معیشت میں بہتری کی امید اور مہنگائی

پاکستان اس خطے میں واقع ہے جوکہ ہر جنگ سے اور امن سے شدید متاثر ہوتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب بہت سے اسلامی ممالک کے اردگرد جنگ جاری ہے ،کچھ ممالک اس میں براہ راست شامل ہیں اور کئی اسلامی ممالک پر اس کے شدید منفی اثرات اور کتنے ہی کچھ نہ کچھ متاثرہ ضرور ہو رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بہت سے معاملات میں آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ یورپ امریکی ممالک اور دیگر بہت سے ممالک کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی، لیکن جنگ زدہ ماحول ان ملکوں کے لیے قرار دیا جاسکتا ہے جن کی اکثریت اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے رکن ہیں۔

ان ملکوں یعنی فلسطین، شام، لبنان، عراق، ایران اور کئی ملکوں کے لیے اس تنظیم کی فعالیت پر اب سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس ستم زدہ، جنگ زدہ ماحول میں پاکستان اپنی معاشی جنگ لڑ رہا ہے۔ جلد ہی حالات ایک نئے منظرنامے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ ہے امریکی انتخابات کے نتائج اور 20 جنوری کے بعد متوقع تبدیلیاں۔ پاکستان کے لیے امریکی انتخابات اتنے زیادہ خوش منظر نہیں ہیں کہ امریکی سیاست میں کئی سالوں سے پاکستان کو اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت پہلے جیسی نہ رہی۔

ایسے میں پاکستان نے اچھا ہی کیا کہ چین سے تعلقات کو ہمالیہ کی بلندی پر پہنچانے کے ساتھ اسی بلندی سے روس پر نگاہ جمائی اور روس نے بھی خوش آیند اشارے دیے ہیں اور اس میں تیزی لانے کی خاطر کئی عملی اقدامات بھی پاکستانی معیشت کے لیے مثبت راستوں کی جانب گامزن دکھائی دے رہے ہیں۔

20 دسمبر 1971 کو نئی حکومت جب آئی تو پاکستان دولخت ہونے کے بعد اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے لڑکھڑا رہا تھا۔ ایسے میں چند ہی سالوں میں روس کے ساتھ اسٹیل مل کا معاہدہ طے پایا۔ فوری عمل درآمد شروع ہوا۔ مل نے اپنی تکمیل کے لیے تیزی سے مراحل طے کیے اور یہ بات 1977 میں ہی زبان زد عام تھی کہ اسٹیل مل کی تین شفٹیں چلیں گی اور ہر شفٹ میں 70 ہزار افراد کام کریں گے جب یہ مل اپنے جوبن پر پہنچ جائے گی۔ بہرحال یہ مل 1980 کی دہائی میں چلی اور خوب چلی۔ اسٹیل مل تو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ بہرحال وزیر اعلیٰ سندھ نے کمر ہمت باندھ لی ہے جس سے امید ہے کہ جلد اچھی خبر مل جائے گی۔

پاکستان اس خطے میں واقع ہے جوکہ ہر جنگ سے اور امن سے شدید متاثر ہوتا ہے۔ ادھر افغان جنگ جاری تھی اور نائن الیون کے بعد ہم دھماکوں سے لرزتے رہے ، دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے، جوکہ ہماری ملکی سیاحت کو ہی ہڑپ کر گئی۔ قصہ مختصر پاکستان اب بھی معاشی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کا دور دورہ ہے۔ پڑوسی ملک کہاں پہنچ گیا بنگلہ دیش کی برآمدات ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی کرنسی کا موازنہ خطے کے دوسرے ممالک سے کر لیں۔

پاکستانی روپیہ فوراً اپنی کمزوری کی حامی بھر لیتا ہے۔ ایسے ماحول میں کہا جا رہا ہے کہ معیشت میں کچھ بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔ یہ بات تو کئی ماہ قبل آئی ایم ایف کے عہدیدار بھی کہہ رہے تھے۔ اتنا زیادہ شور شرابا ہو رہا ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی اگرچہ اس میں کچھ کردار عالمی منڈی کا بھی ہے جہاں خوراک کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، تیل کی قیمت میں بھی کمی ہوئی تھی۔ پاکستان میں زراعت نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ آٹا پچھلے سال انھی دنوں 170 روپے فی کلو تھا اب 100 یا 110 روپے تک ہے۔ گزشتہ مالی سال کے ان 5 ماہ کی بات ہے جب 5 لاکھ 57 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کرکے، 47 ارب 52 کروڑ روپے صرف کیے گئے تھے۔ اس مرتبہ یہ ساری بچت درآمدات کے کھاتے میں جا کر معیشت کی بہتری کے اشاروں میں استعمال ہوگئی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

ایک لاکھ سے آگے بڑھ کر ایک لاکھ 3 ہزار تادم تحریر اس کی پیش رفت نے ہر جانب ڈنکا بجا دیا کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن ان بے روزگاروں، فاقہ کشوں، بجلی بم کے زخمی دل، گیس کے بے رحم بلوں نے جس طرح غریبوں کو زخم جگر لگائے ہیں، مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آگئی بالکل درست، لیکن وہ غریب تو نہیں مانتا کہتا ہے کہ بازار جاؤ چند چیزیں خرید کر ہی جیب خالی ہو جاتی ہے۔ بہرحال حکومت نے کہا ہے کہ نومبر 2024 میں نومبر 2023 کے مقابلے میں تجارتی خسارے میں 18.60 فی صد کمی ہوئی ہے۔ اگر جولائی تا نومبر 2024 کا مقابلہ جولائی تا نومبر2023 سے کرتے ہیں تو تجارتی خسارے میں 7.39 فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ آخر کمی تو ہوئی ہے۔ اسے مثبت اشارہ ہی قرار دیں گے۔

حکومت کو مشورہ ہے کہ اس کمی کو برقرار رکھیں اور بڑھائیں یہاں تک کہ سال کے آخر تک تجارتی خسارے میں 25 تا 30 فی صد کمی لے کر آئیں پھر شاید معیشت بہتری کی طرف ہوگی۔ زرمبادلہ کی آمد تیزی سے بڑھائی جا سکتی ہے۔ امپورٹ بل جوکہ 5 ماہ میں 4 فی صد بڑھا ہے اب اسے فوراً کنٹرول کریں کیونکہ جولائی تا نومبر 24 تک کل امپورٹ کا حجم 22 ارب 34 کروڑ ڈالر تھا اس کے مقابلے میں گزشتہ مالی سال کے جولائی تا نومبر 2023 کے دوران 21 ارب 50 کروڑ ڈالر تک تھا۔

اس لیے اگر امپورٹس کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو بہت سی اشیا ایسی نظر آ رہی ہیں اور حکومت نے گزشتہ مالی سال کچھ پر پابندی بھی لگائی تھی۔ فوڈ آئٹمز کی امپورٹ میں لگژری کاریں، گاڑیاں، موبائل فونز اور کئی اشیا ہیں البتہ کئی خوراک کی اشیا ایسی ہیں جن پر ٹیکس کو کم کیا جائے جن میں کوکنگ آئل، خشک میوہ جات، کچھ سبزیاں اور کچھ پھل جوکہ درآمد کی جاتی ہیں اور خاص طور پر چائے کی پتی کو کچھ سستی کردیں تاکہ کچھ غریب سستی چائے پی کر کہہ سکتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی آگئی ہے۔

Load Next Story