سفر نامہ شام
کچھ یادیں،کچھ باتیں
مصنف: محمد جمیل تنولی، قیمت:300 روپے، صفحات:160
ناشر:ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور
رابطہ نمبر: (03004140207)
ملک شام عرصہ دراز سے خون میں نہایا ہوا ہے ، عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور خون بہے جا رہا ہے ، افسوس صد افسوس ان پر ہے جو ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں کیونکہ شام پر کسی بیرونی طاقت نے حملہ نہیں کیا بلکہ خانہ جنگی نے انبیاء کی اس سرزمین کو خون میں نہلا دیا ہے ، اب تک لاکھوں لوگ شہید ہو چکے ہیں مگر اصلاح احوال کی طرف معاملات بڑھتے دکھائی نہیں دیتے ۔ مصنف خوش قسمت ہیں کہ انھیں وہاں کا چپہ چپہ دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ اس سرزمین کے ہر چپے پر عظیم ہستیوں کی نشانیاں ہیں جن کی زیارت کرنے سے خدا یاد آ جاتا ہے ۔
دمشق شام کا دارالحکومت ہے جہاں قدیمی شہر میں اتنا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کئی روز تو اسی میں گزر جاتے ہیں ، ابتدا میں وہ اس علاقے کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں پھر مختلف تاریخی مقامات کا بیان ہے جیسے جامع مسجد دمشق، اعظم پیلس، التکیہ السلمانیہ ، سلطان نورالدین زنگیؒ کا مقبرہ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا مقبرہ وغیرہ ۔ اسی طرح دیگر مقامات کا سفر بیان کیا گیا ہے ۔ شام میں قیام کے دوران ہونے والی سرگرمیاں بھی تفصیل سے تحریر کی گئی ہیں جیسے مختلف تقاریب کا احوال جس میں انھوں نے شرکت کی یا ان کے ادارے کی طرف سے منعقد کی گئی ۔
اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا تذکرہ بھی ہے ۔ یوں یہ سفر نامہ کم اور معلومات کا خزانہ زیادہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ سفرنامہ میں عموماً فکشن نگاری سے کام لیا جاتا ہے اور رومانویت پیدا کرنے کے لئے عشق و محبت کی داستانوں کا سہارا لیا جاتا ہے ، مگر اس سفر نامے میں مصنف نے فکشن نگاری سے پہلو تہی کرتے ہوئے سب کچھ من وعن بیان کر دیا ہے مگر تحریر میں دلچسپی کا عنصر موجود ہے جس سے قاری معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بوریت بھی محسوس نہیں کرتا ۔ جیسے شام میں ایک پاکستانی بھکاری کا واقعہ ہے جسے مصنف نے بڑے اچھے طریقے سے سمجھایا اس کے بعد وہ وہاں نظر نہیں آیا ۔ بہت خوب سفر نامہ ہے ضرور مطالعہ کریں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
حکایتیں کیا کیا
مصنف: نوید چودھری، قیمت:300 روپے، صفحات:232
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
صحافت میں کالم نویسی کا شعبہ ایسا ہے جس کی تحریریں عوام و خاص کی فکر پر اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ کالم نویس مختلف دلیلوں سے کسی نہ کسی موضوع یا مسئلے کو سب کے سامنے پیش کر تا ہے چاہے انداز سنجیدہ ہو یا فکاہیہ، وہ اپنی سوچ کو بڑی خوبصورتی سے مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے، ظاہر ہے قاری کا اپنا بھی ایک انداز فکر ہے اب یہ اس پر ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ کالم سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے اگر لکھنے والے کی تحریر میں جان ہو ۔ رہ گئی بات ایسے افراد کی جو صرف نام کمانے کیلئے اس میدان میں اترتے ہیں ان کو تو کالم نویسوں میں شمار ہی نہیں کرنا چاہیے ۔
نوید چوہدری شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور خوب زور قلم رکھتے ہیں ، ان کے کالم سوچ کے در وا کرتے ہیں اور یہی کسی کالم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ ممتاز ادیب و کالم نگار عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں ’’ نوید چودھری اپنے غیر معمولی اوصاف اور کردار کے باعث مجھے پسند ہے۔ اس کے کالم وقتاً فوقتاً میری نظر سے گزرتے رہتے ہیں اور میں نے ہمیشہ اس کی دل پذیر نثر کا اپنے حلقہ احباب میں ذکر کیا ہے ۔
