پاکستان تحریک انصاف کی سیاست میں حالیہ عرصے میں فیک نیوز کے رجحان نے پارٹی کی ساکھ اور احتجاجی حکمت عملی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہ جماعت، جو عوامی حمایت اور منظم بیانیے کےلیے جانی جاتی تھی، اب خود اپنے رہنماؤں کے متضاد اور غیر مصدقہ بیانات کے جال میں الجھ چکی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف پارٹی کے اندرونی معاملات کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ عوامی سطح پر پارٹی کی مقبولیت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی مارچ کے بعد، پارٹی کے رہنماؤں نے کارکنان کی ہلاکتوں کے حوالے سے متضاد دعوے کیے۔ ابتدا میں ہزاروں کارکنان کی جان جانے کا دعویٰ کیا گیا، پھر یہ تعداد سیکڑوں تک محدود کر دی گئی، اور آخر میں چیئرمین تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں یہ تعداد صرف 12 بتائی۔ تاہم، ان 12 افراد کے حوالے سے بھی کوئی کوائف فراہم نہیں کیے گئے، نہ ان کے نام سامنے آئے، نہ ان کے اہل خانہ کی تصدیق کی گئی، اور نہ ہی کسی کے جنازے یا تدفین کے حوالے سے کوئی تفصیلات دستیاب ہوسکیں۔
یہ تضاد نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ تحریک انصاف کی قیادت کی سنجیدگی اور شفافیت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ اگر کارکنان کی جانیں گئیں تو قیادت ان کے لواحقین کے ساتھ کیوں کھڑی نہیں ہوئی؟ اگر یہ دعوے مبالغہ آمیز تھے، تو کیا یہ کارکنان اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی؟
فیک نیوز کے حوالے سے تحریک انصاف کے کئی رہنما، جیسے قاسم سوری، علی محمد خان، مشعال یوسفزئی، اور علی امین گنڈا پور، بھی اپنی ذمے داریوں سے نظریں چرا رہے ہیں اور حقائق کے برعکس بیانات دے رہے ہیں۔ قاسم سوری نے دعویٰ کیا کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کو اڈیالہ جیل سے کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، جو کہ دوسرے دن ان کی بہن اور چیئرمین تحریک انصاف کے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد غلط ثابت ہوا۔
اسی طرح، علی محمد خان اور مشعال یوسفزئی نے مظاہروں کے دوران مبالغہ آرائی پر مبنی بیانات دیے، جن میں نہ صرف ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا بلکہ زخمی کارکنان کے حوالے سے بھی غیر مصدقہ دعوے کیے گئے۔ علی امین گنڈا پور نے بھی ان مظاہروں کے اثرات کے بارے میں غیر حقیقی بیانات دیے، جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
یہ بیانات پارٹی کے اندرونی مسائل اور قیادت کی ناقص حکمت عملی کو واضح کرتے ہیں۔ جب جماعت کے اہم رہنما خود غیر مصدقہ باتیں پھیلائیں، تو کارکنان اور عوام پر اس کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
تحریک انصاف کے کارکنان، جو ایک وقت میں عمران خان کی کال پر ہر احتجاجی پروگرام میں شرکت کےلیے تیار رہتے تھے، اب ان مبالغہ آمیز دعووں اور فیک نیوز کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر قیادت خود غیر مصدقہ بیانات دے اور بعد میں انہیں تبدیل کرے، تو کارکنان کے اعتماد کو نقصان پہنچنا فطری ہے۔
جب مظاہروں میں ہزاروں ہلاکتوں کا دعویٰ کیا جائے، پھر اسے سیکڑوں تک محدود کر دیا جائے، اور آخر میں صرف 12 کارکنان کی ہلاکت کا ذکر ہو، تو عوام اور کارکنان دونوں کےلیے سوالات پیدا ہونا لازمی ہے۔ مزید یہ کہ ان 12 کارکنان کے کوائف یا حقائق نہ پیش کرنے کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قیادت مبالغہ آرائی کر رہی ہے۔ اگر واقعی ہلاکتیں ہوئیں تو نہ قیادت کسی جنازے میں شریک ہوئی اور نہ زخمی کارکنان کی عیادت کرنے گئی۔
پاکستان کی سیاست میں فیک نیوز کا رجحان نیا نہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ فیک نیوز صرف سیاسی جماعتوں کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ عوام میں بے چینی اور عدم اعتماد پیدا کرتی ہے۔ تحریک انصاف، جو ایک وقت میں اپنی ایماندارانہ سیاست کے نعرے پر عوامی حمایت حاصل کرچکی تھی، اب خود فیک نیوز کی زد میں آکر اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔
رہنماؤں کے غیر مصدقہ بیانات اور متضاد دعوے عوام کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عوام کو احتجاجی پروگراموں میں شرکت کےلیے متحرک کرنا مشکل ہوسکتا ہے، اگر وہ قیادت کی باتوں پر یقین نہ کریں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو تحریک انصاف اپنی احتجاجی تحریک میں مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔
تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کہ احتجاجی سیاست صرف عوام کو سڑکوں پر لانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ذمے داری بھی ہے۔ عوام کو گمراہ کرنا یا غیر مصدقہ اطلاعات دینا نہ صرف عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ جماعت کی ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔
قیادت کو چاہیے کہ وہ فیک نیوز کو ختم کرنے کےلیے ایک منظم حکمت عملی تیار کرے اور اپنی معلومات کو مکمل تصدیق کے بعد عوام تک پہنچائے۔ پارٹی کے اندر ایسے رہنماؤں کی نشاندہی کی جائے جو غیر مصدقہ بیانات دے رہے ہیں، اور انہیں ذمے داری کا احساس دلایا جائے۔ اس کے علاوہ، پارٹی قیادت کو کارکنان کے ساتھ رابطہ مضبوط بنانا ہوگا اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
تحریک انصاف اس وقت اپنی سیاسی بقا کے اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ اگر قیادت فیک نیوز کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی اور اپنی حکمت عملی میں تبدیلی نہیں کرتی، تو عوامی اعتماد بحال کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، احتجاجی سیاست میں شفافیت اور ذمے داری کو یقینی بنانا ہوگا۔ بصورت دیگر، تحریک انصاف کی موجودہ ساکھ کو بحال کرنا ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