لوحِ رُخسار پہ تقدیر جو لکھ بیٹھا ہے
نازؔ جیسا کوئی فنکار کہاں سے لاؤں؟
کسی شخص کے ’’بڑا‘‘ بننے کے لیے ضروری ہے کہ قسمت سے اُسے بڑے مواقعے بھی میسر آئیں اور بڑے لوگ بھی ملتے رہیں تبھی وہ بڑی کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار ہوگا۔ اس حوالے سے ادریس نازؔ خوش نصیب ہے جن پر قسمت کی دیوی بھی مہربان ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت بھی۔ جنھیں زندگی کے آغاز میں ہی بڑی شخصیات اور قد آور ادبی، صحافتی، تعلیمی، سیاسی اور علما و مشائخ لوگ ملتے گئے اور وہ بلندی کی طرف سفر کرتے گئے۔
ادریس نازؔ کثیر الجہت، صاحبِ مطالعہ، قوی حافظہ کے مالک قادر الکلام شاعر، بے باک کالم نگار، مقالہ نگار، افسانہ نویس، فلم رائٹر، تجزیہ کار، ہدایتکار، موسیقار، ور اسٹائل کمپیئر اور مایہ ناز صحافی کے طور پر جہانِ علم و ادب اور صحافت میں اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی اب تک لا تعداد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔
جن میں گل نو شگفتہ (شعری مجموعہ)، سب راہیں میری ہیں (نثری نظمیں)، سُر راگ راگنیوں اور ٹھاٹھوں کا بیان (علم موسیقی پر مستند ترین تحقیق)، ناز برداریاں (منتخب کالم)، شاعر اور شاعری کے اصل مقام کا تعین (مقالہ خصوصی)، چھٹی (افسانے)، راکھ میں دبی چنگاریاں (معاشرتی مسائل پر سلگتے مضامین)، تاریاں دی لوئے (پنجابی شعری مجموعہ) و شامل ہیں۔ وہ پاکستان کے ایک مقبول اخبار میں کئی برسوں تک ’’ناز برداریاں‘‘ کے نام سے دیگر موضوعات پر کالم لکھتے رہے ہیں۔ وہ موجودہ عہد میں صحافت کی اہم شخصیت مجیب الرحمن شامی کی شخصیت سے متاثر نظر آتے ہیں اور شامی صاحب بھی ان کی قلمی اور فنی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔
دیارِ فکر کی روشن سحر میں وفا کے پھول کھلانے والے ادریس نازؔ کے ہاں زندگی میں دُکھ درد بانٹنے والوں کی کمی، کسی کوکھو دینے کا غم، ذاتی المیوں اور ماضی کے تذکروں نے ان کی خوبصورت سوچ کو اس قدر جلا بخشی ہے کہ وہ اپنے زورِ قلم اور حُسنِ تکلم سے ہرکسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ ان کی حقیقت پسندانہ سوچ ان کو عذابوں سے باہر لے آئی ہے وہ ایسے چہروں کو بے نقاب کرنے کا عزم رکھتے ہیں جنھوں نے ان کی پچاس سالہ زندگی کی بہاروں کو خزاؤں کے موسم دیے۔ ادریس نازؔ زبان و بیان پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہیں۔
اگر ہو علم تو قصے پُرانے رقص کرتے ہیں
دیارِ فکر میں اُس کے زمانے رقص کرتے ہیں
رقم تاریخ ہوتی ہے ترے حُسنِ تکلم سے
یقینا تیرے لفظوں میں فسانے رقص کرتے ہیں
بے لگام وقت کو اپنی فکر کے مطابق ڈھال کر اپنی اُمنگوں کا روپ دینا بہت ہی کٹھن کام ہے۔ اس کے لیے نہ صرف اصول مرتب کرنے پڑتے ہیں اُن پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے بلکہ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو وقت کو استعمال کرتے ہیں اور اسے مٹھی میں لینے اک ہنر جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں ادریس نازؔ کا نام بھی اس لیے آتا ہے کہ وہ زندگی کو اپنے اصولوں کے مطابق گزارتے ہیں، وہ وقت اور اصول دونوں اپنی مٹھی میں قید رکھتے ہیں۔
انھوں نے علم کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا، اسے ادب کی راہیں لوگوں تک پہنچایا بھی اور لوگوں کی پذیرائی کرتے ہوئے اُن کی محبتوں اور دعاؤں کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب بھی رہے۔ وہ جس پر مہربان ہوتے ہیں تو پھرکسی نفع، نقصان کی پروا کیے بغیر سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ وہ محبت کے جب پھول کھلاتے ہیں تو دوست بھی اپنی خوشبو ان کے نام کردیتے ہیں۔
سُنا ہے پھولوں نے خوشبو تمہارے نام کردی ہے
نگاہِ ناز میں منظر سہانے رقص کرتے ہیں
ادریس نازکا تعلق گوجرانوالہ کے علاقے گرجاکھ سے ہے ، جس کا سب سے بڑا ادبی حوالہ حضرت راسخ عرفانی، علامہ یعقوب انور، امین خیال، بابو جاوید گرجاکھی، پروفیسر اسیر عابد، ثاقب عرفانی ودیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ کسی زمانے میں گرجاکھ کو علمی ادبی مرکز تسلیم کیا جاتا تھا کیوں کہ حضرت راسخ عرفانی کی قائم کردہ بزمِ اقبال کے زیراہتمام دنیا بھر سے اُستاد الشعرا تشریف لاتے تھے۔
ان بزرگوں کے کوچ کر جانے کے بعد اس کی علمی ادبی رونقیں ماند پڑگئیں جس کا بیڑا ادریس نازؔ جیسے جنونی آدمی نے اپنے کندھوں پر اُٹھا یا اور آئے روز اپنے چینل ایف ایم 4k کے آفس میں پروگرامز اور تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کا احاطہ میرے لیے ایک کالم میں کرنا بہت مشکل ہوگا۔ میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں کہ کسی نے آج سے پچاس سال پہلے والے ادریس نازؔ کو دیکھنا ہو تو ان کے بڑے فرزند احمد بلال کو دیکھ لیں۔ آخر میں انھیں زندگی کی پچاس ویں سالگرہ پر ڈھیروں مبارکباد دیتے ہوئے در صنعت توشیح میں لکھی ہوئی نظم بطور ارمغانِ محبت پیش کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔
ادب کی عرش پر ادریس تو ہے چاند کی صورت
زباں پر تیری اُلفت کے ترانے رقص کرتے ہیں