عوامی سطح پر بے چینی کی لہر

 حالات دوسرے صوبوں میں بھی اطمینان بخش نہیں ہیں، انارکی کی صورت پاکستان کے چپے چپے پر نظر آتی ہے


نسیم انجم December 08, 2024

غزہ میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، کسی بھی اسلامی ملک کو ذرہ برابر احساس نہیں،کشمیر کی حالت زار بھی قابل افسوس ہے،کشمیری اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

 بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں اس وقت بدامنی کا راج ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بلوچستان کی لیڈرشپ بگٹی، مینگل اور دوسرے کئی سردارں کے ہاتھوں سے نکل گئی اور مڈل و لوئر کلاس کے جوانوں نے اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک حکمت عملی تیارکی اور اپنے حقوق کے لیے باقاعدہ مہم شروع کی، اپنوں کے انتظار میں ان کی آنکھیں پتھرا گئیں اور دل خون کے آنسو رونے لگا۔

بلوچستان میں فروری 2004 میں ایک لیڈی ڈاکٹر سے جنسی زیادتی کا واقعہ سامنے آیا، دسمبر 2005 میں کوہلو اور ڈیرہ بگٹی قبیلے کے مسلح افراد کے مابین جھڑپ اور اسی سال کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کے بعد بلوچ رہنماؤں کا قتل ایسے واقعات ہیں کہ آج بلوچستان میں بدامنی ہے۔ صوبے کے سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں چوتھا آپریشن جاری ہے۔

 حالات دوسرے صوبوں میں بھی اطمینان بخش نہیں ہیں، انارکی کی صورت پاکستان کے چپے چپے پر نظر آتی ہے۔ وفاقی حکومت کمزور حکومت ہے،وہ سنگین ترین حالات کو سدھارنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔

 کرپشن کے الزامات تو موجودہ اور دوسری حکومتوں کے ساتھ بھی وابستہ ہیں لیکن انصاف کا جنازہ اس طرح نکالا گیا کہ انھیں تخت شاہی پیش کردیا گیا۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ الیکشن میں ہارنے والوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے، حکومتی اراکین کے لیے عزت و وقار کا تو مسئلہ ہی نہیں تھا۔

جیتنے والوں نے حکومت بنائی اور اپنے خاص لوگوں میں عہدے بانٹ دیے گئے، ہر حکومت میں بددیانتی، اقربا پروری ، لالچ، طمع کی ردا اوڑھ کر سب اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو بھی ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوگیا ہے، حکومت مخالفین کی جانب سے الزامات میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

 ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما مختلف الزامات کے تحت پابند سلاسل ہیں۔ اقتدار کا نشہ بہت طاقتور ہوتا ہے۔ حکومتی فیصلوں میں دانش کے بجائے سیاسی مخالفت کا عنصر غالب آ جاتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا داغ بہت گہرا زخم تھا،آج تک لہو رس رہا ہے، ایک اسلامی ملک تھا جو اللہ کے نام پر وجود میں آیا تھا لیکن اہل اقتدار اور اپوزیشن دونوں میں موجود اقتدارکی ہوس نے آدھا پاکستان گنوا دیا۔

 ملک کا ہر شہری غمزدہ ہے، غربت، افلاس، بے روزگاری اپنی جگہ، لیکن اس کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس اور قتل و غارت نے گویا زندگیوں کو اذیت کی وادی میں اتار دیا ہے، مردوں میں شمار ہے نہ زندوں میں، ایک طرف نومبر میں مہنگائی کی کم ترین سطح کا اعلان کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف یوٹیلیٹی اسٹورز بھی بند کردیے گئے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ملازمین بے روزگار نہیں ہوئے۔ چلیں بہت اچھا ہوا۔ لیکن صارفین سستا راشن خریدنے سے محروم ہو گئے۔ بے شمار گھرانے یوٹیلیٹی اسٹورز سے ماہانہ دال، دلیا، آٹا، چاول اور دوسری ضرورت کی اشیا خریدتے ہیں۔ صبح سے ہی لمبی لمبی قطاروں میں آ کر لگ جاتے ہیں، اکثر افراد کا نمبر دوپہر یا اس کے بعد ہی آتا ہے، لیکن وہ یہ اذیت برداشت کرنے کے لیے بے حد بے کس و مجبور ہیں، ان کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ متبادل راستہ اختیار کریں بہت سے سفید پوش رات کے اندھیرے میں چوراہوں اور مساجد کے سامنے ہاتھ یا جھولی پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

ہمدرد حضرات انھیں تھوڑے بہت یا زیادہ رقم دے کر ان کی مدد کرتے ہیں جب کہ اسلام اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا ہے کہ گداگری کو فروغ دیا جائے وہ سخت ممانعت کرتا ہے اور محنت کو ترجیح دیتا ہے لیکن ہمارے ملک میں سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات بہت خراب ہوچکے ہیں۔

اشیا ضروریہ کی چیزیں خریدنے والے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے پاس ماہانہ اجرت یا تنخواہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچوں کی غذائی قلت نے بھی بیماریوں میں اضافہ کیا ہے، رہی تعلیم تو غریب بلکہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والا طبقہ، تعلیم اور علاج و معالجے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے، بس وہ تو اللہ کی دی ہوئی سانسیں لے رہا ہے اور موت کا منتظر ہے۔

عوام کے برعکس حکومت تعیشات زندگی کے مزے لے رہی ہے، آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر قرض لے کر ان کی شرائط ماننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے جن حکمرانوں کو اپنی رعایا کا خیال اور وطن سے محبت اور اس کی ترقی و خوشحالی کی فکر نہ ہو تو عوام کا یہی حال ہوتا ہے۔ 

اعمال نامہ علیین اور سجین کے رجسٹروںمیں درج کیا جا رہا ہے، دوسروں سے سبق سیکھنا نہایت ضروری ہے، دانشور وہی ہے جو ماضی یا حال کے واقعات سے سبق سیکھتا اور اپنی اصلاح کرتا ہے اور یہ عزم کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبال:

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی مدعا تیری زندگی کا

تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثالِ شرار ہوگا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں