ہمارے ادبی، صحافتی اور سیاسی تاریخ کے گواہ اور ریاستی تشدد کے بندی خانوں میں صعوبتیں جھیلنے والے کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر کے سیکریٹری معروف صحافی حسن عابدی نے ’’کراچی‘‘ کے بارے کہا تھا کہ،
شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں
بام و در روشن ہیں لیکن راستہ ملتا نہیں
اب ذرا سوچیے کہ جس نسل نے تقسیم کے دکھ اٹھا کر اور سفر کی کٹھناؤں کے عذاب جھیلنے کے بعد حسرتوں، تمناؤں اور خوابوں کی ٹوکری جب انجانے ٹھکانے پر رکھی ہوگی تو مچھیروں کی بستی کراچی کے محنتی ناخداؤں کی محنت کرنے کے جذبے نے ان در بدر خاک بسر مسافروں میں تکان اتارنے کا وسیلہ محنت اور صرف ہنر کاری ہی کو رکھا ہو گا اور یہ جذبہ سچ ثابت بھی ہوا کہ جب تقسیم ہند کے بعد سمندر میں ٹھاٹھے مارتی لہروں کے سائے میں کوئی میٹھادر میں آباد ہوا توکوئی کھارادر میں تو کوئی مشقتی بستی لیاری میں اور کوئی لالو کھیت کی جھونپڑ پٹی میں۔
اس بیچ تقسیم کے بعد آنیوالے لٹے پٹے افراد اور خاندان جب ملیر لانڈھی اور کورنگی میں بسے تو ان کا ذریعہ معاش محنت مزدوری کے علاوہ ان کی ہنرمندی ہی رہا، کوئی بیڑی بنانے کا ماہر ہوا تو کوئی جوتا بنانے کا ہنرمند، کہیں بڑھئی کا کام کیا گیا تو کہیں سائیکل پنکچر کی دکان سنبھال لی گئی، کہیں کسی نے خراد مشین پر ہنرمندی دکھائی تو کہیں کسی نے کپڑے بننے کی کھاڈی پر صبح سے شام ڈھلے تک محنت کرنے کو ترجیح دی۔
محنت و ہنر۔ مندی سے زردوزی کے زرق برق آنچل اور ساڑھی بنائی تو کہیں اچکن اور کپڑے سینے کی ہنرمندی کے جوہر دکھائے، یہاں تک کہ آپسی چندوں سے عبادت گاہیں بنائیں تو وہیں بغیر معاوضہ درس و تدریس دینے کے لیے آگے آگے رہے، یہ وہ افراد اور ہنرمند خاندان تھے جنھوں نے تفریح و طبع کے لیے کہیں پتلی تماشے کیے کہیں میلے ٹھیلے سجائے اور کہیں مل جل کر آپسی پیسے جمع کر کے ٹاکیز کا رخ کیا تاکہ اپنی مشقت کی تکان اتاری جا سکے، یہی وہ لوگ تھے جو موسیقی کے آلات ڈھول، بانسری، سارنگی، ستار اور سر سارنگ کو زندگی کی توانائی اور ضرورت سمجھتے تھے۔
انھی لٹے پٹے افراد نے کراچی کو عالمی گائیک، ستار نواز اور فنکار دیے، اسی ابتدائی نسل نے تھیوفیسیکل ہال کو فن و ثقافت کا مرکز بنایا۔ تقسیم کے بعد آنیوالی اس نسل نے تعلیم کے وہ اصول مرتب کیے کہ کسی کی مجال کہ کوئی بھی سفارش ان کے علمی اصول کی راہ میں حائل ہو سکے، یہ صبح تڑکے اپنی جھونپڑ پٹی چھوڑ کے ملوں کی چمنیوں میں محنت کی چنگاری جلاتے تھے اور شام ڈھلے گھروں کو لوٹ کر اپنی نسل کی تعلیم کی فکر کرتے تھے۔
ان میں تہذیب و شائستگی اور علم و ادب کا ایندھن بھرتے تھے۔ یہی وجہ رہی کہ کراچی کی نسل کے ہونہار طالبعلموں نے جہاں تعلیم حاصل کرنے کو مقدم جانا وہیں طلبہ، محنت کش اور عام فرد کی شہری آزادی کے شعور کو جمہوری اصول کے لیے ضروری سمجھا، یہ کراچی کی تعلیم یافتہ اور علم و شعور سے آراستہ وہ نسل بنی جنھوں نے ’’جمہوری حقوق‘‘ حاصل کرنے کی جدوجہد کو 1953 میں جوڑا اور روشن خیال طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف کے بینر تلے ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر ہارون، ڈاکٹر ادیب اور بعد کے ڈاکٹر عزیز ٹانک نے طلبہ تحریک کے ذریعے برطانوی راج میں طلبہ کی میڈیکل ڈگری کے غیر منصفانہ برطانوی نظام کے خلاف سب کو جوڑ کر سیاسی تحریکی عمل سے حکومت وقت سے اپنے جمہوری حقوق لیے۔
دوسری جانب کراچی میں تقسیم کی مشکلات اٹھانے والے ہنرمندوں اور ملوں میں محنت مزدوری کرنیوالوں نے آپسی منڈلیاں بنائیں اور ’’ٹریڈ یونین‘‘ ذریعے رابطہ کاری کا مربوط نظام قائم کیا، اسی روشن خیال نسل نے شہری آزادی کی بقا قائم رکھنے والے صحافیوں کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کی ٹریڈ یونین بنائی جو آج تک اپنے نامساعد حالات اور تقسیم کے دکھ سمیت کسی نہ کسی پیمانے پر اظہار کی پابندی کے خلاف اور شہری آزادیوں کی بقا کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل ہے، انھی سوشلسٹ خیال کی نسل کے لیے کٹرک ہال اور خالق دینا ہال نے طلبہ مزدور کسان کی اس جمہوری جدوجہد کو صیقل کیا جس نے ملک کے جنرل ایوب کے غیر قانونی مارشل لا کو جمہوری جدوجہد سے نکالا دیا۔
جب کہ کراچی کے فنکار، سازندے کار اور شاعر و ادیب نے ناٹک کی مدد سے اپنی جمہوری آزادی کی تخلیق کو عام فرد کی شہری آزادی کا استعارہ بنایا، آج بھی تھیٹر اور اسٹریٹ تھیٹر کی تاریخ کمیونسٹ پارٹی کے منصور سعید، اسلم اظہر اور عابدہ سعید کے ’’دستک تھیٹر‘‘ اور یوسف اسماعیل کے تھیٹر کی محنت و کاوشوں کے بنا ’’کراچی تھیٹر‘‘ اب تک عوام میں سیاسی و سماجی جوت جگانے سے محروم ہے۔ طلبہ حقوق اور جمہوری آزادی کی علمبردار کمیونسٹ فکر طلبہ تنظیم کی کامیاب تحریک بعد آمر جنرل ایوب نے جب جمہوری آزادی کے لیے بر سر پیکار کمیونسٹ پارٹی اور ڈی ایس ایف پر بلا جواز پابندی عائد کی تو کراچی کے طلبہ شعور نے این ایس ایف کی بنیاد رکھی اور ملک کے پہلے مارشل لا کے خلاف تحریک کا محور کراچی رہا۔
جس میں ادیب و فنکاروں کی شرکت کے ساتھ جنرل ایوب کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ’’بارہ متحرک طلبہ‘‘ کو شہر بدر اور پھر صوبہ بدر کیا گیا جن کے اہم کردار علی مختار رضوی، معراج محمد خان، جوہر حسین اور نفیس صدیقی قرار پائے، اسی جمہوری آزادی کی تحریک کے خوف نے جنرل ایوب کو ملک کے دارالحکومت کراچی کو ختم کر کے اسلام آباد منتقل کرنے کا موقع دیا۔
طلبہ تحریک میں کراچی کے جمہوری ذہن کے عوام جب شامل ہوئے تو جنرل ایوب نے سب سے متحرک علاقے ’’لالوکھیت‘‘ میں فائرنگ کروائی اور جلاؤ گھیراؤ کیا، اسی موقع پر جنرل ایوب نے کراچی کی سیاسی ادبی اور ثقافتی حیثیت کو ختم کرنے کا کام شروع کیا اور کراچی کے تمام ادبی و ثقافتی اداروں میں وہ افراد پیدا کیے جو جنرل ایوب کے فارمولے پر چل کر اداروں کو اسٹبلشمنٹ زدہ کریں تاکہ ’’کراچی کا جمہوری اور ادبی چہرہ‘‘ مسخ کیا جائے۔
آج کروڑوں اربوں کی لاگت لگا کر ایسے اداروں میں ان افراد کا قبضہ ہے جو دانستہ کراچی کے ادب و ثقافت کا روشن اور باشعور چہرہ لچر پن اور ہیجان انگیزی بکھیر کر نئی نسل کو ادب و تہذیب اور اپنی ثقافت سے محروم کر رہے ہیں، کراچی کی نئی نسل کراچی کے دبستان ادب کے ان مشاہیر، آرٹسٹ، فنکار، موسیقار اور قد آور شخصیات کو کیونکر جانیں جنھوں نے سوکھی روٹی اور سادہ لباسوں میں علم و ادب اور کراچی سندھ کی تہذیب و ثقافت کو سرخرو کیا۔
کون جانتا ہے کہ احسن فاروقی اور حسن عسکری کون تھے، آرٹسٹ علی امام، انیس ناگی، افسر مدد نقوی، لیاقت حسین کی کیا خدمات ہیں، سبط حسن، ممتاز حسین، سلیم احمد اور م ر حسان کی ادب و تاریخ پر کیا نگاہ تھی یااستاد قمر جلالوی، رسا چغتائی، خالد علیگ، رئیس امرہوی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، صہبا اختر، حمید کاشمیری، شوکت صدیقی، حمایت علی شاعر، صہبا لکھنوی، رضی اختر شوق، عزیز حامد مدنی، سجاد باقر، جون ایلیا، عزم بہزاد، شفیع عقیل نے افسانے و شعر وادب میں کیسے کیسے نئے زاویئے دیے۔
ادب و ثقافت کے فروغ میں ماہانہ افکار، لیل و نہار سیپ، مکتبہ دانیال یا ریسرچ فورم نے کس قدر پاپڑ بیلے، کراچی کے قدیم بلوچی ادب میں رحیم بخش آزاد، ن م دانش، ڈاکٹر دشتی، نور محمد شیخ نے بلا مال و طمع کیا خدمات دیں، سندھی ادب کی لاج جمال ابڑو، سوبھو گیان چندانی، تاج بلوچ، فقیر محمد لاشاری نے کس طرح رکھی۔
پشتو کے کلچر کو ادبی محاسن لطیف آفریدی نے کس طرح ادا کیے، کتاب اور آرٹ کے پروموٹر رفعت خان کو کون جانتا ہے، موسیقی کی لاج رکھنے میں امراؤ بندو خان، مہدی حسن، خلیل احمد، تاج ملتانی، نکہت سیما نے کیا دکھ جھیلے یا ہارمونیم کے سنوارنے میں سلیم حسین کا خاندان آج تک کیسے جتا ہوا ہے۔
خواجہ معین الدین کے ساتھ قاضی واجد، سبحانی بایونس نے ڈرامے کو کیا رنگ دیے، کراچی کی فلم انڈسٹری میں وحید مراد، اسد جعفری نرالا، لہری، ایس ایم یوسف نے کس قدر محنت کی یا کراچی کے ادب کے فروغ کے اولین ادارے کراچی آرٹس کونسل کو جمہوری ادارہ بنانے میں فیض احمد فیض سے لے کر فیضی رحمین اور یاور مہدی نے کیا کیا عذاب نہ جھیلے، اب یہ سب گراں قدر ہستیاں شہرت اور دولت کمانے کی لالچ میں دانستہ بھلائی جارہی ہیں تاکہ نئی نسل کراچی کے ادب و ثقافت سے نہ روشناس ہو اور نہ اپنی تہذیب سے آشنا…بس کہ بقول حسن عابدی۔
اتنے بے پروا ارادے اتنے بے توفیق غم
ہاتھ اٹھتے ہیں مگر حرف دعا ملتا نہیں