک صاحب ایسے گزرے ہیں بلکہ گئے گزرے ہیں کہ وہ ہر الیکشن میں اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے۔لیکن ان کو کبھی کسی پارٹی سے’’نکلتے ہوئے‘‘نہیں دیکھا سنا گیا تھا۔یوں وہ تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ شامل رہا کرتے تھے۔کبھی کبھی تو دو راہ سہ بارہ بھی ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ اسی پارٹی میں شامل ہوجاتے تھے جس میں پہلے سے وہ ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔

ایک مرتبہ تو جب ایک دینی پارٹی میں شامل ہورہے تھے تو کلین شیو تھے اور پھر ریش دراز ہوگئے لیکن جب الیکشن میں ہار گئے تو چند روز بعد ہم نے اسے پھر کلین شیو دیکھا۔پوچھا وہ ریش دراز کیا ہوئی اس سے پہلے اس کے ایک ساتھی نے جواب دیا وہ الیکشن کے لیے داڑھی اس دینی پارٹی نے دی تھی لہٰذا واپس لے لی کہ اب یہ کسی اور پارٹی میں جائے گا تو ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ بے شک جائے لیکن ہماری داڑھی کے ساتھ کیوں جائے۔اور تو اور ایک مرتبہ اگر آپ کو یاد ہو تو غلام مصطفی جتوئی اور غنویٰ بھٹو نے جو پارٹیاں بنوائی تھیں، ان میں بھی ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ شامل ہوئے تھے حالانکہ ان پارٹیوں میں خود جتوئی صاحب اور غنویٰ بھٹو صاحبہ بھی اتنے ساتھیوں سمیت داخل نہیں ہوئے تھے۔ہم نے بڑی تحقیق کی کنوؤں میں بانس ڈالے بلکہ

دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحرظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

بقول چشم گل چشم عرف قہرخداوندی عرف کوئڈ نائنٹین۔ ’گھوڑا دیے دوڑا ہم نے‘۔لیکن ان ہزاروں ساتھیوں کا سراغ نہیں پاسکے جو ہر شمولیت والے کے ساتھ ہوتے ہیں اور اگر دکھائی نہیں دیتے ہیں تو یقیناً جنات یا فرشتے ہوں گے یا ممدو کے ووٹ ہوں گے۔

ممدو ہمارے گاؤں کا ایک شخص تھا جو ہر الیکشن کے موقع پر ہر امیدوار سے یہی کہتا تھا کہ دوسو ووٹ تو میری اس جیب میں پڑے ہیں اپنے سینے کی جیب کی طرف اشارہ کرکے۔باقی آپ خود اندازہ لگائیں لیکن جب وہ خود بلدیاتی الیکشن میں کھڑے ہوگئے تو اپنے صندوق میں صرف چار ووٹ دیکھ کر بولے لوکم بخت تو میرے خاندان کے لوگ ہیں ان میں پانچ کم بخت کہاں چلے گئے۔اچھا ہوا اس نے طلا ٹائیگر کی طرح گالی نہیں۔ طلامحمد ٹائیگر پشاور کے ایک قومی حلقے سے کھڑے تھے۔

ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا زمانہ تھا صرف بی ڈی ممبر ہی ووٹ ڈال سکتے تھے طلامحمد ٹائیگر کے صرف دو ووٹ نکل آئے تو بولے یہ ایک تو میرا اپنڑا اے یہ دوا کس ’گالی دے کر، نے پایا اے۔ طلامحمد ٹائیگر بڑے مزے کے آدمی تھے اکثر ہمارے دفتر آتے تھے اور اپنا بیان خود لاتے تھے جن میں بیان کم گالیاں زیادہ ہوتی تھیں، ایک دن ایک کتاب لائے’’مخزن طلاء‘‘ کتاب کا ٹائٹل دیکھ کر ہم نے پوچھا آپ حکیم ہیں؟ تمام حکیموں کو اجتماعی ملٹی پرپزگالی دیتے ہوئے بولے۔ میں کیوں حکیم ہونے لگا۔تو یہ ’’مخزن طلاء‘‘،میں نے جواباً کہا۔ سمجھ گئے ،بولے نہیں نہیں یہ وہ طلاء نہیں، میرا نام ہے اور یہ میرے خاندان کی تاریخ ہے۔

بات دوسری طرف پھیل گئی ہم ان ہزاروں لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو ہر شمولیت والے کے ساتھ بلکہ جیب میں ہوتے ہیں۔بیچارے شمولیتیں کرکرکے ختم ہوجاتے ہیں لیکن کبھی’’ہندسے‘‘ سے ترقی کرکے’’نام‘‘ نہیں بن پاتے۔حسرت ان غنچوں۔اور جن صاحب کا ہم ذکرکر رہے ہیں جو ہرپارٹی میں شامل ہوتے ہوئے  دکھائی بلکہ سنائی تو دیتے ہیں کہ کبھی کسی پارٹی سے ایک بھی ساتھی کے ساتھ نکلتے ہوئے نہیں سنے گئے۔

 اب یہ بتانا تو مشکل ہے کہ جب دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو ان ہی پرانے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ ہوتے ہیں یا ہر شمولیت کے لیے نئے ہزاروں ساتھی پیدا کرتے ہیں۔ورنہ حالات و واقعات سے تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس وقت کم ازکم ہمارے صوبے میں ہوا کارخ پی ٹی آئی کی طرف ہے،موسمی پرندے تو سارے اسی طرف جا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں