وفاقی حکومت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے 55 سال کرنے پر غور کررہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت سرکاری ملازمین کو دی جانے والی پنشن کے بوجھ سے پریشان ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد کے سیکریٹریٹ میں یہ فائل اعلیٰ ترین افسروں، وزراء اور وزیر اعظم کی میزوں پر گردش کررہی تھی کہ سرکار ی ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں کم از کم 5 سال کا اضافہ کیا جائے تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر پنشن فنڈز کی ادائیگی کے بوجھ سے نجات مل سکے مگر فیصلہ ساز اتھارٹی نے مختلف وجوہات کی بناء پر اس تجویز کو مسترد کیا۔
اب دوسری تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 5 سال کم کردی جائے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب سرکاری ملازمین کی ملازمت کے 5 سال کم ہونگے تو رائج شدہ پنشن کے قوانین کے تحت جلدی ریٹائر ہونے والے ملازم کو گریجویٹی ، پرویڈنٹ فنڈ اور پنشن جیسی مدوں میں کم رقم ادا کرے گی۔
پاکستان میں سرکاری ملازم 60 سال کی عمر تک پہنچ کر یا 30 سال ملازمت کر کے ملازمت سے ریٹائر ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کم ہونے سے حکومت کو 50 بلین روپے سالانہ کی بچت ہوگی۔ اس وقت وفاقی حکومت کا پنشن کا بل 1ٹریلین روپے ہے جس میں سرکاری ملازمین کی پنشن کا حصہ 260 بلین روپے اور دفاعی اداروں کے ملازمین کی پنشن کا حصہ 750 بلین روپے ہے۔
اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے جب کہ امریکا میں سرکاری شعبہ میں کام کرنے والے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی کوئی حتمی عمر نہیں ہے۔ اس فارمولے پر کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں عملدرآمد ہوتا ہے۔ سرکاری شعبہ کے بعض ماہرین کے مطابق سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم ہونے سے خاصے دوررس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اگرچہ فوری طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں کمی ہوگی مگر سرکاری شعبہ میں تقرریوں کا ایک خاص طریقہ کار ہے۔
وفاقی حکومت فیڈرل پبلک سروس کمیشن (F.P.S.C) کے ذریعے سول سروس آف پاکستان میں ذہین افراد کا تقرر کرتی ہے۔ ایف پی ایس سی میں وفاقی وزارتوں اور خودمختار اداروں کے لیے گریڈ 17 اور بالا گریڈ کے افسروں کا تقرر کیا جاتا ہے۔ ہر وزارت کے اعلیٰ افسروں پر مشتمل کمپنیاں گریڈ 1 سے گریڈ 11 تک ملازمین کا تقرر کرتی ہیں۔ اسی طرح صوبائی حکومتیں اپنے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کا تقرر کرتی ہیں۔
گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک کی آسامیوں کی تقرر کے لیے ڈپارٹمنٹل کمیٹیاں کام کرتی ہیں۔ سول سروس آف پاکستان (C.S.P) کیڈر میں ایک سخت امتحان سے گزر کر افسروں کا تقرر ہوتا ہے۔ یہ افسر وزارت خارجہ سے لے کر پوسٹ آفس سیکریٹریٹ اور ڈی ایم گروپ اور اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے دفاتر کا انتظام چلاتے ہیں۔ وزارت خارجہ اور دیگر اہم وزارتوں میں کام کرنے والے افسروں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اگرچہ نیچے کی سطح پر تقرریوں کے لیے تو میرٹ کا اصول برائے نام ہوتا ہے مگر سی ایس پی کیڈر کے منتخب ہونے والے نوجوان اپنے شعبے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
یہ تصور بھی کیا جاتا ہے کہ جو فرد 20 سال ایک وزارت کے مختلف شعبوں میں کام کرتا ہے تو وہ عمومی طور پر ایک اثاثہ بن جاتا ہے، یوں اگر ریٹائرمنٹ کی عمر کم ہوئی تو Human Capital سرکاری شعبہ سے منتقل ہوجائے گا۔ان میں سے بہت سارے لوگ مشرقِ وسطی، امریکا اور کینیڈا چلے جائیں گے، یوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی مجموعی طور پر متاثر ہوگی۔
اس سال جون میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد تک پہنچ گئے ہے۔ اقتصادی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت 4.51 ملین نوجوان بے روزگار ہیں۔ اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ گزشتہ سال بے روزگاری کی شرح 5.52 فیصد تھی جس میں 0.79 فیصد اضافہ ہوا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہے اور اگلے سال یہ شرح کم ہو کر 7.5 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انجینئرنگ کے شعبہ کے علاوہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں اعلیٰ ڈگری یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تو صنعتوں کا کم پھیلاؤ تھا۔
ملک میں غیر یقینی صورتحال کی بناء پر نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں جس کو معاشیات کی اصطلاح میں Brain Drain کہا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ سال 2023ء میں 859,846 افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ غیر یقینی سیاسی صورتحال ریاست کی ملک بھر میں عملداری نہ ہونے اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں ریاست اور عوام کے درمیان خلیج گہری ہونے کی بناء پر ماہر افراد ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیولبرل ازم (NEO Liberalism) کا فلسفہ عالمی مالیاتی اداروں نے دنیا میں رائج کیا۔ اس فلسفے کے تحت ریاست کا کردار مختصر ہوا، تعلیم، صحت اور محنت کو بھی مارکیٹ سے منسلک کردیا گیا۔ اب ریاستوں نے تعلیم پر اخراجات کم کیے اور تعلیم کو جنس کے طور پر نجی تعلیمی اداروں کے حوالے کردیا گیا۔ صحت کا معاملہ انشورنس کمپنیوں کے پاس چلا گیا۔
سرکاری اور غیر سرکاری شعبہ میں کنٹریکٹ کا نظام نافذ ہوا۔ یورپی ممالک میں آج بھی تعلیم، صحت، مکان اور ٹرانسپورٹ کی ذمے داری ریاست انجام دیتی ہے۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے ہر بچہ کو ریاست 26 سال تک 250 یورو ماہانہ کا وظیفہ دیتی ہے، پھر ہر وہ شخص جو ٹیکس دیتا ہے اس کو ریاست 67 سال کی عمر کے بعد پنشن ادا کرتی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اپنی آمدنی میں بچت کر کے کسی پنشن اسکیم میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد یہ رقم ادا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں سرکاری شعبہ ہو یا نجی شعبہ ملازمین کو کنٹریکٹ پر رکھنے کا مطلب اس کی گردن پر مسلسل تلوار لٹکانے کے مترادف ہوتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان کنٹریکٹ کے کسی وقت ختم ہونے یا 60 سال کی عمر کے بعد کوئی مالیاتی فوائد نہ ملنے کی بناء پر ذہنی خلجان کا شکار رہتے ہیں یا آمدنی کے غیر قانونی ذرایع تلاش کرتے ہیں۔
کنٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کے پاس اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے کرپشن کے علاوہ کوئی اور ہتھیار نہیں ہوتا۔ انگریز حکومت نے پنشن کا نظام نافذ کیا تھا جس کے بہت سے فوائد تھے۔ بعض عناصر اس نظام کی بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بدعنوانیوں کے مرتکب ہوتے ہیں مگر ہر صورت میں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر شہری کو پنشن ادا کرے۔
پنشن کسی صورت میں بھی ریاست پر بوجھ نہیں۔ پنشن کو بوجھ قرار دینا ایک ظالمانہ بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نجی شعبے کے ملازمین کے لیے ای او بی آئی کے تحت پنشن کا نظام نافذ کیا تھا، اگرچہ ای او بی آئی کا دائرہ محدود ہے مگر اب بھی کئی لاکھ افراد کے لیے ای او بی آئی کی ماہانہ رقم ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔
اصولی طور پر ای او بی آئی کا دائرہ تو بہت زیادہ وسیع ہونا چاہیے۔ حکومت کو پنشن کو بوجھ سمجھنے کے بجائے اس نظام میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے اور بھارت کی طرح ہر بالغ شخص کے لیے پنشن کے جدید نظام کے نفاذ پر غور کرنا چاہیے۔