بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد اور ملک بھر میں انسداد فسادات فورس قائم کی جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ فورس کو بین الاقوامی طرز پر پیشہ ورانہ تربیت اور ضروری ساز و سامان سے لیس کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کابینہ اجلاس کے دوران صوبہ خیبر پختون خوا میں گورنر راج لگانے کے بارے میں رائے دی۔
یہ بھی خبر ہے کہ اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشورے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان اسمبلی نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کر لی۔ ایسی ہی قرارداد پنجاب اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل کرلی گئی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ سندھ اسمبلی میں حزب اقتدار میں تحریک انصاف پر پابندی لگائے جانے کی قرارداد پیش کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں گی۔
اس کے ساتھ ہی معروف صحافی مطیع اللہ جان کو منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ وزیر اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ نے مطیع اللہ جان پر الزام کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے دور میں منشیات رکھنے کے جھوٹے مقدمے میں انھیں نو ماہ تک اٹک جیل میں بند رکھا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی اور خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسی پر عمل کرنے کے بجائے ایک حقیقی مؤقف اختیارکیا اور یوں سول حکومت کی لاج رکھ لی۔
وزیر اعظم کا ایک نئی فورس قائم کرنے کا اعلان اس لحاظ سے اہم ہے کہ وفاق پور ے ملک میں ایسی فورس قائم کرے گا تو کئی ارب روپے خرچ ہونگے۔ دوسری طرف موجودہ حکومت نے وفاق میں رائٹ سائزنگ اور بڑے پیمانے پر نجکاری کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت وفاق میں کئی وزارتیں ختم کی جا رہی ہیں اور ایک لاکھ کے قریب آسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان آسامیوں میں گریڈ1سے گریڈ 22 تک کی آسامیاں شامل ہیں۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز اورکئی درجن قومیائے ہوئے اداروں کو فروخت کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے خسارہ کو کم کرنے کی حکمت عملی اختیارکی گئی ہے۔
وفاقی حکومت نے جولائی کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے بہت کم رقم مختص کی تھی اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کسی بھی وزارت کو سپلیمنٹری گرانٹ نہیں دی جائے گی۔ ان اصلاحات کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوانوں کے لیے وفاق میں ملازمتوں کے مواقعے ختم ہوگئے اور پی آئی اے، اسٹیل ملز اور دیگر اداروں کی فروخت کے نتیجے میں ان اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ اگر حکومت نے ان اداروں کو خریدنے والے سرمایہ کاروں کو پابند کیا کہ فوری طور پر کسی کو بے روزگار نہیں کریں تو بھی کم سے کم ان اداروں میں نئی آسامیاں تخلیق نہیں ہونگی۔
حکومت کی مالیاتی پوزیشن پہلے ہی کمزور ہے کہ وفاق کے زیرِ ماتحت انتظامیہ یونیورسٹیاں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی میں ریٹائر ہونے والے ملازمین پنشن اور اپنے واجبات سے محروم ہیں مگر وزارت تعلیم اس مالیاتی بحران کو حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف حکومت اپنے دعوؤں کے باوجود بجلی کے نرخ کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
توانائی کے وفاقی وزیر اویس لغاری بار بار یہ کہتے ہیں کہ اگلے 10برسوں میں بجلی کے نرخ کم نہیں ہوسکتے مگر بڑھ ضرور سکتے ہیں، اب پھر پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بڑھنے سے صرف گھریلو صارفین کا بجٹ تباہ نہیں ہوتا بلکہ زرعی اور صنعتی مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلانات اور دعوؤں کے باوجود بنیادی اشیاء اور ادویات کی قیمتیں کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہیں۔
آل پاکستان بیڈ شیٹ مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے صدر عمران محمد کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کے بحران کی بناء پر 40 فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کے بحران کے ساتھ اب کاٹن کی نایابی کی بناء پر ٹیکسٹائل ملز بند ہو رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال میں کاٹن کی نایابی کی بناء پر ٹیکسٹائل ملزکا مستقبل مخدوش ہوچکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور مارک اپ میں اضافے کی وجہ سے حکومت صنعتی شعبہ کی بحالی کے لیے اب تک خاطر خواہ اقدامات نہیں کرسکی ہے۔ دوسری طرف پورے ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں ریاست کی عملداری صرف دارالحکومت تک محدود ہے۔ حکومت پارا چنار اور لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل نہیں کر پائی ہے۔
اس گھمبیر صورتحال میں حکومت ان مسائل پر مکمل توجہ دینے کے بجائے سیاسی مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی خواہاں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فیڈرل سیکیورٹی فورس قائم کی تھی۔ اس فورس کے بھی یہی مقاصد تھے جن کا وزیر اعظم شہباز شریف نے نئی فورس کے قیام کے لیے ذکرکیا ہے۔ ایف ایس ایف کے پاس جدید اسلحے اور دیوہیکل گاڑیاں تھیں اور تربیت یافتہ اہلکار بھی تھے مگر ایف ایس ایف امن و امان کی صورتحال کو تو قابو نہیں کرسکی جب کہ حکومت مخالف عناصرکو سزا دینے کے لیے استعمال ہوئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد اور اسلام آباد میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں یہ قرارداد پیش کررہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے اختلافات اپنی جگہ مگر کسی جماعت پر پابندی لگانا غیر آئینی عمل ہے اور وہ اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی میں جو لوگ نواز شریف کے بارے میں منفی باتیں کرتے تھے وہ اب تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت کی ہے، مگر اس صورتحال میں اے این پی کے مؤقف میں بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اے این پی کے بلوچستان اسمبلی میں موجودہ اراکینِ اسمبلی نے تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا اور اب ان کے رہبر تحریک انصاف پر پابندی کی حمایت کر رہے ہیں۔
شاید وہ اپنے دادا کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر ذوالفقار علی بھٹو حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی کی تاریخ بھول گئے۔ پیپلز پارٹی اس بارے میں دہری پالیسی چل رہی ہے۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد منظورکرائی اور اب سندھ کے وزیر اعلیٰ نے واضح طور پر اپنا یہ مؤقف اپنایا کہ پیپلز پارٹی کسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی صوبے میں گورنر راج نہیں لگنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں نے اس تجویز کی مزاحمت کی، یوں یہ معاملہ فوری طور پر رک گیا۔
گزشتہ تین برسوں کی صورتحال کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ اور بدترین طرزِ حکومت کی بناء پر تحریک انصاف کو نئی زندگی ملی ہے۔ حکومت کی پالیسی بنانے والے ماہرین کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو جائے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے سیاسی بدامنی ختم کی جائے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جنگجوؤں سے مذاکرات شروع کیے جائیں، پورے ملک میں ریاست کی عملداری کو یقینی بنایا جائے ،تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ریاست میں ہر سطح پر سادگی کے کلچرکو تقویت دی جائے۔ اس کے علاوہ غیر پیداواری اخراجات کم کر کے اور حکومت کسی بھی صورت بجلی اور پٹرول کے نرخ کم کر کے ہی صورتحال کو بہترکیا جاسکتا ہے۔
صنعتیں چلیں گی، بے روزگاری کم ہوگی تو عوام میں غصہ کم ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔ سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے گا تو سیاسی ٹیمپریچرکم ہوجائے گا، دوسری صورت میں امتناعی اقدامات سے سیاسی بحران مزید بڑھے گا۔
ایک سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف پرپابندی عائد ہوئی تو کم ازکم خیبر پختون خوا کے کارکن مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ چلے جائیں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کے خلاف ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں اس کے بہت سے کارکن مذہبی تنظیموں میں شامل ہوگئے تھے۔ ایک اور صحافی کے مطابق جس دن بجلی کا بل آتا ہے اس دن تحریک انصاف کے قائد کی مقبولیت بڑھ جاتی ہے۔ حکومت کو تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور جیلوں میں برسوں سے قید سیاسی کارکنوں کو رہا کرنا چاہیے۔
18ویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری کو تحفظ فراہم کیا ہے، اگر ایک صوبے کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے صوبائی خود مختاری کے تقدس کو پامال کیا گیا تو پھر ون یونٹ بننے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