اسلام آباد:
ٹیکس ایڈوائزری فرم تولا ایسوسی ایٹس کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ڈالر کی قدر اوور ویلیو ہوچکی ہے، اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہ ہوتیں تو اکتوبر میں ڈالر کی قدر 211.5 روپے فی ڈالر ہوتی۔
اس طرح ڈالر اس وقت اپنی اصل قدر سے ایک چوتھائی یعنی 67 روپے زیادہ پر ٹریڈ کر رہا ہے، جس سے مہنگائی اور سودی ادائیگیوں کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔
اگر تولا ایسوسی ایٹس کی رائے کو درست مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت ڈالر کی قدر میں 24 فیصد یعنی 67 روپے کی کمی کرنا ممکن ہے، تاہم، مرکزی بینک جو ایکسچینج ریٹ کو مانیٹر کرنے کا ذمہ دار ہے، کا کہنا ہے کہ روپیہ اور ڈالر کی شرح تبادلہ مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہیں۔
ایڈوائزی فرم کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال سے ڈالر کی شرح بلند ہے، جس نے قومی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے، اگر ڈالر کو اس کی اصل قیمت 211.5 روپے پر رکھا جائے تو اس سے بہت سے معاشی فوائد حاصل ہونگے۔
ریفارم اینڈ ریونیو موبلائزیشن کمیشن کے سابق چیئرمین اشفاق تولہ نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہ ہوتی تو آج ڈالر 278 روپے کا نہ ہوتا بلکہ گزشتہ سال بھی ڈالر کی قدر کم رہتی۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے ستمبر 2022 ڈالر 238 روپے پر ٹریڈ کر رہا تھا، لیکن اسحاق ڈار کے وزیرخزانہ بنتے ہی بغیر کسی بنیادی معاشی تبدیلی کے ڈالر 218 روپے تک گرگیا، گزشتہ مہینے اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ڈالر کی اصل قیمت 240 روپے ہے۔
اشفاق تولہ نے فلیکسیبل ایکسچینج ریٹ ریجیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معیشت اور عام افراد دونوں متاثر ہورہے ہیں۔
ایڈوائزری فرم نے کہا کہ مہنگائی کم ہو کر 4.67 فیصد ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں حکومت شرح سود کو مزید 2 فیصد کم کرنے کے قابل ہوگئی ہے، جس سے حکومت کے لیے مالیاتی گنجائش پیدا ہوئی ہے، اور حکومت کو 6.4 ہزار ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے، جس سے حکومت کو ترقیاتی کاموں اور معاشی ترقی کیلیے ذرائع میسر آسکتے ہیں۔
فرم کا کہنا ہے کہ شرح سود میں 1 فیصد کمی کے نتیجے میں قرضوں کے بوجھ میں 475 ارب روپے کی کمی ہوگی۔