گمشدہ شہدا اور نامعلوم زخمی

’’تیمور لنگی سرداروں‘‘ سے مل کر پوری قوم کو ذہنی مریض بنا رہے ہیں


[email protected]

عمران خان کی رہائی کے لیے ان کی "غیر سیاسی مرشد اہلیہ ‘‘ اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں وفاقی دارالحکومت پر یلغار اور دونوں کے فرار کے بعد آج تک پوری قوم اضطرابی کیفیت میں مبتلا اور سوشل میڈیا کے رحم و کرم پر ہے۔ تحریک انصاف کی یلغار سے ’’میدان سے بھاگنے‘‘ کو نکالیں تو اس نے مغلیہ سلطنت کے بانی تیمور لنگ کے لشکر کی یاد تازہ کر دی ہے۔

تیمور لنگ ایک پاؤں سے لنگڑا تھا، اس لیے اسے تیمور لنگ کہتے تھے، بچپن میں اپنے محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کے دوران وہ خود کو بادشاہ بن کر دوسروں کو مختلف عہدے دے کر حکومت حکومت کھیلتا تھا، جوان ہوا تو آس پاس کے دیہاتوں میں اپنا ’’حکومت کھیل‘‘ پھیلانا شروع کیا اور وہاں اپنے نگران مقرر کر کے خود ساختہ سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے مسائل و تنازعات پر ان کے نگران فیصلے دینے لگے، یہاں تک کہ ایک بارایک چور کو پھانسی دے دی گئی۔

تیمور لنگ کے کمزور دل ساتھی تو اس واقعے کے بعد ڈر کر بھاگ گئے مگر متشدد ذہن کے حامل افراد تیمور لنگ کے ساتھ شامل ہونے لگے، باقاعدہ لڑنے مرنے والوں کا لشکر تیار کرنے کے بعد تیمور لنگ نے دیہاتوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی، لنگی عدالت نے فیصلے صادر کرنا شروع کیے تو علاقے کے سردار اور راجپوت اپنی ساکھ بچانے کی خاطراس سے الجھ پڑے مگر تیمور لنگ کا لشکر ان پر غالب رہا اور علاقے فتح کرتے کرتے وہ کابل پر اپنا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہوا، پھر اس نے ہندوستان کا رخ کیا مگر راستے میں ہی انتقال کرگیا۔

مگر آج کے اس جدید دور میں بھی ایٹمی قوت رکھنے والا پاکستان اور اس کے عوام ’’تیمور لنگی جتھہ سیاست‘‘ کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تیمور لنگ ٹانگ سے لنگڑا تھا اور ہمارے ’’ تیمور لنگ جدید‘‘ بھی اتفاق سے ٹانگ پر گولی لگنے کی وجہ سے لنگڑا کر چلتے ہیں۔

تیمور لنگ تو اپنے جتھوں کے درمیان رہ کر مرامگر ’’تیمور لنگ جدید‘‘ ریاستی حفاظتی حصار میں دیسی گھی میں تلے دیسی مرغوں اور بکرے کے رانوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور ان کے ’’ لنگی سردار‘‘ ہر بار اپنے فدائین کو میدان میں چھوڑ کر بھاگنے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ کارکنان اب ’’لنگی سرداروں‘‘ کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی دلیرانہ عادت کے عادی ہوچکے ہیں، اس بار ’’جدید لنگی سردار‘‘ سر پر کفن باندھ کر، خان کو لے کر جانے کا عہد کرکے آئے تھے مگر ایسے بھاگے کہ دوسرے دن ’’لنگی ڈیجیٹل میڈیا بریگیڈ‘‘ پر کارکنان کوچہرہ دِکھا کر بتایا کہ ’’ریاست نے انھیں اچانک بتایا کہ وہ دو گھنٹے کے اندر آپریشن شروع کرنے والے ہیں تو ہم نے "تیمور لنگ جدید" کی ’’غیر سیاسی مرشد بی بی‘‘ کو لے کرفرار ہونے میں عافیت سمجھی کہ کم از کم ان کی سیاست تو بچ جائے، بھاگتے ہوئے ہم کارکنان کو بتانا بھول گئے کہ وہ بھی بھاگیں‘‘، قوم کو’’گمشدہ شہدا، نامعلوم زخمیوں‘‘اور کارکنان پر ریاستی ظلم و جبر اور اپنے بھاگنے کی کہانیاں دانت نکال کر سناتے رہے جسے سن کر تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔

’’جدید لنگی سرداروں‘‘ سے ’’گمشدہ شہداء‘‘ کے والدین یہ تو پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ’’آپ لوگ ہمارے زندہ سلامت بچوں کو لے کر گئے تھے اور ان کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے؟ اگر آپ لوگوں میں مبینہ لاشیں اٹھانے کی بھی جرات نہیں تھی تو پھر ’’تیمور لنگی‘‘ کیوں کر رہے تھے؟‘‘ دوسری طرف ’’لنگی سوشل میڈیا لشکر‘‘ کے لشکری یو ٹیوبرز ’’گمشدہ شہدا‘‘ اور نامعلوم زخمیوں کی افسانوی کہانیوں پر ڈالرکمانے میں مگن، ’’تیمور لنگی سرداروں‘‘ سے مل کر پوری قوم کو ذہنی مریض بنا رہے ہیں، لنگی لشکری سردار ’’سیکڑوں گمشدہ شہدا، ہزاروں نامعلوم زخمیوں‘‘ اور ’’اپنے بھاگنے‘‘ کی کہانیاں ایسے سنارہے ہیں جیسے غزہ اور کشمیر ایک ساتھ فتح کرکے واپس پشاور پہنچے ہوں۔

وہ لطیف کھوسہ، جنھیں اس ریاست نے آدھے پاکستان کے برابر صوبے کا گورنر بنا کر عزت دی، فرماتے ہیں کہ ’’278 کارکنان کی شہادتیں تو کنفرم ہے اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے ہر شہید کے لواحقین کے لیے ایک کروڑ روپے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور 1900 سے زیادہ کارکنان کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی دی ہے۔ ڈی چوک میں کیے گئے ریاستی مظالم غزہ میں اسرائیلی اور کشمیر میں بھارتی بربریت سے بڑھ کر تھے۔" خدانخواستہ لطیف کھوسہ کی بات صحیح ہے تو قوم یہ پوچھنے کا حق تو رکھتی ہے کہ ’’جن کارکنان کو آپ لے کر گئے اگر ان پر اسرائیلی اور بھارتی بربریت سے زیادہ ظلم ہو رہا تھا، تو آپ خود کہاں تھے؟ سر پر کفن باندھ کر آنے والے علی امین گنڈا پور کہاں تھے؟ عمر ایوب کہاں تھے؟ پختونخوا کے وزرا کہاں تھے؟ ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز کہاں تھے؟ عمران خان کو لے کر جانے کی دعویدار بشریٰ بی بی کہاں تھیں ؟

جدید لنگی لشکری سردار قوم کو یہ بھی بتائیں کہ ’’گم شدہ شہدا‘‘ میں کتنے ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز، ’’جدید لنگی سردار‘‘ اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں۔ اگر آپ سب سلامت اور 278 کے 278 گمشدہ شہدا اور ہزاروں نامعلوم زخمی ’’صرف کارکنان‘‘ ہیں تو پھر اللہ تحریک انصاف کے ورکرز پر رحم کرے اور ’’جدید لنگی لشکری سرداروں‘‘ کے شر سے اس قوم کے بچوں کو اپنی ستاری کے چادر میں لپیٹ کر محفوظ رکھے، آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔

تیمور لنگ ثانی کو فیصل واوڈا کی پیشگوئیوں اور لنگی لشکری سوشل میڈیا کے لشکریوں کی طرف سے ان کے پاگل پن اور مارنے کے پروپیگنڈہ کے بعد محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاست کے بے رحم کھیل میں 1000 کارکنان کی لاشوں پر قائد کی ایک لاش بھاری ثابت ہوتی ہے مگر پھر بینفشری کوئی اور ہوگا لہٰذا انکو لاشوں پر سیاست کی اس دوڑ سے باہر آنا چاہیے۔

رہی بات سیکڑوں اموات کی تو ایک شہری مرا ہو یا دفاعی ادارے کا اہلکار یہ ناقابل برداشت و ناقابل معافی ہے اور قاتل سمیت اس کی موت کے تمام ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچانا ریاست کی ذمے داری ہے۔ ایک نارمل اور سلیم الفطرت انسان 278 پرندوں کو مارنے کا سوچ کر ہل جاتا ہے مگر سنگ دل لشکری سردار اپنے بھاگنے پر شرمندہ ہونے کے بجائے قوم کو یہ خبریں ہنستے مسکراتے ایسے دانت نکالتے سنا رہے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جب ایک باپ بن کر سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر کوئی’’لنگی لشکری سردار‘‘ میرے بیٹے کو اس یلغار کے لیے لے کر چلے گئے ہوتے اور مجھے ’’لنگی ڈیجیٹل میڈیا لشکر ‘‘ کے لشکریوں سے پتہ چلتا کہ وہ ’’278 گم شدہ شہدا‘‘ میں شامل ہے اور ’’لنگی سردار‘‘ ان کی لاش اٹھائے بغیر بھاگ گئے اور مجھ سے تعزیت کرنے بھی نہیں آئے تو سوچتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ کیا کر تا؟

اگر ’’جدید لنگی سرداروں‘‘ نے اس قوم کے بچوں کو صرف مقتل گاہ لے کر جانا ہے اور زندہ انسان کے بدلے لاش بھی واپس نہیں کرنا، تو اس سے بہتر ہے باپ ’’لنگی سیاسی لشکر‘‘ میں جانے سے پہلے اپنی اولاد کا گلا گھونٹ کر اپنے ہاتھوں غسل و کفن دے کر اور ماں بہنوں کو اس کی میت پر رونے کا موقع دے کر اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتاردے۔ کم از کم بیٹے کے قبر پر جانے کا موقع تو موت تک میسر ہوگا۔

خدانخواستہ لطیف کھوسہ کے مطابق اگر لاشیں غائب کردی گئیں تو کم از کم وہ ’’278 گمشدہ شہدا‘‘ کے نام، تفصیلات شہدا کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے جانے والے ’’جدید لنگی سرداروں‘‘ کی وڈیوز تو لنگی لشکری سوشل میڈیا پر جاری کریں۔ اگر شہباز گل سمندر پار پاکستانیوں سے ’’سیکڑوں گمشدہ شہداکی غائبانہ جنازے پڑھنے کی اپیل کر سکتے ہیں تو سردار لطیف کھوسہ صاحب اور ’’جدید لنگی لشکری سرداران‘‘ ہر شہید کے گاؤں میں جاکر ان کی غائبانہ جنازہ ادا کرکے ان کے علامتی قبریں بنوائیں۔ اور 278 غائبانہ جنازوں پر ’’لنگی جدیدسوشل میڈیا لشکر‘‘ سے علیحدہ علیحدہ وی لاگ بنوائیں،اس طرح ’’لنگی جدید سوشل میڈیالشکر‘‘ کے لشکریوں کو لاکھوں ڈالرزکمانے اور علی امین گنڈا پور کو 278 کروڑوں روپے کا مال غنیمت ہضم کرنے میں آسانی ہوگی۔

جدید لنگی لشکر کے سردار علی امین گنڈا پور اگر ’’278 گمشدہ شہدا‘‘ کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کا اعلان کر سکتے ہیں تو لگے ہاتھوں وہ 1900 نامعلوم زخمیوں کے لیے بھی 50 لاکھ روپے فی زخمی اعلان کرکے مزید 950 کروڑ روپے کا مال غنیمت سمیٹ سکتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کو اگر ’’گمشدہ شہدا‘‘ اور’’نامعلوم زخمیوں‘‘ کے جشن منانے سے فرصت ملے تو ذرا پختونخوا میں جاری خونی تصادم کی نذر ہونے والے ’’معلوم شہدا اور زخمیوں‘‘ کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں مگر وہاں کوئی اعلان مت کیجیے گا کیونکہ وہاں کوئی زخمی نامعلوم اور کوئی شہید گمشدہ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں