غرقاب کر دیا جس نے دشمن کاغرور … پی این ایس ہنگور

پاک بحریہ کو اپنی شجاعتوں کے جوہر دکھلانے کا وقت آگیا تھا اسی لیے پاک بحریہ نے فوراً اپنی آبدوزوں کو متحرک کر دیا


نوال فاطمہ December 08, 2024

یہ20 نومبر1971کا تاریخی دن تھا جب پوری قوم عید الاضحی کا تہوار دینی جوش و جذبے سے منا رہی تھی، لیکن عید کے اس پر مسرت موقع کی دوپہر کراچی کے ساحل پر سفید اور آسمانی رنگ کی وردیوں میں ملبوس پاک بحریہ کے افسر اور جوان عید کے پیغام کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزوں کو الوداع کہہ رہے تھے۔

ان کی چھٹیاں منسوخ ہو چکی تھیں اور آج وہ پاک بحریہ کی آبدوز ’’پی این ایس ہنگور‘‘ کے عملے میں شامل تھے جو جنگی صورتِ حال کے پیشِِ نظر دفاعِ وطن کے لیے روانہ ہو رہی تھی ان کے عزیزوں کے لبوں پر بس ایک دعا تھی ’’اے اللہ انھیںسلامت رکھ اور پاکستان کی حفاظت فرما۔‘‘

22 نومبر کو بھارت نے مشرقی پاکستان میںدر اندازی شروع کر دی اور وہاں مشرقی پاکستان کی سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا تو پاک بحریہ نے اس کا جواب دیا اور ان مشکل حالات میں سمندری آپریشن جاری رکھا، 3 دسمبر1971کو بھارت نے مغربی پاکستان میں بھی دراندازی کی تو پاکستان کی تمام عسکری قوتین میدان میں آگئیں۔ 

پاک بحریہ کو اپنی شجاعتوں کے جوہر دکھلانے کا وقت آگیا تھا اسی لیے پاک بحریہ نے فوراً اپنی آبدوزوں کو متحرک کر دیا، جنگِ ستمبر کا معرکۂ دوارکا کی وجہ سے تعداد اور جنگی سامان کم ہونے کے باوجود پاک بحریہ کے ہر افسر اور سیلر کے حوصلے بلند تھے اسی لیے سب منتظر تھے کہ بس حکم ملے اور ہم سمندروں پر دشمن کا سارا غرور خاک میں تہہ آب کر دیں۔ پی این ایس ہنگور کے عملے کے لیے چھ دن اسی انتظار میں گزرے کہ کب پاک بحریہ کے ان مجاہدوں کو پی این ایس ہنگور کے ذریعے دشمن کے تعاقب کا حکم ملتا ہے۔

آب دوزپی این ایس ہنگور جو فرانس سے لی گئی ’’ڈیفنی‘‘ نامی آبدوز تھی اُس وقت اس کا شمار بہترین آبدوزوں میں ہوتا تھا۔ ڈیفنی قدیم یونانی ادب میں حسن و جمال کی دیوی تھی جو پانیوں پر رہا کرتی تھی، مگر یہ سیاہ رنگ کا وہ حسن و جمال تھا جو پاکستان کے ساحلوں اور سمندروں کے حسن کا ضامن تھا، بحری تجارتی قافلوں کی روانی کی نگہبان یہی ڈیفنی تھی جو 1970 میں پاک بحریہ کا حصہ بنی۔

26 نومبر کو پی این ایس ہنگور بمبئی کی سمت روانہ ہوگئی جس کا مقصد بھارتی بحری بیڑے کا سراغ لگانا تھا جو کراچی پر حملے کے لیے تیار ی کر رہا تھا۔

پانی کے اندر پاک بحریہ کے یہ آبدوز مجاہد عالمِ اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے نکلے تھے۔ ان کے سینوں میں دورِ عثمان غنیؓ سے لے کر عہدِ خلافتِ عثمانیہ کے روشن کارنامے تھے، ان کے پاس جنگِ ستمبر کی داستانِ شجاعت تھی جسے ابھی چھ سال ہی گزرے تھے۔ دشمن اور اس کا چہرہ وہی تھا بس تاریخ اور سن بدل چکے تھے۔ بھارتی ناؤ سینا کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح پاکستان پر حملے کے لیے مچل رہی تھی مگر اسے پتا تک نہ تھا کہ پاکستان کے آبی مجاہد اسی کے سمندروں کی تہہ میں ہی اس کی گھات لگائے اسے غرق کرنے کے لیے تیار ہیں۔

آبدوز پی این ایس ہنگور کو سمندروں کی تہہ میںسفر کرتے اور دشمن پر نگاہ رکھتے ایک ہفتے سے زیادہ گزر چکا تھا لیکن بھارتی بحری بیڑا اُسے تاحال نظر نہیں آیا تھا۔ 2 دسمبر کو وہ لمحہ آہی گیا جب پاک بحریہ کی اس آبدوز نے بھارتی جنگی جہاز آئی این ایس میسور کو دیکھ لیا۔

آئی این ایس میسور ان کے اوپر سے گزر رہا تھا اور یہ وقت یقینی موت کا وقت تھا کہ ذرا سی جنبش بھی آبدوز تباہ کرسکتی تھی۔ ادھر پاک بحریہ کے جوانوں کا حوصلہ اتنا بلند تھا کہ وہ میسور کو ہی غرق کرنے کے لیے پر عزم تھے مگر ابھی حکم یہی تھا کہ پاک بحریہ جنگ میں پہل نہیں کرے گی۔

ایک فوجی جذبے اور فوجی نظم و ضبط کے تحت پاک بحریہ نے بھی خاموشی اختیار کرلی کیونکہ ابھی بھارتی بحری بیڑے کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کا اصل مشن باقی تھا۔ اگلے دن ہی پی این ایس ہنگور کو سگنل موصول ہوا کہ بھارت نے مغربی پاکستان پر بھی حملہ کر دیا ہے اس لیے اب بھارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

یہ حکم ملتے ہی پاک بحریہ کے تمام جوانوں اور افسروں کا جذبہ بلند ہوگیا۔ دوسری جانب پاک بحریہ کی انٹیلی جنس کے پاس یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ بھارتی بحری جہاز کراچی پر حملے کی تیاری کرچکے ہیں اسی لیے انھیں بروقت روکنا اور ان کا نشانہ بنانا ضروری ہے جس کے لیے پی این ایس ہنگور اب بمبئی کے پانیوں میں اپنا شکار ڈھونڈنے لگی۔

آخر کار 9 دسمبر کو وہ تاریخی دن آہی گیا جس کا عملے کو بے صبری سے انتظار تھا۔ آبدوز سے تقریباً آٹھ ناٹیکل میل کے فاصلے پر دو بھارتی بحری جہاز آئی این ایس ککری اور کرپان اُسے نظر آئے جنھیں پی این ایس ہنگور ہی کو تلاش کرنے بھیجا گیا تھا، پی این ایس ہنگور نے فوراً اپنا رخ ان کی طرف کیا۔ رفتہ رفتہ پی این ایس ہنگور ان کے قریب آنے لگی اور موت ان بھارتی جہازوں کے سر پر ناچنے لگی!

شام سات بجے کے قریب آبدوز ہنگور نے گہرے پانی میں غوطہ لگایا جس کے بعد تمام مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے گئے۔ ٹھیک پونے آٹھ بجے پی این ایس آبدوز ہنگور ان دونوں جہازوں کے قریب پہنچ گئی۔ ٹیلی اسکوپ پر ٹارگٹ صاف نظر آ رہا تھا۔

حملہ اتنی احتیاط سے کرنا تھا کہ نشانہ خطا ہونا گویا خود موت کو دعوت دینا تھا اسی لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، پاک بحریہ کا پہلا نشانہ آئی این ایس کرپان تھا، حکم ملتے ہی تارپیڈو فائرکیا گیا لیکن بس ذرا سے فاصلے سے نشانہ خطا ہوگیا۔ ادھر آبدوز کے اندر موجود میزائل ٹارگٹ سسٹم جسے سونار سسٹم کہا جاتا ہے اس نے اطلاع دی کہ ’’ٹارگٹ ویٹ‘‘ پی این ایس ہنگور کی کمان نے وقت ضایع کیے بغیر حملہ جاری رکھا۔ بھارتی بحریہ کے دونوں جہاز متحرک ہوچکے تھے اور انھیں خبر ہو چکی تھی کہ جس شکار کو وہ ڈھونڈنے نکلے ہیں اب وہ اس کے سامنے ہے اسی لیے آئی این ایس ککری نے جنوب سے چکر کاٹ کر فوراً ہنگور کو نشانہ بنانے کی راہ لے لی۔

پی این ایس ہنگور سے دوبارہ تارپیڈو داغا گیا جسے آئی این ایس ککری نے اپنی سمت آتے دیکھ لیا تھا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ آنِ واحد میں سمندر میں زور دار دھماکے سنائی دینے لگے اور سطحِ آب پر آگ کے بڑے بڑے شعلے سمندروں سے اٹھ کر آسمان سے باتیں کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سو ساٹھ افراد پر مشتمل بھارتی بحریہ کا غرور سمندر برد ہوگیا۔

آئی این ایس کرپان نے راہِ فرار اختیار کرنا چاہی تو اگلا تارپیڈو اسی کے پیچھے آیا جسے اس نے ڈیپتھ فائر چارج کے ذریعے بچا لیا لیکن اس تارپیڈو نے کرپان کو بھی نقصان پہنچایا۔ ککری کے تباہ ہوتے ہی آبدوز کا پورا عملہ زیرِ سمندر ہی تکبیر کے فلک شگاف نعرے لگاکر فتح کا اعلان کرنے لگا۔

اب اُس کے پیشِ نظر دشمن کے دوبارہ ممکنہ حملے کا انتظار بھی تھا لیکن یہ بھارت کی ناؤ سینا تھی چپ سادھ کر بیٹھ گئی اور یوں تاریخ نے9 دسمبر کی شب بحری تاریخ میں ایک نیا باب لکھا جس میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد آبدوز کے ہاتھوں بحری جہاز کی غرقابی درج تھی۔ بھارت نے بدمست ہاتھی کی طرح اپنے ہی سمندر میں آبدوز شکن ہتھیاروں کا جال بچھا دیا اور ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ’’آپریش فالکن‘‘ شروع کیا جو ناکام رہا اور پاک بحریہ اس مشکل ترین دور میں بھی فاتح بن کر ابھری۔

پاک بحریہ کے یہ بحری مجاہد 13 دسمبر1971 کو کامیاب و کامران کراچی پہنچ گئے جہاں سب نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس شاندار فتح کے موقع پر تین افسروں کو ستارۂ جرأت سے نوازا گیا جب کہ چھ سیلرز کے سینوں پر تمغۂ جرأت سجائے گئے۔

آج بھی پاک بحریہ سر کریک سے لے کر جیوانی تک پاکستان کے ساحلوں اور سمندروں کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ ترقیاتی کام ہوں یا عوام میں شعور کی آبیاری، کوسٹل اور کریکس ایریا میں پاک بحریہ ہی تعمیر و ترقی کی ضامن ہے اور آج کا دن ہمیں اُس جذبے کا احساس دلاتا ہے جب پاک بحریہ نے 53 سال قبل یہ معرکہ انجام دے کر بتا دیا تھا:

کر دیا ہے زیرِ آب، ہند کا سارا غرور

 آئے ہمارے سامنے، ہو جس کے ذہن میں فتور

چمک رہا ہے زیرِ آب اپنے عزم کا شعور

سلامِ عقیدت ہو تمہیں پاک بحر کی اے ہنگور

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں