تنوع، مساوات اور شراکت۔۔۔وقت اور حالات کی نزاکت       

مسلسل بدلتی دُنیا میں کام کی جگہ پر مختلف پس منظر کے حامل افراد کی شمولیت کو یقینی بنانا کام یابی کا نیا معیار ہے


ایاز مورس December 09, 2024
فوٹو : فائل

ترقی یافتہ اور پس ماندہ معاشروں میں بنیادی فرق سوچ اور چیزوں کو دیکھنے کے نقطۂ نظر کا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے انفرادیت اور مختلف ہونے اور تنوع کو قبول کرتے ہیں جب کہ پس ماندہ ملک، ادارے اور خاندان اس کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ پاکستان تاریخی لحاظ ثقافتی اور تنوع سے مالامال ہے جہاں مختلف زبانیں، ثقافتیں، مذاہب اور قومیتیں موجود ہیں۔ اس متنوع معاشرتی ڈھانچے میں تنوع، مساوات، اور شمولیت (Diversity Equity, and Inclusion - DEI) کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ یہ تصور نہ صرف انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے بلکہ ایک مضبوط، ہم آہنگ، اور کام یاب معاشرے کے قیام میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

یوں تو یہ عوامل صدیوں سے معاشروں کا حصہ ہیں لیکن، گلوبل ولیج اور انٹرنیٹ کی بدولت سکڑتی دُنیا میں مختلف تحریکوں اور معلومات نے تنوع کے نظریے کی افادیت کو اجاگر کیا ہے۔

تنوع

پاکستان میں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی لحاظ سے بھی پاکستان میں مسلمان، مسیحی، ہندو، سکھ، اور دیگر مذہبی اقلیتیں آباد ہیں۔ ان مختلف شناختوں کا تحفظ کرنا اور ان کو ایک ساتھ لے کر چلنا کسی بھی ریاست کے لیے ایک اہم چیلینج ہے۔ تنوع صرف مذہب یا زبان تک محدود نہیں بلکہ جنس، عمر، معذوری، اور سماجی و اقتصادی پس منظر جیسے عوامل بھی اس کا حصہ ہیں۔ معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام افراد کو برابری کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر سکیں اور ترقی کرسکیں۔

مساوات

 پاکستان میں مساوات کا تصور خاص طور پر کم زور طبقات کے لیے بہت اہم ہے۔ مثال کے طور پر، خواتین کو تعلیم اور روزگار میں وہ مواقع نہیں ملتے جو مردوں کو ملتے ہیں۔ حالاؓںکہ خواتین پاکستان کی نصف آبادی پر مشتمل ہیں اور ان کی شمولیت کے بغیر قومی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح مذہبی اقلیتوں کو اکثر تعلیمی، روزگار، اور دیگر مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ان کمیونٹیز کو ان کے مخصوص مسائل کے مطابق سپورٹ فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔

شمولیت

ہر فرد کو معاشرے میں شامل محسوس کروایا جائے اور کسی بھی شخص کو اس کی شناخت یا پس منظر کی بنیاد پر الگ تھلگ نہ رکھا جائے۔ یہ تصور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے اور افراد کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ پاکستان میں شمولیت کا تصور ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ معذور افراد کو تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر مکمل طور پر شامل نہیں کیا گیا، علاوہ ازیں نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جانی چاہییں جو طلباء کو مختلف ثقافتوں، مذاہب، اور شناختوں کو سمجھنے اور ان کی قدر کرنے کی تعلیم دیں۔

کارپوریٹ سیکٹر کا کردار

کارپوریٹ سیکٹر کو DEI کی پالیسیوں کو اپنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین، معذور افراد، اور اقلیتوں کو ملازمت کے یکساں مواقع فراہم کرنا اس کا ایک اہم حصہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں حال میںہی فاسٹ یونیورسٹی اسلام آباد کی جانب سے ایک شان دار ریسرچ شائع کی گئی ہے، جو پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر کے کردار کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس ریسرچ ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر سعدیہ ندیم، فاسٹ اسکول آف مینجمنٹ میں پروفیسر اور ڈین ہیں اور فاسٹ نیشنل یونیورسٹی (NUCES) میں مینجمنٹ ایڈوانسمنٹ ریسرچ سینٹر (MARC) کی ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 21 فی صد خواتین کام کرتی ہیں۔ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین ملازمت کریں۔ ہماری ریسرچ آرگنائزیشنز اور اداروں کو ایسے آئیڈیاز فراہم کرتی ہے جن کی مدد سے وہ خواتین کو بہتر ماحول مہیا کرسکیں۔ اس طرح خواتین اور ان کے خاندان ایک ایسا محفوظ اور سازگار ماحول محسوس کریں جس میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے متحرک رہیں۔ اس ضمن میں پورے معاشرے اور اداروں کو صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ خواتین کو ایسا ماحول دیا جائے جو انہیں گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی ترغیب دے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے بہتر مواقع اور ماحول فراہم کریں۔ اسی ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کے لیے ہدایات اور پالیسیز بھی جاری کی ہیں۔ تاہم، معاشرے اور اداروں کو مل کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ریسرچ کا مقصد یہی ہے کہ ادارے خواتین کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں جو ان کے کام کو موثر بنائے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے بہتر پوزیشنز حاصل کرسکیں۔

ڈاکٹر سعدیہ ندیم کہتی ہیں کہ یہ ریسرچ صنفی مساوات، تنوع، اور شمولیت کے موضوع پر مرکوز ہے، جسے تقریباً چار سال کی محنت کے بعد مکمل کیا گیا ہے۔ اس خیال کا آغاز 2019 میں ہوا، جب میں، پاکستان میں ’’جی ڈی ای آئی بی ایوارڈ‘‘ کی جیوری ممبر تھی۔ اس دوران مجھے مختلف اداروں کے صنفی مساوات اور تنوع کے حوالے سے کیے گئے عملی اقدامات کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس تجربے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم عام طور پر مغربی ممالک کے اقدامات کے بارے میں تو پڑھتے ہیں، لیکن پاکستان میں بھی کئی ادارے اپنی سطح پر صنفی مساوات اور تنوع کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ پاکستان کے اداروں میں ہونے والے بہترین اقدامات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے۔ یہ پریکٹس اگر ایک دوسرے تک پہنچائی جائیں تو ادارے اور افراد زیادہ موٹیویٹ ہوسکتے ہیں، اور یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی صنفی مساوات کے حوالے سے نمایاں کام ہو رہا ہے۔ بطور جیوری ممبر، میرے پاس جو معلومات تھیں، وہ امانت تھیں اور انہیں شیئر کرنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن اس خیال نے میرے ذہن میں ضرور جگہ بنائی کہ اس موضوع پر ایک ریسرچ ہونی چاہیے۔

جنوری 2020 میں، میں نے اس موضوع پر بات کرنا شروع کی اور جن سے بھی ذکر کیا، اُن سب نے اس خیال کو سراہا۔ خاص طور پر، یہ سوچ کہ اداروں میں بہترین پریکٹس کو دستاویزی شکل دی جائے تاکہ دیگر ادارے بھی ان سے سیکھ سکیں۔ فاسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں، ہمارے طلبہ اپنے فائنل پروجیکٹس میں مختلف موضوعات پر کام کرتے ہیں، جن کی نگرانی فیکلٹی ممبرز کرتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ پروجیکٹ طلبہ کے ساتھ مل کر کیا جا سکتا ہے۔

2021 کے آغاز میں، میں نے اس پروجیکٹ کے لیے فنڈنگ کی درخواست دی اور اپنی کلاس کے طلبہ سے بھی بات کی۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ اگر وہ اس پروجیکٹ میں دل چسپی رکھتے ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں۔ اس دوران، آئیڈیا پر گفتگو کرنا اور فنڈنگ کے لیے درخواست دینا ابتدائی مراحل تھے۔ تاہم، پروجیکٹ پر باقاعدہ کام یکم جون 2021 سے شروع ہوا۔ خوش قسمتی سے، مجھے چار طلبہ کا ایک نہایت قابل اور پرجوش گروپ ملا، جنہوں نے اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سفر نے نہ صرف میرے لیے بلکہ طلبہ کے لیے بھی سیکھنے کا ایک نیا دروازہ کھولا، اور ہم سب نے صنفی مساوات، تنوع، اور شمولیت کے حوالے سے پاکستان میں جاری اقدامات کو بہتر طریقے سے سمجھا اور دستاویزی شکل دی۔

 میں نے فیصلہ کیا کہ سب سے بہتر یہ ہوگا کہ یہ طلبہ اپنی چھٹیوں کے دوران کسی ایسی جگہ پر کام کریں جہاں تنوع اور شمولیت سے متعلق بہترین عملی مشقیں ہورہی ہوں۔ چناںچہ، میں نے کچھ ایسی تنظیموں سے رابطہ کیا جو اس میدان میں عمدہ کام کر رہی تھیں۔ ان تنظیموں نے تعاون کیا، اور چار طلبہ کو تین مختلف اداروں میں تقریباً دو ماہ کی انٹرن شپ کے مواقع فراہم کیے۔ یہ انٹرن شپ ہمارے ڈیٹا جمع کرنے کے منصوبے کا ایک ابتدائی حصہ تھیں، اور ان تنظیموں کو پہلے سے معلوم تھا کہ ہم ان سے فارمل طریقے سے ڈیٹا اکٹھا کریں گے۔ اگست 2021 سے، ہم نے تقریباً 40 سے 45 تنظیموں کو اپروچ کیا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم اس پروجیکٹ کے ذریعے بہترین عملی مشقوں کی مثالیں جمع کریں اور ان تنظیموں کے ناموں کے ساتھ ان مشقوں کو پیش کریں۔ ہم نے 19 تنظیموں میں انٹرویوز کیے، ان سے ان کے متعلقہ دستاویزات جمع کیے، اور GDEIB کے فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا کو ترتیب دیا۔ ہم نے تنظیموں کی عملی مشقوں کو 13 مختلف زمروں میں تقسیم کیا، جن میں شامل تھے۔ GDEIBسے متعلقہ وژن اور لائحہ عمل عملی اقدامات، قیادت کا کردار، ملازمین کی بھرتی، خواتین کو ملازمت پر برقرار رکھنے کے لیے اقدامات، کیریئر کی ترقی، کام اور زندگی میں توازن وغیرہ شامل ہیں۔

یہ تمام نکات GDEIB کے گلوبل اسٹینڈرڈز کے مطابق تھے۔ اس تحقیق کا پہلا مرحلہ، جسے ہم نے والیم ون کا نام دیا، جون 2022 میں مکمل ہوا اور اسی سال اکتوبر میں لانچ کیا گیا۔ جب ہم والیم ون پر کام کر رہے تھے، تو ہمارا ابتدائی ارادہ صرف ایک ہی والیم تک محدود تھا۔ تاہم، لوگوں نے اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کو مواقع فراہم کرنے کی کوششیں تو ہوتی ہیں، لیکن عملی اقدامات کے دوران متعدد چیلینجز سامنے آتے ہیں۔ اس لیے، بہترین عملی ہدایات دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان چیلنجز کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نقطہ تھا جہاں ہمیں دوسرے والیم کا خیال آیا۔ اداروں سے ملنے والے فیڈ بیک سے اندازہ ہوا کہ اس پہلو پر بھی کام کرنا نہایت اہم ہے۔ یوں والیم ون کی کام یابی کے بعد، ہم نے والیم ٹو کے لیے بھی منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ والیم ٹو میں ہم نے آرگنائزیشنز کی بجائے ان افراد پر توجہ مرکوز کی جو ان آرگنائزیشنز میں کام کر رہے تھے۔ ہم نے تقریباً 60 افراد سے بات چیت کی اور ان میں سے 25 تفصیلی انٹرویوز کیے۔ انٹرویوز کے لیے ہم نے ایک سوال نامہ تیار کیا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انہیں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ان چیلینجز کے اسباب کیا تھے، اور ان کے اثرات کیا تھے۔ جمع شدہ ڈیٹا کا ایک اکیڈمک سافٹ ویئر کے ذریعے تجزیہ کیا گیا اور 30 اہم چیلینجز کی نشان دہی کی گئی جو مختلف آرگنائزیشنز کے افراد نے بیان کیے تھے۔ یہ چیلینجز بنیادی طور پر ان مشکلات کو ظاہر کرتے ہیں جو آرگنائزیشنز کو اپنی صنفی تنوع کی پریکٹس کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آتی ہیں۔ والیم ٹو میں ان 30 چیلینجز کو چار بڑے گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر چیلینج کی وجہ تفصیل سے بیان کی گئی ہے، اور ساتھ ہی اس کے ممکنہ حل تجویز کیے گئے ہیں تاکہ آرگنائزیشنز موثر اقدامات اٹھا سکیں۔ اس رپورٹ میں رنگین تصاویر اور پرانے طرز کے کارٹونز شامل کیے گئے ہیں تاکہ اہم پیغامات کو آسان اور دل چسپ انداز میں پیش کیا جاسکے۔ والیم ون اور ٹو پی ڈی ایف فارمیٹ میں آن لائن دست یاب ہیں اور کوئی بھی انہیں مفت ڈاؤنلوڈ کر سکتا ہے۔ والیم تھری میں 12 ٹریننگ ماڈیولز شامل ہیں، جن میں غیرارادی تعصب، ورک لائف بیلنس، لیڈرشپ وغیرہ جیسے موضوعات پر ٹریننگ کے مواد کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس قسم کی کیس اسٹڈیز، ویڈیوز، آرٹیکلز، اور عملی سرگرمیاں ان ماڈیولز کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ اس میں 40 سے زیادہ ٹریننگ ریسورسز شامل ہیں، جن میں 10 اردو زبان میں تیار کردہ اینیمیڈ ویڈیوز اور 14 کیس اسٹڈیز شامل ہیں جو پاکستانی معاشرتی تناظر کے مطابق تحریر کی گئی ہیں۔ ہر ٹریننگ مواد کے ساتھ اس کے متعلقہ ٹریننگ گائیڈلائنز بھی فراہم کی گئی ہیں۔ ان تینوں والیم پر مشتمل ایک ایپ بھی تیار کئی گئی جو گوگل پلے اسٹور اور اپیل پلے اسٹور سے فری میں ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔ اس ریسرچ کا مقصد نہ صرف کارپوریٹ اداروں، بلکہ پبلک سیکٹر اور سماجی سطح پر خواتین کو سماجی اور معاشی ترقی میں شامل کرنا ہے، بلکہ معاشرتی ہم آہنگی میں خواتین کے کردار کے لئے شعور کو بھی اُجاگر کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں