کراچی:
کراچی سمیت پورے سندھ کے سرکاری کالجوں میں دہائیوں پرانے اور فرسودہ نظام کے سبب اساتذہ کی کمی اور سہولیات کے فقدان کے چرچے تو عام ہیں لیکن اب کراچی کے سرکاری کالجوں میں فیکیلٹی، تجربہ گاہوں اور کالجوں کی لائبریریز میں کتابوں کی شدید کمی کے معاملات عدالت میں جمع کرائی گئی ایک آفیشل رپورٹ کا حصہ بن گئے ہیں۔
عدالت میں جمع کرائی گئی یہ رپورٹ عدالتی حکم پر جامعہ کراچی کی جانب سے ایک پروگریس رپورٹ کے طور پر تیار کی گئی ہے جو کراچی کے سرکاری کالجوں کو بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام کا الحاق دینے کے معاملے پر جامعہ کراچی نے تیار کی ہے اور اسے جامعہ کراچی کے رجسٹرار کی جانب سے عدالت میں جمع کروا دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عدالتی حکم پر حکومت سندھ کے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو سرکاری کالجوں میں مختلف ضابطوں میں بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنا ہے اور یہ رپورٹ بھی اسی تناظر میں تیار کی گئی ہے۔
جامعہ کراچی کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کراچی کے سرکاری کالجوں کے حوالے سے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کراچی کے جن 11 سرکاری کالجوں کی جانب سے 14 متعلقہ ضابطوں میں بی ایس پروگرام کا الحاق مانگا گیا ہے اس سلسلے میں جمع کرائی گئی فائلز سہولیات کی معلومات کے حوالے سے نامکمل اور عجلت میں تیار کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے سرکاری کالجوں میں 2300 اساتذہ کی بھرتیاں نہ ہونے سے تعلیمی عمل شدید متاثر
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالجوں کو جس جس ڈسپلن میں بی ایس پروگرام کا الحاق درکار ہے اس کا فائلوں پر تذکرہ موجود نہیں یا پھر غلط ڈگری نیموکلیچر کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور کچھ ایفیلیشن فارمز پر بی ایس کی جگہ ایسوسی ایٹ ڈگری لکھ دیا گیا ہے۔
تفصیلی رپورٹ کی سمری میں بتایا گیا ہے کہ الحاق کے سلسلے میں جو فائلز کالجوں کی جانب سے جامعہ کراچی کو بھجوائی گئی ہیں ان میں الحاق سے قبل جمع کرائی گئیں دستاویزات اساتذہ کے اکیڈمک ریکارڈ، کتابوں کے ٹائٹلز اور کمپیوٹرز کی تفصیلات، کلاسز رومز کی تعداد کے حوالے سے نامکمل ہیں۔
جامعہ کراچی کے رجسٹرار آفس کے ذرائع کے مطابق "رپورٹ میں جو صورت حال بتائی گئی ہے اسے بہت کھل کر بیان نہیں کیا گیا کیونکہ ابھی ان کالجوں کا وزٹ ہونا باقی ہے اور ایفیلیشن وزٹ کے بعد صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔
تاہم یونیورسٹی کو بھجوائی گئی فائلز بتاتی ہیں ہیں کہ جن کالجوں نے اپنی لیبس کی تفصیلات بھیجی ہیں وہ لیبس انٹرمیڈیٹ کی سطح کی ہیں اور گریجویشن کی سطح کی سائنسی سہولیات ان لیبس میں موجود نہیں جبکہ چند کالجوں میں بزنس ایڈمنسٹریشن سمیت متعلقہ شعبوں کے اساتذہ موجود ہی نہیں ہیں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمی ان فائلز سے بھی عیاں ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت سندھ کالجوں میں اساتذہ کی تقرریوں کے لیے دہائیوں پرانے نظام پر ہی اکتفا کیے بیٹھی ہے جس میں کمیشن کے ذریعے بھرتیوں کا ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جس طویل عرصے میں اساتذہ بھرتی ہوکر کالجوں میں آتے ہیں اس عرصے میں درجنوں اساتذہ ریٹائر بھی ہوجاتے ہیں۔
ایکسپریس نے جب اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور سندھ مدرسہ الاسلام کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ سے اس سلسلے میں رائے لینے کے لیے رابطہ کیا۔
مزید پڑھیں: حکام کی عدم توجہی سے ایجوکیشن کالجوں میں اکیڈمک معیارات متاثر
ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا تھا کہ "ہمارے ملک اور صوبے میں کالج اور یونیورسٹیز کا تعلق بیرونی دنیا سے یکسر مختلف ہے، بیرونی دنیا میں کالجوں کی اکیڈمک ایڈمنسٹریشن جامعات کے پاس ہوتی ہے صرف مالی ایڈمنسٹریشن حکومت کے پاس ہوتی ہے جس طرح جامعات اپنے شعبوں میں اساتذہ کی کمی نہیں آنے دیتی اس طرح وہ سلیکشن بورڈ کے ذریعے کالجوں میں بھی اساتذہ کا بروقت تقرر کرتی ہیں جس سے کالجوں میں اکیڈمک سرگرمیاں معیار کے مطابق جاری رہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جامعات چاہتی ہیں کہ وہ اکیڈمک معیار کو کالجوں میں بھی یقینی بنائیں تاہم ہمارے یہاں اختیارات کے سبب حکومت اکیڈمک اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جس سے مسئلے حل نہیں ہوسکتے اور ہمیں بھی کالج کے معیارات کو بہتر بنانے کے لیے اکیڈمک ایڈمنسٹریشن جامعات کے حوالے کرنا ہوگی۔
علاوہ ازیں کراچی کے جن 11 سرکاری کالجوں کا ذکر جامعہ کراچی نے اپنی اس رپورٹ میں کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج نے کیمسٹری، فزکس اور کمپیوٹر سائنس میں بی ایس پروگرام کا الحاق مانگا ہے جہاں کمپیوٹرسائنس کی فیکلٹی میں صرف 3 اساتذہ ہیں، فزکس میں 10 اور کیمسٹری میں 9 اساتذہ ہیں۔ کیمسٹری میں صرف دو جبکہ فزکس میں کوئی پی ایچ ڈی نہیں ہے اور کسی بھی ٹیچر کا اکیڈمک ریکارڈ فائل میں موجود نہیں ہے۔
مزید براں گورنمنٹ گرلز سائنس اینڈ کامرس کالج ایف بی ایریا نے بی بی اے میں چار سالہ پروگرام کا الحاق مانگا ہے تاہم اس کالج میں بی بی اے یا ایم بی اے کوالیفیکیشن کے اساتذہ نہیں ہیں، 2اساتذہ اکنامکس اور 4 کامرس سے ہیں، فائل میں کالج کی کمپیوٹرسہولیات کا ذکر نہیں ہے، لائبریری کی تفصیلات موجود نہیں اور 15 مجوزہ کتابوں میں سے صرف 3 بزنس اسٹیڈیز سے متعلق ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پی ای سی ایچ ایس گورنمنٹ کالج برائے خواتین نے بی ایس اکنامکس اینڈ فنانس میں الحاق مانگا ہے، اس کالج نے فائل میں کمپیوٹرسہولیات کا ذکر کیا ہے تاہم جن 7 اساتذہ کا ذکر ہے ان کی بھی اکیڈمک تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
پریمیئر گورنمنٹ گرلز کالج نے بھی بی بی اے (بی ایس) میں الحاق مانگا ہے تاہم متعلقہ شعبہ بزنس سے کوئی ٹیچر موجود نہیں، تین اساتذہ کامرس سے ہیں، کالج نے کمپیوٹر لیبس کی تفصیلات بھی نہیں بتائیں، کالج میں کلاس رومز کی سہولیات بھی سوالیہ نشان ہیں اسی طرح کتابوں کے ٹائیٹلز کے بجائے ان کی تعداد بتائی گئی ہے۔
پریمیئر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ایک استاد بزنس سے پی ایچ ڈی تاہم 2 ایم کام ہیں، مزید براں پریمیئر گورنمنٹ بوائز کالج (ایوننگ) میں بھی بزنس فیکلٹی موجود نہیں اور نہ ہی کمپیوٹر لیبس کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
گورنمنٹ کالج آف فزیکل ایجوکیشن نے ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں الحاق مانگا تھا اور رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اس کالج کا ایفیلیشن وزٹ کیا گیا اور متروکہ کتابوں اور لیبس کی عدم موجودگی کے سبب ایکسپرٹ کی رپورٹ پر اس کا الحاق مسترد کیا گیا اور کالج نے دوبارہ جامعہ کراچی سے الحاق نہیں مانگا۔
یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی : کالجوں کے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کو سیمسٹر سسٹم پر منتقل کرنے کا فیصلہ
رپورٹ کے مطابق سپیریئر سائنس کالج نے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی فہرست میں نام شامل کیے جانے کے باوجود اب تک الحاق نہیں مانگا، ذرائع کے مطابق بلدیہ کالج کو بھی سہولیات کے فقدان کے سبب الحاق مسترد کیا گیا ہے۔
ادھر ڈائریکٹر جنرل کالجز ڈاکٹر نوید رب کے اپنے کالج گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن کو ایفیلیشن وزٹ کے بعد دو مختلف الحاق جاری کردیے گئے ہیں تاہم ڈائریکٹر کالجز اس کے باوجود خود جامعہ کراچی کی الحاق کمیٹی کی رفتار سے مطمئن نہیں ہیں۔
ایکسپریس کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم جامعہ کراچی سے مسلسل رابطے میں ہیں، الحاق کی فائلیں جمع کراچکے ہیں تاہم یونیورسٹی نے وزٹ کے بجائے کالجوں سے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی این او سی مانگ لی ہے اور ہم نے کالجوں کو این او سی بھی دے دی اب وزٹ کا انتظار ہے تاکہ 2025 کے سیشن سے بی ایس پروگرام شروع کرسکیں۔
واضح رہے کہ سیشن 2025 سے کالجوں میں بی ایس پروگرام شروع کرنے کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے سرکاری کالجوں سے ایفیلیشن فیس نہ لینے کی منظوری بھی دے دی ہے اور جامعات کو محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے اس سلسلے میں پابند بھی کردیا ہے۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سیکریٹری الحاق کمیٹی ڈاکٹر انیلا امبر ملک نے عدالت میں بھجوائی گئی رپورٹ کی تصدیق کی اور بتایا کہ دسمبر کے پہلے ہفتے سے مرحلہ وار کالجوں کے وزٹ شروع کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کالجوں کو بھی ایفیلیشن دیں جن کالجوں میں مطلوبہ سہولیات ہوں گی انہیں ایفیلیشن دیں گے اب ایچ ای سی کی نئی ایفیلیشن پالیسی آچکی ہے اور جامعہ کراچی اس پر عمل درآمد بھی کرچکی ہے لہٰذا اس پالیسی کے تسلسل میں ایفیلیشن سے متعلق فیصلے ایکسپرٹس کی رائے کے تحت ہوں گے۔