پاکستان میں طبی غلطیوں سے سالانہ 5 لاکھ افراد جاں بحق ہوتے ہیں، ماہرین

ماہرین نے زور دیا کہ مستند فارماسسٹ کی موجودگی لازمی قرار دینے سے طبی غلطیاں کم اور قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں

ماہرین نے کہا کہ 95 فیصد فارماسیز میں غیرتربیت یافتہ افراد کام کر رہے ہیں—فوٹو: فائل

کراچی:

ماہرین نے ملک بھر کے اسپتالوں میں فارمیسی کے ماہرین اور تربیت یافتہ افراد کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 5 لاکھ سے زائد افراد طبی غلطیوں اور خاص طور پر ادویات کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کراچی میں الخدمت فارمیسی سروسز کے زیر اہتمام منعقدہ پہلی میڈیکیشن سیفٹی کانفرنس میں صحت کے ماہرین، فارماسسٹ اور دوا ساز صنعت کے رہنماؤں نے شرکت کی اور فارماسسٹ کے بغیر چلنے والے میڈیکل اسٹورز، فارمیسیز اور دوائیوں کے غلط استعمال کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف نے اعتراف کیا کہ دوائیوں کے غلط استعمال کا مسئلہ عالمی نوعیت کا ہے لیکن پاکستان میں ادویات کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور واقعات کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو پاتی کیونکہ ان کی رپورٹنگ کم ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر دوائیوں کا غلط استعمال روکنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہوتے جبکہ فارماسسٹ اس نقصان کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اسپتال یا فارمیسی فارماسسٹ کے بغیر نہیں چلنی چاہیے اور ہم ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق دوائیوں کا محفوظ استعمال  یقینی بنانے پر کام کر رہے ہیں۔

عاصم رؤف نے طبی ماہرین پر زور دیا کہ ادویات کے استعمال سے ہونے والے ری ایکشن اور طبی مسائل کی نشان دہی کریں تاکہ فارماکوویجیلنس سسٹم کو مضبوط بنایا جا سکے اور دوائیوں کے غلط استعمال سے ہونے والی اموات کو روکا جا سکے۔

الخدمت فارمیسی سروسز کے ڈائریکٹر سید جمشید احمد نے پاکستان میں فارمیسیز کی حالت زار پر تنقید کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک بھر کی 60,000 فارمیسیز میں سے صرف 3,000 میں مستند فارماسسٹ موجود ہیں۔

انہوں نے کاہ کہ دیگر 95 فیصد فارمیسیز کو گروسری اسٹورز کی طرح غیر تربیت یافتہ عملہ چلا رہا ہے جو اکثر غلط دوائیاں دے کر مہلک نتائج کا باعث بنتا ہے۔

سید جمشید احمد نے مطالبہ کیا کہ فارماسسٹ کے بغیر فارمیسی چلانے کو قانونی جرم قرار دیا جائے۔

آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے سابق ڈائریکٹر آف فارمیسی سروسز اور معروف فارماسسٹ عبداللطیف شیخ نے کہا کہ ڈاکٹروں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے اکثر غلطیوں کا سبب بنتے ہیں اورغیر تربیت یافتہ عملہ ڈاکٹروں کے ناقابل شناخت نسخے کے باعث غلط دوائیاں دیتا ہے، جس سے اموات واقع ہوتی ہیں۔

انہوں نے دوائیوں کی تیاری کے لیے محفوظ خام مال اور بغیر خوف کے غلطیوں کی رپورٹنگ پر زور دیا۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے نمائندے شیخ قیصر وحید نے افسوس کا اظہار کیا کہ 90 فیصد فارماسسٹ، جو زیادہ تر خواتین ہیں، شادی کے بعد پیشہ چھوڑ دیتی ہیں یا کام کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر زاہد لطیف نے تنظیم کے صحت کی خدمات تک رسائی کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دوائیوں کے محفوظ استعمال کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی اپیل کی۔

ماہرین نے کانفرنس میں زور دیا کہ فارمیسیز اور اسپتالوں میں مستند فارماسسٹ کی موجودگی لازمی قرار دینے سے طبی غلطیوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

Load Next Story