اب ان کالموں کو کتابی شکل میں ایک ساتھ پڑھنے کا موقع ملا ہے تو میری رائے اور بھی بہتر ہوئی ہے ۔ نوید ایک تجربہ کار اور صاحب معالعہ صحافی ہے ۔ حکومت ، سیاست اور اہل سیاست پر اس کی گہری نظر ہے ۔ عصری مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہے ۔ لہٰذا کالم نگاروں کی بھیڑ اور موضوعات کی یکسانیت میں اس نے اپنے لیے ایک الگ راہ نکالی ہے اور بلاشبہ اچھوتے کالم لکھنے میں کامیاب رہا ہے ۔ بہت کم کالم نگار ایسا کالم لکھ رہے ہیں جو کالم کی تعریف پر پورا اترتا ہے ۔ نوید چودھری سے مجھے اور زیادہ کی امید ہے ۔
مستقبل میں وہ معدودے چند اہم کالم نگاروں میں ایک ہو گا۔‘‘ ممتاز صحافی ارشاد احمد عارف کہتے ہیں ’’ زیر نظر کتاب میں نوید چودھری کا اچھوتا انداز تحریر ،تجزیاتی رنگ اور متوازن نقطہ نظر نمایاں ہے اور دوران مطالعہ قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا ہے ۔
نوید چودھری چونکہ اقبال ؒ اور قائدؒ کے شیدائی ہیں اور پاکستان میں حقیقی جمہوری، اسلامی اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کے خواہش مند ۔ اس لیے وہ لفظوں کی جگالی نہیں کرتے ہر بات کو کھل کر کہتے ہیں اور کہہ کر مکرتے نہیں ۔ ذہنی یکسوئی کی بنا پر ان کی تحریر ہر طرح کے جھول سے مبرا اور منافقت و ریا سے پاک ہے اور ازدل خیزد بردل ایزد کی مظہر۔‘‘ نئی نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ کالم گزرے وقت کی کہانیاں بھی سناتے ہیں جن سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔ دیدہ زیب کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
رنگ زندگی
مصنف : لطیف جاوید، قیمت:1200، صفحات:208
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
کوئی بھی تصنیف عموماً کسی ایک موضوع پر ہوتی ہے یا پھر موضوعات ہم رنگ ہوتے ہیں ۔ مگر زیر تبصرہ کتاب کی خوبی ہے کہ اس میں آپ بیتی بھی ہے کہانیاں بھی ، فکر و دانش بھی ہے اور دلچسپ باتیں بھی ہیں ، خود مصنف کہتے ہیں کہ اس کتاب کی ہمہ گیری اور ہمہ جہتی ملاحظہ ہو کہ اس میں ماجھا گاما، شبراتن ، میراثی ، چہور اور نائیوں جیسے معاشرتی زندگی کے معزز عوام الناس کے علاوہ معروف ہستیوں سقراط، بائی پیشیا، رازی ،برونو گلیلیو، اور راجر بیکن کے فکر نو کے رنگ بھی ملیں گے۔ قاری اس میں چٹ پٹی حماقتوں کے ساتھ سنجیدگی اور عمیق فلسفیانہ فکر بھی پائے گا۔
اسے انسانی زندگی کے درناک اور المناک واقعات کے علاوہ دلچسپ اور دلنشین قصے بھی ملیں گے اور ۔۔۔۔۔ وہ ان مظلوم روحوں کی پکار سنے گا جو چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہیں ۔ اے حضرت انسان بتا ، میرا قصور کیا تھا ؟ ۔ کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ باب اول کا عنوان ’ کہانیاں ان کی ‘ ہے جس میں آپ بیتی بھی ہے اور مختلف کہانیاں اور سچے واقعات بھی ہیں ۔ دوسرے باب کا عنوان ’میرا قصور کیا تھا؟ ‘ ہے جس میں علم و دانش کے موتی بکھیرنے والوں کا ذکر ہے ، تیسرے باب میں انسانی تمدن ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ،جینیاتی ٹیکنالوجی ، ہوائی اور خلائی ٹیکنالوجی وغیرہ کی ترقی پر تحریریں ہیں ۔
چوتھے اور آخری باب میں مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہونے والی تحریریں شامل کی گئی ہیں ۔ تمام مضامین بہت خوب ہیں ، قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے اور ہر مضمون شروع کرنے کے بعد ختم کر کے ہی دم لیتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے اپنے دل و دماغ میں موجود سب کچھ ہی پیش کر دیا ہے ، سچے واقعات تو اتنے دکھ سے بھرے ہوئے ہیں کہ قاری غم و اندوہ میں ڈوب جاتا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
تبصرہ نگار: ظفر سجاد
خواب اور سراب
مصنف: میاں اختر علی، قیمت:1800 روپے
ناشر: پرنور پبلشرز لاہور (03280059342)
’’خواب اور سراب‘‘ میاں اختر علی کی پہلی تصنیف ہے، یہ کتاب امریکہ کا سفر نامہ ہے ۔ نہایت معلوماتی کتاب ہے۔ ویزے کے حصول کیلئے درخواست سے لے کر امریکہ پہنچنے تک کی نہایت تفصیلات عام فہم زبان میں بیان کی گئی ہیں ، تاکہ قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔ لاس اینجلس ، کیلی فورنیا کے تمام قابل دید اور اہم مقامات کا اس طریقے سے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ کتاب مکمل گائیڈ بک بن چکی ہے ۔
میاں اختر علی نے شعوری کوشش کی ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات ، محسوسات اور جذبات کے حصار سے نکل کر معلومات فراہم کرنے تک کے مقصد تک محدود رہیں اور وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب بھی رہے ہیں ۔ انھوں نے اپنے مشاہدات کا ’’ فوکس‘‘ صرف اس بات پر رکھا کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں ابتداء سے لے کر انتہا تک کیلئے کن پالیسیوں کو اپنایا جاتا ہے اور یہ ممالک اپنی عوام خاص طور پر نئی نسل کی شخصیت کے نکھار کیلئے تدابیر بروئے کار لاتے ہیں ، انھوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بچوں کی تفریح کے تمام مقامات میں کس طرح بچوں کی آئندہ زندگی کیلئے تربیت کی جاتی ہے ، یہاں جا کر والدین کو بھی سبق ملتا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں کن امور پر توجہ دینی ہے ۔
میاں اختر علی نے اگرچہ توجہ اپنی تحریر میں طوالت کی بجائے اختصار کا راستہ اختیار کیا ، کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ، مگر تحریر اتنی جامع اور مکمل ہے کہ وقت کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ امریکہ کوئی طلسم کدہ نہیں ہے وہ بس ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔ جن کے حکمرانوں اور عوام نے ریاست کی ترقی میں اپنا اپنا کردار اچھے طریقے سے سرانجام دیا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
یادوں کے چراغ
مصنف: شکیل احمد ظفر
ملنے کا پتہ : مکتبہ عثمان بن عفان وہاڑی(03059023803)
مولانا شکیل احمد ظفر شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں، جب کہ اُردو مضمون نویسی میں بھی ایک معروف نام ہیں۔ بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں، جب بھی لکھتے ہیں کمال کر دیتے ہیں ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس میں یادوں کے گلدستے کو سجایا گیا ہے اور وہ یادیں ہیں، واقعات ہیں اکابر علماء کرام کی نسبتوں کے امین شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے۔ یہ اُن کی مکمل سوانح حیات نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں آپ رحمتہ اللہ کے اخلاق و کردار، اوصاف اور حسن معاشرت وغیرہ کے متعلق چند واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، جن کے لیے کہانی، مضمون، واقعہ اور ادبی شہ پارہ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
کتاب کی تقاریظ لکھنے میں چند بڑے نام بھی شامل ہیں جن میں مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا محمد زاہد انور، مولانا ولی خان المظفر، مولانا منظور یوسف قابل ذکر ہیں۔ تاثرات میں بھی بڑے اکابرین کے نام یہاں ابتداء میں موجود ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس کتاب میں شیخ مکرم رحمۃ اللّٰہ کا مختصر سوانحی خاکہ، آپ کے متعلق پاک و ہند کے نامور علماء کرام کے تاثرات، شعراء عظام کا کلام مزین کیا گیا ہے۔ واقعات سے پہلے کچھ تحاریر آپ کی زندگی و جدوجہد کا مختصر خاکہ پیش کرتی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔
والد صاحب کی رحلت کے کچھ عرصے بعد ہی والدہ صاحبہ بھی دار فانی سے کوچ کر گئیں آپ نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے، یتیمی کی زندگی میں تعلیم مکمل کی، بڑے اکابر علماء کرام سے استفادہ کیا، پنجاب کے ضلع وہاڑی میں نامساعد حالات میں جامعہ خالد بن ولید وہاڑی کی بنیاد رکھی، قومی خدمت کا بیڑہ اٹھایا اور پھر اس جامعہ کو ایک بہترین علمی ماحول فراہم کر کے عروج تک پہنچایا۔ یقیناً آپ رحمتہ اللہ با بصیرت عالم دین تھے، آپ رحمتہ اللہ کی (بچپن کی تربیت سے لے کر وفات تک کی زندگی) پہ لکھے ہوئے واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک عجیب سا سرور محسوس ہوتا ہے۔
