بیچارے عوام

جس ملک کے عوام اپنی حکومت سے مطمئن ہوتے ہیں، وہاں ترقی کا پہیہ گھومتا رہتا ہے


سیدہ شیریں شہاب December 08, 2024

عوام ہمارے ملک پاکستان کے ہوں یا تیسری دنیا کے کسی ترقی پذیر ملک کے، اْن کی قسمت میں مشکلات لکھی ہوتی ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں وسائل کی کمی کے باعث پیچھے رہ جانے والے ملکوں کے عوام مجموعی طور پر غربت سے نکلنے کی جدوجہد میں ساری زندگی ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔

جب کہ ایسے غریب ملکوں کے حکمران ’’امراء‘‘ کی تعریف پر من و عن پورے اُترتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کے علاوہ اقتدار حاصل کرنے کی خواہشمند سیاسی شخصیات و جماعتوں کے سربراہان اور پارلیمنٹ میں بیٹھی اپوزیشن کے نمایندے بھی دنیاوی اعتبار سے اہل ثروت کہلائے جاتے ہیں۔

ملک امیر ہو یا غریب، ترقی کی معراج سے لطف اندوز ہو رہا ہو یا عروج سے چند قدم کی دوری پر موجود ہو، بلندی کی سیڑھی پر ابھی اپنے قدم جمائے ہی ہوں یا پستی کی دلدل سے نکلنے کا خواہاں ہو، ہر جگہ عوام کی ضرورت و اہمیت یکساں پائی جاتی ہے۔ ہر نوع و اقسام کے ملکوں کو جدا کرتی ہے اْن کی مالی حیثیت اور اْن کی بنا پر اپنے عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک۔

جس ملک کے عوام اپنی حکومت سے مطمئن ہوتے ہیں، وہاں ترقی کا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور معاشرہ خوشحالی کی زندہ جاوید مثال پیش کرتا ہے، اس کے برعکس جن ممالک میں عوام اپنے حکمرانوں سے ناخوش و بیزار ہوتی ہے اْدھر ہمہ وقت ہیجان کی فضا قائم رہتی ہے۔معاشی لحاظ سے کمزور ملکوں کے عوام وہاں کی سرکاری مشینری کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار رہتے ہیں، جس کا اظہار کرنے میں وہ کبھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔

حکومتی اداروں پر عوام کے عدم اعتماد سے پوری طرح فائدہ اْٹھاتی ہیں اقتدار حاصل کرنے میں ناکام ہونے والی سیاسی جماعتیں۔ اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو اس کے قیام سے موجودہ وقت تک کوئی ایک ایسی حکومت نہیں بنی جس سے ہماری قوم مکمل طور پر مطمئن رہی ہو یا جسے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستانی عوام کا حقیقی مینڈیٹ تسلیم کیا ہو۔

عام انتخابات کے حوالے سے بھی ہمارے ملک کی تاریخ دھاندلی کے شور اور الزام تراشیوں سے بھری پڑی ہے۔کوئی بھی ملک صرف تبھی ترقی کی راہوں کا مستقل مسافر بن سکتا ہے جب اْسے بنا رکاوٹ اپنی ذمے داریاں سرانجام دینے کا موقع فراہم کیا جائے لیکن جب اس کا اْلٹ کیا جاتا ہے تو پھر ملک کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہے۔

ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والا ہمارا پڑوسی ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور ہم وہیں کھڑے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں کی ستم ظریفیاں سہتے سہتے ہر قسم کے ڈر، خوف سے آزاد اس قدر سیاسی طور پر چارجڈ ہو جاتے ہیں کہ حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں ’’انقلاب‘‘ کے نام پر باآسانی بیوقوف بن جاتے ہیں۔

موجودہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں بمعہ اپنے نام نہاد کرشماتی لیڈر، مختلف قسموں کی پریشانیوں میں گھرے عوام کو سبز باغ دکھلا کر مسلسل اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کی آرزو مند ایک سیاسی جماعت نے پاکستانی عوام کو احتجاجی ٹول بناکر رکھ دیا ہے جنھیں وہ آئے دن سڑکوں پر لاکر پورا ملک جام کر دیتی ہے اور بعض اوقات اپنے ذاتی بغض میں مقدس ملکی اداروں پر حملہ کروا کر ملک کا مذاق بنانے میں ذرا قباحت محسوس نہیں کرتی ہے۔

لیکن جب ملک کی سیکیورٹی فورسز حرکت میں آتی ہیں تو اْس کی مرکزی قیادت عوام کو سڑکوں پر بے آسرا چھوڑ کر خود اپنی قیمتی گاڑیوں میں سوار انقلاب کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی پرآسائش کوٹھیوں کی جانب روانہ ہو جاتی ہے۔

ماضی میں بھی ہمارے ملک کے در و دیوار نے ایک ایسا وقت دیکھا ہے جب پاکستان کی مقبول عوامی و سیاسی جماعت نے اپنی انا کی تسکین کے لیے انسانی لاشوں کے ڈھیر لگا کر رکھ دیے تھے۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والی اْس سیاسی تنظیم نے صوبہ سندھ کی ایک مضبوط سیاسی جماعت کو ٹکر دینے کے لیے لسانیت کی بنیاد پر عوام کو نہ صرف تقسیم کیا بلکہ آپسی نفرتوں پر اْکسایا۔

اْس مخصوص سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ملکی اداروں سے آئے دن خفا ہو جاتے تھے اور شامت آتی تھی اْن کے حمایتیوں اور دکھوں کے مارے پاکستانی عوام کی۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بیرون ملک رہائش پذیر اْس سیاسی جماعت کے قائد ’’ہائی بلڈ پریشر‘‘ کی کیفیت میں پورے شہر کراچی کو ایک فون کال پر بند کروانے کی اہلیت رکھتے تھے۔

عوامی انقلاب کی لولی پوپ دینے والی ان سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے اپنے خاندان، ملکی مسائل سے کوسوں دور ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی زندگی انجوائے کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اْنھیں اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہمارے بیچارے عوام کا خون و پسینہ درکار ہوتا ہے۔

پاکستانی عوام کا درد رکھنے اور ملک میں تبدیلی لانے کا دعویٰ کرنے والی زمانہ حال کی مقبول سیاسی جماعت کے ’’ہینڈسم‘‘ لیڈر نے کچھ عرصہ قبل اپنی کھوکھلی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہمارے قومی سیکیورٹی ادارے کی تنصیبات پر عوام کو ورغلا کر حملہ کروایا تھا۔ پاکستانی عدالت نے جب اْس افسوسناک واقعے پر ایکشن لیا تو سیاسی لیڈر صاحب کے وکیل نے اپنے مؤکل کا موقف ان الفاظ میں پیش کیا، ’’بانی کی رائے کا غلط ریکشن عوام کی طرف سے آیا۔‘‘

پاکستان کے عوام کا وہ طبقہ جو انقلاب اور تبدیلی کا جھانسا دینے والوں کی احتجاجی کالوں پر اپنے گھروں سے نہیں نکلتا، اْن کے معمولات زندگی بھی ان دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر دوسرے دن ہونے والے اس سیاسی ایڈونچر کو انتشار میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے حکومت مرکزی ملکی شاہراہوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیتی ہے جس کا خمیازہ بھی بیچارے عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سگنلز سیاسی احتجاج کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے معطل کر دیے جاتے ہیں جس کا نقصان ملک کی عوام و معیشت دونوں کو پہنچتا ہے۔ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک اشیائے خورونوش لے جانے والے کنٹینرز بند راستوں کے باعث کئی کئی دن ایک جگہ کھڑے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے سامان بروقت اپنے جائے مقام تک پہنچ نہیں پاتا۔

اس تاخیر کی بدولت منافع خوروں کی جانب سے مارکیٹ میں پہلے سے موجود روز مرہ کی ضروری اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے جو بیچارے عوام پر مہنگائی کی صورت میں عذاب بن کر نازل ہوتا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان صرف تبھی ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے جب ہمارے عوام اور حکومت مل کر اس کی بقاء کے لیے اپنا اپنا کام خلوص نیت، پر اعتمادی و ایمانداری کے ساتھ سرانجام دیں اور اپنے ذاتی فائدے کے لیے ملکی اداروں اور عوام کا تمسخر اْڑانیوالوں کے لیے عزائم کو ناکام بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں