کوہ سلیمان کے دیس میں ( دوسری قسط)

پنجاب کی بلوچ بستیوں کی سیاحت


حارث بٹ December 08, 2024

کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ افغانستان، ایران سے ہوتا ہوا جب پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور پھر وہاں سے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں داخل ہوتا ہے تو بے پناہ خوب صورت نظاروں اور ندی نالوں کے ساتھ منفرد طریقوں سے حضرتِ انسان کی تفریح کا باعث بنتا ہے۔

کوہِ سلیمان مطلب حضرت سلیمان علیہ السلام کا پہاڑ۔ کہتے ہیں کہ یہی وہ پہاڑی سلسلہ ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے پاس ہی ایک تخت نما چٹان یا پہاڑی بھی ہے جسے تختِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ اس چٹان یا پہاڑی پر حضرتِ سلیمان کا تحت لگتا تھا۔ کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ سطح سمندر سے تقریباً بائیس سو فٹ بلند ہے۔

ڈیرہ غازی خان سے ہوتے ہوئے آپ اگر بلوچستان کی جانب سفر کریں تو انتظامی طور بے شک آپ پنچاب کے زیرِانتظام علاقے میں ہوتے ہیں مگر یہ وہ علاقے ہیں جن پر ہمیشہ سے بلوچستان دعوے دار رہا ہے۔ یہاں ہر طرف آپ کو بلوچ ثقافت یہاں تک کہ بلوچ زبان ہی ملے گی۔

ماضی دور میں ایران کی حکومت بلوچستان سمیت پنجاب کے ان علاقوں پر بھی حکومت رہی ہے۔ چوں کہ اس وقت بلوچستان اور پنجاب کے یہ علاقے ایک ہی حکومت کے زیرِانتظام تھے تو بلوچ قبائلی سردار آج بھی اسی بات کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں کہ ڈیرہ غازی خان اور اس کے مضافاتی علاقوں کو بھی بلوچستان میں ہی شامل کیا جائے۔ موجودہ صوبوں کی حدبندی خود انگریز سرکار نے کی تھی۔

ڈیرہ غازی خان شہر سے تقریباً 90 کلومیٹر دور، مبارکی یونین کونسل میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جو سیاحتی اعتبار سے اب تک بہت لوگوں سے چھپا ہوا ہے۔ یہ علاقہ مٹ چانڈیہ ہے۔ مٹ چانڈیہ ایک خوب صورت نخلستان ہے۔ پاکستان کو تو چھوڑیں، پورے کوہِ سلیمان میں آپ کو ایسے نظارے مشکل سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کھجور کے لاتعداد درخت ہیں جن کے درمیان وٹور نالے کا پانی سال بھر بہتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر چڑھ کر آپ پورے علاقے کا فضائی جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔

مٹ چانڈیہ نخلستان جانے کا راستہ بہت آسان ہے۔ اگر آپ صرف اردو یا پنجابی جاننے والے تو آپ کو ذرا اختیاط سے سفر کرنا پڑے گا۔ اگر سرائیکی یا بلوچی کوئی آپ کے ساتھ ہو تو پھر آپ اپنے آپ کو اپنے گھر میں ہی سمجھیں۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ مٹ چانڈیہ تک پکی سڑک جاتی ہے۔ مٹ چانڈیہ کا سرکاری اسکول بہت مشہور ہے، جس کی بنیاد 1961 میں رکھی گئی تھی۔

بعدازآں اسے مڈل اور پھر میٹرک تک ترقی دے دی گئی۔ اس مٹ چانڈیہ میں بجلی نہیں ہے مگر اسکول میں سولر پینل لگے ہیں۔ معلوم پڑا کہ ماضی میں وزیراعلیٰ پنجاب رہنے والے عثمان بزدار صاحب علاقے کو بجلی تو نہ دے سکے مگر اسکول کو کم از کم سولر پینل ضرور دے گئے۔ مٹ چانڈیہ کے دوست اس قدر محبت والے تھے کہ جب انھیں معلوم پڑا میں سیالکوٹ سے یہاں تک صرف یہ نخلستان دیکھنے کے لیے آیا ہوں تو فوراً اپنی روایات کے مطابق مہمان نوازی میں لگ گئے۔

کیا بچے کیا جوان سب ہی میرے آگے پیچھے ہونے لگے۔ میرے منع کرنے کے باوجود بھی مشروبات اور بسکٹ پیش ہوئے۔ اسکول میں اساتذہ کے لیے بنے کمروں کو میرے لیے کھول دیا گیا۔ سب نے ہی وہاں رات رکنے یا کھانا کھانے پر بہت ضرور دیا مگر ہماری مسافتیں ابھی بڑی تھیں، اس لئے وہاں سے وقت پر ہی نکلنا پڑا۔

تقریباً دو بجے کے قریب ہم مٹ چانڈیہ نخلستان سے نکل پڑے۔ اگرچہ کہ نکلنے کو جی نہ چاہتا تھا مگر مجبوری تھی۔ اپنے منصوبے کے مطابق ہمیں مبارکی ٹاپ کے لیے نکلنا تھا۔ اس کے قریب ہی کہیں یک بائی ٹاپ تھا۔ رات فورٹ منرو کرنا تھی اور اگلے دن بلوچستان کے شہر راکھنی تک جانا تھا۔ ہم مٹ چانڈیہ نخلستان سے نکل کر مرکزی سڑک پر ابھی آئے ہی تھے کہ بائیک سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔

پتا چلا کہ بائیک کا گراری سیٹ خراب ہوچکا ہے۔ مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا کہ سرفراز دھوکا دے یا نہ دے، یہ بائیک دھوکا ضرور دے گی۔ بائیک کی شکل بتا رہی تھی کہ یہ بائیک چڑھیاں چڑھنے والی ہے ہی نہیں۔ لمبا سفر تھا اور بائیک اب انتہائی سست رفتاری سے چل رہی تھی۔ ہر دو منٹ بعد کوئی نہ کوئی چڑھائی آجاتی اور مجبوراً مجھے بائیک سے اترنا پڑتا۔ ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔

مبارکی ٹاپ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں جو جموں کے انتہائی قریبی شہر سیال کوٹ سے اٹھ کر پنجاب بلوچستان کے بارڈر پر انتہائی مایوسی کے عالم میں کھڑا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ شام کے آثار نظر آنا شروع ہوئے تو سامنے سخی سرور شہر کے بھی آثار نظر آنے لگے۔ مناسب یہی جانا کہ تھوڑی سی زخمت مزید کر کے سخی سرور دربار ہو ہی آؤں تو بہتر ہے۔ نہ جانے بعد میں اس طرف آنا کب نصیب ہو۔

دریائے سندھ کے پار ڈیرہ غازی خان ہے جس سے تیس میل آگے کوہ سلیمان جو کہ جنوب سے شمال کی جانب اس خطہ اور افغانستان کے درمیان ایک فطری دیوار بناتا ہے، کے دامن میں سخی سرور ہے۔ بچپن سے ہی نہ جانے کیوں یہ نام ذہن میں بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے جب کبھی ڈیڈی کے ساتھ پی ٹی وی پر رات نو بجے کا خبر نامہ سن رہا ہوتا تھا تو جب بھی سخی سرور کا نام آتا، میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ٹی وی دیکھنے لگتا۔ جی چاہتا تھا کہ کبھی یہ شہر دیکھوں۔ ابھی جب کوہ سلیمان کا سیاحتی سفر ترتیب دے رہا تھا تو سخی سرور کو بھی اندر فہرست میں رکھا۔

 تقریباً ایک ہزار سال پہلے بغداد سے ایک شخص زین العابدین نے ملتان کے مضافات کی جانب ہجرت کی۔ شجر نسب حضرت علیؓ سے ملتا تھا۔ جب بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام سید احمد سلطان رکھا۔ یہی احمد سلطان بعد میں سخی سرور کہلائے۔ 14 ذی الحجہ 511 ہجری آپ کی پیدائش کا دن جب کہ 13 رجب 577 ہجری بہ مطابق 1181 عیسوی میں صرف 53 سال کی عمر میں اپنوں نے ہی انھیں شہید کردیا۔

سید احمد سلطان نے حصولِ علم کی خاطر ایران اور عراق کی جانب بھی سفر کیا۔ شیخ عبدالقادرجیلانی سے بھی ملاقات رہی۔ واپسی پر پہلے لاہور اور پھر شاہ کوٹ میں قیام رہا۔ آپ کی شہرت جب دوردور تک پھیلی تو اپنے ہی سب سے پہلے آپ کے خلاف ہوئے۔ آپ نے اپنے خاندان والوں سے کنارہ کشی کرلی اور کوہ سلیمان کے دامن میں آ کر اپنی ایک چلہ گاہ بنالی۔ آپ سے عقیدت رکھنے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ ہندؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی جو اپنے آپ کو سلطانی کہلواتے تھے۔

ناراض رشتے دار سید احمد سلطان کی جان کے دشمن بن بیٹھے۔ سب مل کر سید احمد سلطان کو قتل کرنے آن پہنچے۔ دوستوں نے احمد کا ساتھ دیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ شہادت سے پہلے سید احمد سلطان نے وصیت کی کہ ان کے دوستوں کو ان سے بلند مقام پر دفن کیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ 13 رجب آپ کی شہادت کا دن ہے۔ آپ کو بہت سے القابات دیے گئے مگر بے پناہ سخاوت کی وجہ سے آپ سخی سرور کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے بیٹے سخی سراج اور بیوی کو بھی آپ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے آپ کے مزار کی تعمیر کا آغاز کروایا۔

آپ کا دربار مغلیہ طرزِتعمیر کا شاہ کار ہے۔ خوب صورت سنگِ مرمر کے علاوہ مزار کی چوب کاری بھی اس کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ مزار کے احاطے کی اندرونی دیواروں کے اوپر موتیوں جڑے چھوٹے چھوٹے تکیے لٹکے ہیں جو کہ مریدین کی طرف سے چڑھاوے کے طور پر لٹکائے گئے ہیں۔ مزار کی عمارت کے قریب ایک ڈھلوان ہے جس کو چورٹپ کہا جاتا ہے جو کہ خاکے کی تہہ در تہہ سے بنی ہوئی پہاڑیوں سے بھری ہوئی ہے۔ پہاڑ کی چٹانیں حیران کن انداز میں ایک دوسرے کو سہارا دیے کھڑی ہیں۔ ان کے چار یار قریبی پہاڑی کے اوپر مدفن ہیں جن کی قبروں پر صرف اور صرف کنکریاں اور جھاڑیاں ہیں۔

 مزار کے بالکل ساتھ ہی اسی وقت کی بنی ہوئی خوب صورت مسجد بھی ہے۔ شہر سخی سرور ڈیرہ غازی خان کے بالکل ساتھ ہی واقع ہے۔ احباب جب بھی ڈیرہ غازی خان جائیں تو حضرت سخی سرور کا دربار اور اس سے منسلک مسجد ضرور دیکھیں۔ مذہبی عینک نہ بھی لگائیں تب بھی سیاحتی نظر سے آپ کو یہ دربار اور مسجد ضرور دیکھنی چاہیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ شہر تقریباً چار ہزار سال پرانا ہے۔ مکام اور نگابہہ اس کے پرانے نام رہے ہیں مگر سید احمد سلطان کے بعد سے یہ شہر سخی سرور کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔

ہم ابھی ڈیرہ غازی خان شہر میں بھی داخل نہ ہوئے تھے کہ سورج ڈوب چکا تھا۔ میرا آج ہی کے دن ڈیرہ غازی خان ریلوے اسٹیشن دیکھنا بہت ضروری تھا۔ مجھے علم تھا کہ کل وقت نہیں مل سکے گا۔ ڈیرہ غازی خان ریلوے اسٹیشن وقتی طور پر متروک ہے۔ اس جانب ریل گاڑی نہیں آتی۔ پہلے صرف خوشحال خان ایکسپریس یہاں سے گزرتی تھی مگر اب اس کا بھی روٹ تبدیل کردیا گیا ہے۔ 11 جولائی 1972 کو چیئرمین ریلوے عبد الرحمن نے ڈیرہ غازی خان - راجن پور ریلوے لائن کا افتتاح کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کوٹ ادو - ڈیرہ غازی خان ریلوے ٹریک کا افتتاح یومِ پاکستان یعنی 23 مارچ 1969 کو ہوچکا تھا۔ اس پورے ٹریک کے ریلوے سٹیشن فی الحال متروک ہیں۔

بائیک اگر خراب نہ ہوتی تو آج میں رات یہ بائی ٹاپ یا فورٹ منرو کے آس پاس کہیں گزار رہا ہوتا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں نے قسمت کو کوسنا بند کیا، اپنے گائیڈ کو الوداع کہا اور ایک کمرے کرائے پر لے لیا۔ خوب نہا دھو کر پورے دن کی میل کچیل اتاری، کھانا کھایا اور سوچنے لگا کہ اب کرنا کیا ہے۔

یہاں بھی ڈاکٹر صاحب کام آئے اور ڈیرہ غازی خان کے ہی ایک بہترین سیاح اور محقق سلطان صاحب کو میری جانب روانہ کر دیا۔ سلطان صاحب سے کیا ہی خوب صورت ملاقات رہی۔ آپ نے نہ صرف ڈیرہ غازی خان کے بارے میں بہت سی مفید باتیں بتائیں بلکہ میرے اگلے دن کا شیڈول ترتیب دینے میں بھی مدد کی۔ چائے ختم ہونے تک طے یہ پایا کہ سلطان صاحب صبح چھے بجے میرے ہوٹل سے مجھے لیں گے، غازی خان کے مزار سمیت شہر کا ایک دوری کروائیں گے اور پھر مجھے راجن پور والی گاڑی پر بیٹھا دیں گے اور صبح سویرے پورے چھ بجے سلطان صاحب میرے ہوٹل کے نیچے کھڑے تھے جب کہ میں سست انسان ابھی تک تیار بھی نہ ہو پایا تھا۔

نیچے آتے آتے میں نے آدھا گھنٹا لگا دیا۔ سلطان صاحب نے ایک خوب صورت مسکان کے ساتھ خوش آمدید کہا اور ہم غازی خان کے مزار کی طرف روانہ ہوگئے۔ سلطان صاحب بتانے لگے کہ جب غازی خان نے اپنا مقبرہ بنوایا تو یہ ایک ویران جگہ تھی۔ پھر سیلاب کے باعث جب پرانا شہر تباہ ہوچکا تو انگریزوں نے اسی مزار کے گرد نئے شہر کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وسیب کے رنگ غازی خان کے مزار میں نمایاں ہیں۔ یہ مقبرہ اپنے ڈیزائن کی وجہ سے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ اگر کسی دوسرے شہر ہیں تو جب بھی ڈیرہ غازی خان جائیں، غازی خان کا مزار ضرور دیکھیں۔

صبح سویرے کا وقت تھا تو سلطان صاحب نے ناشتے پر بہت زور دیا مگر نہ جانے کیوں ایک کپ چائے پینے کو بھی جی نہ چاہتا تھا۔ ہم لاری اڈا پہنچے تو آگے ایک لوکل بس راجن پور جانے کو تیار کھڑی تھی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا، فوراً اس بس میں سوار ہوگیا۔ گاڑی وقت پر چل تو پڑی مگر اس نے وقت بہت لگایا۔ جگہ جگہ یہ گاڑی رک جاتی۔ لاری اڈے سے تو یہ وقت پر نکل پڑی مگر ڈیرہ غازی خان سے نکلتے نکلتے اس نے کم از کم پینتالیس منٹ لگادیے۔ گاڑی جوں جوں پنجاب کے انتہائی جنوب میں جا رہی تھی، توں توں نہ جانے کیوں میرے اندر خوشی کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔

کبھی کسی اسٹاپ پر سے گرما گرم پکوڑے سموسے والے بس میں آوازیں لگانے لگتے تو کبھی نان چائے والے آ جاتے۔ میں کل رات ہی ڈاکٹر صاحب کو اپنی مظلومیت کی داستان سنا چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت فون گھمانے شروع کردیے اور راجن پور سے اپنے ایک سیاحتی دوست کو ڈھونڈ نکالا۔ میرے راجن پور پہنچنے سے پہلے ہی وہ راجن پور لاری اڈا پہنچ چکے تھے۔

نام مصعب کھوسہ تھا اور محمکہ ریلوے میں ملازم تھے۔ راجن پور پہنچتے پہنچتے دوپہر ہو چکی تھی، اس لیے کچھ پیٹ پوجا ضروری تھا۔ فی الحال تو چائے بسکٹ سے ہی کام چلایا گیا اور ہم بنا وقت ضائع کیے کوٹ مٹھن کی طرف روانہ ہوگئے مگر مصعب کھوسہ صاحب کے مطابق ہم سیدھا سیدھا کوٹ مٹھن خواجہ غلام فرید کے مزار پر نہیں جائیں گے بلکہ پہلے دریائے سندھ کے کنارے کھڑی انڈس کوئین دیکھیں گے اور پھر پیچھے سے ہوکر کوٹ مٹھن جائیں گے۔ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ انڈس کوئین کو دیکھا جائے۔

بات زیادہ پرانی نہیں ہے مگر اتنی پرانی ضرور ہے جب پنجاب واقعی ’’پنج آب‘‘ تھا اور تبت کے پہاڑوں سے جنم لینے والا ستلج قصور سمیت ریاستِ بہاولپور کو سیراب کرتا تھا۔ بات اتنی پرانی ہے جب ستلج میں چھوٹے بحری جہاز بھی چلا کرتے تھے جن میں ایک مشہورِزمانہ انڈس کوئین بھی تھا۔ انڈس کوئین شروع سے تو سندھو کی ملکہ نہ تھا بلکہ پہلے یہ ستلج کی ملکہ تھا۔ اسے ستلج کوئین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

ریاستِ بہاولپور تقسیم سے پہلے ایک مال دار ریاست تھی۔ اتنی مال دار کہ اسے نہ جانے کیوں اپنا بحری بیڑا بنانے کا خیال آیا۔ نوابوں کے شوق بھی پھر نوابوں والے ہی ہوتے ہیں۔

بہاولپور کے نواب نے انگریز حکومت میں ہی سکاٹ لینڈ سے ایک تین منزلہ بحری جہاز منگوایا جو چار سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش رکھتا تھا۔ اس جہاز کو ستلج کوئین کا نام دیا گیا۔ ستلج کوئین لمبا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس زمانے میں چوں کہ ذرائع آمد و رفت کم تھے تو نواب صاحب اور ان کے مہمانوں کے لیے ستلج کوئین بہاولپور سے کراچی تک کا سفر کرتا تھا۔ یہاں تک کہ 1867 میں ایک بار وائسرائے ہند بھی نواب آف بہاولپور کی درخواست پر اسی ستلج کوئین پر بہاولپور بھی تشریف لائے۔

نواب آف بہاولپور پنجم نے یہی جہاز 1958 میں خواجہ فرید کو تحفے میں دے دیا جو ان کے عقیدت مندوں کے لیے چاچنڑاں شریف اور کوٹ مٹھن کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر نہ جانے کیوں سندھ طاس معاہدہ ہوگیا اور ہمیں ہمارے ہی دریاؤں سے محروم کردیا گیا۔

وہ کشتی جو کبھی ستلج کی ملکہ تھی، اس کشتی سے اس کا تحت (دریائے ستلج) چھین لیا گیا۔ دریائے نیل شاید افریقہ کے سات ممالک سے گزرتا ہے مگر کوئی ملک بھی اس کا رخ تبدیل نہیں کرتا۔ سب دریائے نیل کا پانی استعمال کرتے ہیں، بجلی بناتے ہیں اور اسے آگے بھیج دیتے ہیں مگر سندھ طاس معاہدہ شاید دنیا کا انوکھا ترین معاہدہ ہے جس کے مطابق ستلج، بیاس اور راوی کا پانی مکمل طور پر بھارت استعمال کرے گا۔ اس کی مرضی کہ وہ پانی آگے بھیجے یا نہ بھیجے۔ چناب، جہلم اور سندھ کا پانی پاکستان استعمال کرے گا اور یہ پانی بھی کہاں سے آتا ہے؟ بھارت سے۔ چناب پر بھارت پہلے ہی بہت سے چھوٹے بڑے ڈیم بنا چکا۔

چھوٹا منہ بڑی بات اگر ان پانچوں دریاؤں کا پانی دونوں ممالک استعمال کرتے، دریا بھی بہتے رہتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ اب جہاں ستلج بڑی شان سے گزرتا تھا وہاں صرف ریت کے بگولے اڑتے ہیں۔ جب ستلج نہ رہا تو اس کی ملکہ کیسے رہتی۔ ستلج کی ملکہ نے بھی تھوڑی عقل مندی کی۔ اپنا لباس تبدیل کیا اور ستلج کوئین سے انڈس کوئین بن گئی اور یوں یہ دریائے سندھ میں چلنے لگی۔ 1970 میں لگنے والی آگ نے بھی اس جہاز کو کافی نقصان پہنچایا۔

1995 تک یہ جہاز بڑی شان و شوکت سے دریائے سندھ میں چلتا رہا مگر اسے پھر روک دیا گیا اور کوٹ مٹھن کے قریب دریائے سندھ کے کنارے کھڑا کردیا گیا۔ اب سندھ کی یہ ملکہ بے چارگی کے عالم میں ریت میں دھنسی ہوئی کھڑی ہے۔ دریاؤں میں پانی کتنا ضروری ہے اور سندھ طاس معاہدے نے ہمیں کیا کیا نقصان پہنچایا ہے، اگر یہ دیکھنا ہو تو آپ انڈس کوئین کو دیکھ لیجیے۔

اب انڈس کوئین کی جانب صرف شوقین حضرات ہی رخ کرتے ہیں۔ پہلے لوگ انڈس پر سفر کرتے تھے، اب لوگ انڈس کوئین کی طرف سفر کرتے ہیں۔ تین منزلہ انڈس کوئین کی زیریں منزل پر جہاز کا انجن اور جنریٹر تھے جب کہ دوسری منزل مسافروں کے لئے مختص تھی جس میں مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ حصے تھے۔ بالائی منزل پر ہی دو واش روم بھی تھے۔ اب انڈس کوئین پر صرف اور صرف ریت ہے۔ وہ ریت جو ہمیں بار بار سبق دے رہی ہے کہ اے پیارے پاکستانیوں پانی کی قدر کرو اور میرے حال سے کچھ سیکھو مگر ہم بھی ایسے مست ملنگ ہیں کہ دوسروں سے کچھ نہیں سیکھتے بلکہ اپنی غلطیوں سے بھی نہیں سیکھتے۔ انڈس کوئین کو جی بھر کر دیکھا تو رخ سیدھا خواجہ غلام فرید کے مزار کی جانب کیا۔

ریڈیو پاکستان ملتان پر ایک نیا گلوکار مائیک کے آگے انتہائی سادہ لباس میں بیٹھا ہے۔ شاید ٹھیک سے اردو بولنا بھی نہیں جانتا۔ گمان ہے کہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں ہے۔ کسی بڑے نے اس گلوکار کو خواجہ غلام فرید کے دربار پر محفلِ سماع میں کچھ پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ نہ جانے اس بڑے سے اپنی زندگی میں کوئی اچھا کام سر زرد ہوا تھا یا نہیں مگر ایک اچھا کام قدرت نے اس سے ضرور لے لیا۔ اسی بڑے نے محفلِ سماع میں گاتے ہوئے اس نوجوان کو خواجہ غلام فرید کے دربار سے اٹھایا اور ریڈیو پاکستان ملتان کے ریکارڈنگ روم میں بیٹھا دیا۔

اب منظر کچھ یوں ہے کہ تقریباً کالا سا بکھرے بالوں والا لا ابالی سا سرائیکی نوجوان خواجہ غلام فرید کی کافی ’’میڈا عشق وی توں‘‘ گا رہا ہے اور سننے والوں پر وجد طاری ہے۔

ریڈیو پاکستان ملتان سٹوڈیو پر سکوت طاری ہے اور گھر میں بیٹھی عظمیٰ گیلانی خواجہ غلام فرید کی یہ کافی سن کر روتی چلی جا رہی ہے۔ کوئی اس نوجوان کا نام نہیں جانتا۔ کافی کی ریکارڈنگ کے بعد کسی نے اس گلوکار کا نام پوچھا تو اس نے معصومیت میں اپنا نام غلام محمد کی بجائے پٹھانے خان بتادیا اور وہ گلوکار پھر اسی نام سے مشہور ہوگیا۔ خواجہ غلام فرید کی کافی پڑھنے کے بعد سرائیکی نوجوان گائیک غلام محمد بہت پیچھے رہ گیا، پٹھانے خان بہت آگے نکل گیا۔

 فیض کا مقام اپنی جگہ مگر نورجہاں کی گائیکی نے فیض کی شہرت کو جو چار چاند لگائے، اس سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح بہت زیادہ چھوٹا منہ اور بہت بڑی بات کہ بلاشبہ خواجہ غلام فرید کا مقام اپنی جگہ بہت بلند، آپ کے مذہبی قد کو اگر ایک طرف بھی رکھا جائے تو بھی سرائیکی اور پنجابی ادب میں آپ نے جو مقام کافیاں لکھ کر پایا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر پٹھانے خان نے خواجہ غلام فرید کی کوفیوں کو گا کر جو امر کیا تو مجھ جیسے بہت چھوٹے لوگوں کو لگتا ہے کہ اس سرائیکی گائیک نے خواجہ غلام فرید کے قد کو مزید بڑھا دیا۔

پٹھانے خان نے شاہ حسین کی بھی کافیاں پڑھیں مگر جو شہرت انھیں ’’میڈا عشق وی توں‘‘ گا کر ملی، وہ سب سے جدا تھی۔ کم از کم میں تو اپنی شدید جوانی کے دنوں میں بھی خواجہ غلام فرید کے نام سے واقف تک نہ تھا مگر ’’میڈا عشق وی توں‘‘ کو ضرور جانتا تھا۔ وہ تو جب ذرا ہوش سنبھالا اور تھوڑی بہت ادب کی سمجھ آنے لگی تو تب جانا کہ یہ تو خواجہ غلام فرید کی کافی ہے۔

 خواجہ غلام فرید 25 نومبر 1845 میں بروز منگل چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے۔ اصل نام تو خورشید عالم تھا مگر شہرت خواجہ غلام فرید کے نام سے پائی۔ والد کا نام خواجہ غلام بخش تھا۔ چار سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوا جب کہ آٹھ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ فارسی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے چاچڑاں شریف کے علاوہ چولستان روہی، راجن پور اور ملتان میں بھی وقت گزرا مگر آخری عمر میں آپ کوٹ مٹھن منتقل ہوگئے۔ آپ کی سرائیکی شاعری کا کلام دیوانِ فرید کے نام سے مشہور ہے جس میں تقریباً 271 کافیاں ہیں۔

مصعب صاحب سے پتا چلا کہ کوٹ مٹھن میں بھی ریلوے اسٹیشن ہے جو ڈیرہ غازی خان ریلوے اسٹیشن کی طرح فی الحال متروک ہے۔ مٹھن کوٹ ریلوے اسٹیشن پر ملاقات ایک وسیبی دوست سے ہوئی ہے۔ ڈی جی خان، راجن پور، کوٹ مٹھن، چاچڑاں شریف سمیت اس پوری پٹی پر بہت سی ریلوے اسٹیشن ہیں جو 1973-74 میں تعمیر ہوئے۔ یہ ہماری ریلوے کی دفاعی پٹی ہے۔ پہلے پہل اس پٹی سے صرف خوشحال خان خٹک ایکسپریس گزرتی تھی مگر فی الحال وہ بھی بند ہے۔ اب سرکار کی طرف سے ان تمام ریلوے اسٹیشنوں پر ایک ایک چوکی دار تعینات ہے۔

خوش قسمتی سے میں نے ڈی جی خان، راجن پور اور مٹھن کوٹ کے ریلوے سٹیشن کا وزٹ کیا۔ تینوں پر جو چوکی دار تعینات تھے، ان سے ملا مگر مٹھن کوٹ والے کو اپنا دوست بنا لیا۔ کیوں؟ کیوں کہ تینوں ریلوے اسٹیشن کو حسبِ توقع بہت گندا اور گرد آلود ہونا چاہیے تھا۔ ڈی جی خان اور راجن پور ریلوے اسٹیشن تو میری امیدوں پر پورے اترے مگر مٹھن کوٹ ریلوے اسٹیشن انتہائی صاف ستھرا تھا جیسے ابھی ابھی صفائی کی گئی ہو۔ فرش پر جھاڑو لگانے کے بعد گیلا کپڑا بھی لگایا گیا تھا۔

بہت ہی زیادہ خوب صورت بات کہ ریلوے ٹریک کے ساتھ ہی قطار اندر قطار درخت کھڑے تھے جو کسی اور ریلوے اسٹیشن پر نہ تھے۔ استفسار کرنے پر معلوم پڑا کہ اسی وسیبی دوست نے یہ چھوٹے چھوٹے پودے لگائے تھے جو اب جوان ہو کر پورے درخت بن چکے ہیں۔

حالاں کہ آپ دیکھیں کہ سرکار کی طرف وہ یہاں صرف چوکیدار تعینات ہے۔ اسے نہ تو صفائی کے پیسے ملتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی مالی کی نوکری ہے مگر میرا یہ وسیبی دوست چوں کہ اپنی زمین سے جڑا ہوا ہے، اس لیے یہاں کی ہر شے کا خیال رکھتا ہے۔ کیسا پیارا ہے میرا وسیب اور کیسے پیارے ہیں میرے وسیبی واسی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں