آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت84 ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں سیاسی فوائد کے لیے پراپیگنڈا پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ فورم نے حکومت پر زور دیا کہ وہ زہر اگلنے، جھوٹ اور معاشرتی تقسیم کا بیج بونے کے خاتمے کے لیے سخت قوانین وضوابط بنائے اور ان پر عمل درآمد کرائے۔
درحقیقت سوشل میڈیا کے غیر ذمے دارانہ اور بے لگام استعمال نے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر 9 مئی کے بعد کا دور پاکستانیوں کے لیے کافی پریشان کن ہے۔ نظریہ ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے، اگر ہم نے اسے کھو دیا تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ دشمن ہماری نظریاتی بنیاد جو کہ پاکستان ہے اور ہماری محافظ افواج پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
اس مسئلے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی اس سہولت کو جعلی خبروں، پروپیگنڈے، غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور آخر میں سب سے زیادہ چیلنج تب ہوتا ہے جب یہ جعلی خبریں اور غلط معلومات پھیلانے والے لوگ سوشل میڈیا کو کسی قوم کے اتحاد اور سلامتی کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
اس کا بنیادی مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے جھوٹ بولنا، جھوٹ پھیلانا اور جھوٹ کے بیانیے کو فروغ دینا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کا ہدف بھی ایک ہی ہوتا ہے یعنی قومی سلامتی کو نشانہ بنا کر اعلیٰ اداروں کی تضحیک کرنا اور پھر انھیں کمزور کر کے ریاست اور معاشرے کے اندر انتشار پھیلانا۔ جس سے بعض اوقات ریاست کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور پوری قوم افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے۔
حکومت الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016 میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس کے تحت ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جس کو آن لائن مواد کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا تک رسائی کو روکنے کے علاوہ جعلی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار حاصل ہوگا۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر اپنی اصلیت دکھاتے ہوئے پاکستان کو دنیا کے سامنے خطرناک ملک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس کا اصل مقصد بھارتی عوام کی ذہن سازی کرنا ہے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی آبادی کو قومی نظریے سے متنفر کرنے کے لیے میڈیا کا آلہ استعمال کیا۔
اس وقت میڈیا اخبارات، پمفلٹ، ریڈیو اور ٹی وی تھا جب کہ انسانی سطح پر مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ اور ہندو برادری کے رہنما وہاں کے طلبہ کے نوجوان ذہنوں اور عام لوگوں کے سادہ دماغوں کو آلودہ کرنے کے لیے تیار تھے، نتیجہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں مذہب و مسلک کی لڑائی نے فرقہ وارانہ فسادات اور انتہا پسندی کی صورت میں ہمیں بہت نقصان دیا۔
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے صوبائی اور لسانی تعصب نے سر اُٹھایا اور بابائے قوم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اس سے عوام کو خبردار بھی کیا تھا لیکن ٹھیک چوبیس برس بعد بنگالی قومیت اور لسانیت نے مشرقی پاکستان کو ہڑپ کر لیا، اگرچہ بنگلہ دیش کے قیام میں اور بھی کئی فعال اور متحرک عوامل تھے لیکن بنیادی مسئلہ یہی بنا۔ آج بھی ہمارے درمیان موجود کچھ عناصر صوبائیت اور لسانیت کا زہر پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔
کسی بھی معاشرے کے لیے معاشی ترقی اس کے آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ جب غربت کی وجہ سے جہالت ایک خاص حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس جہالت کے نتیجے میں عوام کی سوچ کو مخصوص نظرئیے کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے اور اس گہری تاریکی میں سے روشنی تلاش کرنے کی ناکام سعی کی جاتی ہے۔
اندھے اعتقادات کی وجہ سے عدم برداشت کا عنصر بڑھتے بڑھتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے درپے ہو جاتا ہے اور اسی صورتحال میں بہت سی ایسی قباحتیں جنم لیتی ہیں، جن سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں معاشرہ مزید اس دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور یہ الجھاؤ دھیرے دھیرے متعلقہ سوسائٹی کو دیمک کی مانند چاٹ جاتا ہے۔
ریاست نے جس طرح جہادی تنظیموں سے پرائیویٹ جہاد کو منسوخ کرکے اپنی رٹ قائم کی ہے۔ اسی طرح فرقہ وارانہ انتہا پسندی میں ملوث گروہوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کو بھی مستقل ختم کروا سکتی ہے۔مذہبی ہم آہنگی سماجی ترقی کے دیگر بنیادی تقاضوں سے جڑی ہوئی ہے۔
اس لیے مذہبی آزادی، سماجی ترقی اور قانون کی بالادستی سے جڑی چند تجاویز پر عمل کرنا براہ راست یا بلاواسطہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔قومی سطح پر بین المسالک و بین المذاہب مشترکہ تحقیق و تدریس اور تربیت و مکالمہ اور باہمی آمد و رفت کی سرگرمیوں کو مزید بڑھایا جائے۔ انسداد دہشت گردی کے لیے متعین کیے جانے والے سالانہ قومی بجٹ کا خطیر حصہ اس کام پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بہتر انسداد ممکن و موثر اور نہیں ہے۔
اشتعال انگیز خطیبوں کو عوامی و مذہبی اجتماعات سے خطاب کرنے پر موثر پابندی عائد کی جائے۔ اشتعال انگیزی کی صورت میں قانون کے مطابق انھیں قانونی گرفت میں لایا جائے۔ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے پر سختی سے پابندی ہو جب کہ ایسے افراد جن سے ایسے الزامات یا جرائم منسوب ہوں ان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اسکروٹنی کے عمل کو مزید سخت کیا جائے۔
درحقیقت ہر قسم کی انتہا پسندی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ایسے میں یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ رواداری اور اعتدال پسندی کو اپنا کر ہی وطن عزیز قوموں کی برادری میں باوقار مقام حاصل کر سکتا ہے۔
توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستانی معاشرے کے سبھی طبقات اپنی قومی ذمے داریوں کو بطریق احسن نبھانے کی جانب پوری سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ اس لیے فرقہ واریت اور تعصبات سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ جب بھی کوئی ایسا مسئلہ سامنے آئے تو مطالعہ اور اہل علم سے سیکھنے اور پوچھنے سے اس کا حل ڈھونڈا جائے۔ سوشل میڈیا اور جھوٹی خبروں پر قابو پانے کے لیے برطانیہ میں Online Safety Act 2023 موجود ہے۔
اس کا مقصد برطانوی شہریوں بالخصوص بچوں کو انٹرنیٹ کی دنیا میں مکمل تحفظ فراہم کرنا اور برطانیہ جیسے ملک کو آن لائن دنیا میں محفوظ ترین جگہ بنانا ہے۔ اس بل کے تحت شہریوں کی حفاظت کی خاطر برطانوی حکومت تمام سوشل میڈیا اور پیغام رسانی پلیٹ فارمز پر صارفین کی طرف سے اپلوڈ کیے جانے والے مواد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سیکیورٹی ڈیٹا کی حفاظت کے خدشات کی وجہ سے برطانیہ میں تمام سرکاری فونز پر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
امریکی سرکاری حلقوں میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہے جب کہ سرکاری عہدیداروں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر فیک تصاویر اور خبروں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے نئے قوانین بنانے کی خواہاں ہے۔ امریکا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے دھوکا دہی کے طریقوں کا استعمال، نفرت انگیز مواد کی تشہیر اور غلط معلومات کی ترسیل پر بے شمار قوانین موجود ہیں جن پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔ چین میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مکمل پابندی عائد ہے۔
حکومتی سطح پر گوگل اور فیس بک کی طرز پر کئی ایپلی کیشنز ایجاد کی گئی ہیں تاکہ عوام کو آن لائن مواصلات کی سہولتیں فراہم کی جا سکیں تاہم ان پر کڑا چیک اینڈ بیلنس بھی رکھا گیا ہے۔ چینی عوامGmailاور Hotmail کے بجائے خود ساختہ ای میل استعمال کرتے ہیں۔ چین میں جعلی معلومات آن لائن پھیلانا بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے جس پر قرار واقعی سزائیں دی جاتی ہیں۔
غلط معلومات پھیلانے کے خلاف قوانین نہایت سخت ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے امن عامہ میں بگاڑ پیدا کرنے کی سزا سات سال تک مقرر کی گئی ہے۔ مزید برآں ٹیلی کام اور آن لائن فراڈ سے نمٹنے کے لیے ایک نیا قانون وضع کیا گیا ہے جس کا مقصدبڑھتے ہوئے آن لائن جرائم کا خاتمہ کرنا ہے۔
ان ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی، جاپان، ملائیشیا سمیت دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے قوانین رائج ہیں جن کے ذریعے جھوٹی خبروں کی تشہیر اور ڈس انفارمیشن کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کے حوالے سے بھارت میں بھی قوانین موجود ہیں تاہم ان کی نوعیت باقی ممالک سے قدرے مختلف ہے۔ زیادہ تر قوانین حکومتی ایما پر استعمال کیے جاتے ہیں جن کا مقصد مخالفوں کو جبراً قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات سوشل میڈیا کو استعمال کر کے مسلمان اور اسلام مخالف نفرت انگیز مواد کی تشہیر کی جاتی ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘ سوشل میڈیا پر بے شمار بوگس اکاؤنٹس کے ذریعے ہندو توا کا پرچار کرتی ہے جب کہ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے اراکین، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔پاکستان کے تعلیمی نصاب میں ڈیجیٹل تعلیم پر مبنی ابواب کا اضافہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
والدین اور اساتذہ کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو ڈس انفارمیشن کی آگاہی اور اس کے تدارک کے بارے میں تیار کریں۔ اعداد و شمار پر مبنی ویب سائٹس کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں موجود حقائق کو پرکھا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم سب کو اپنی اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا ادراک اور احساس ہونا چاہیے۔