دوران مطالعہ ان واقعات سے اپنے اندر ایک مثبت تحریک جنم لیتی ہے اور انسان کو اپنے عمل اور کردار کو مزید مثبت اور خوب صورت کرنے پہ آمادہ کرتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم اس کتاب کا مطالعہ کرے تو اس میں علم حاصل کرنے کا شوق مزید بڑھ جائے گا، قریب ماضی میں حضرت رحمۃ اللّٰہ کا ایسا ذوق و بلند ہمتی پڑھ کر امام ابو یوسف رحمۃ اللّٰہ، علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن الانباری رحمتہ اللہ جیسے عشاق علم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، ایک واقعہ ایسا بھی ہے جس کا مطالعہ کرتے ہی اساتذہ کرام کی عزت و احترام اور ان کی خدمت کے لیے جذبہ محبت میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ کے نصائح نقل کرتے ہوئے اسی بارے میں یہاں لکھا گیا ہے کہ ’’غلطی ہو جائے تو اساتذہ سے معافی مانگنے میں دیر نہ کیا کرو، یاد رکھو سب سے زیادہ آسان اللّٰہ کو منانا ہے پھر والدین کو اور پھر اساتذہ کو ۔۔۔‘‘
کتاب میں ایک بہت ہی پیاری نصیحت کی گئی ہے کہ ہر بات میں، ہر ارادے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا تذکرہ ضرور کرو۔ اس کی برکات زندگی میں نظر آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ، شیخ الحدیث رحمتہ اللہ کہیں بچوں کو نصیحت کر رہے ہیں تو کہیں انتظامیہ و مدرسین کو، کتاب کے آخری حصے میں آپ رحمتہ اللہ کی زندگی کے آخری ایام کا ذکر ہے۔ انہی بیماری کے ایام میں وہاڑی کے ایک ہسپتال میں بیماری کے باعث شیخ رحمتہ اللہ زیر علاج تھے۔
ان کے دو شاگرد مولانا محمد اسماعیل اور مولانا فخر قائمی، سخت سردی میں موٹر سائیکل پر ان کی عیادت کے لیے پہنچے۔ شیخ الحدیث رحمتہ اللہ نے فوراً ان سے موٹر سائیکل کے بارے میں سوال کیا، اور وضاحت پر ان کی سردی میں آمد پر فکر مند ہو گئے۔ بعد ازاں، وہ بیماری کے باوجود جامعہ پہنچ کر طلبہ کو بخاری شریف کا درس دینے لگے اور صحابہ و اہل بیت کے فضائل پر بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ اس دوران انہوں نے اپنے استاد حکیم العصر مولانا عبدالمجید لدھیانوی سے فون پر رہنمائی حاصل کی اور درس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔
شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ کے اس طرح کے خوب صورت واقعات ہمیں عاجزی، استاتذہ کی عزت، اور علم کی قدر و قیمت کے حوالے سے کئی سبق دیتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ کے چند قابل تقلید معمولات اور مبارک عادات کا ذکر بھی ہے۔ جن میں سے چند ایک یہاں بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے درج کر رہا ہوں۔ آپ اہلیت پسند اور میرٹ کے سخت پابند تھے، کوئی بھی ذمہ داری سونپتے وقت قابلیت کو مدنظر رکھتے تھے اور اس معاملے میں کسی رعایت کے قائل نہیں تھے۔ آپ ہمیشہ سفید لباس پہنتے اور دوسروں کو بھی سفید کپڑوں کی ترغیب دیتے تھے، کیونکہ یہ سادگی اور پاکیزگی کی علامت ہے۔ پگڑی باندھنے کا اہتمام کرتے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے، جو اسلامی ثقافت اور روایات سے آپ کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور شخصیت کا مطالعہ ہمیں عاجزی، اساتذہ کی عزت، علم کی محبت اور خدمت خلق جیسے اوصاف اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے اعلیٰ اخلاق، اہلیت پسندی، سفید لباس اور پگڑی کے اہتمام جیسے دیگر معمولات ہمیں اسلامی تعلیمات اور روایات سے جڑے رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شیخ مکرم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے یہ مبارک پہلو ان کے کردار کی بلندی اور ان کے علم و عمل کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
مصنف نے اپنی کتاب ''یادوں کے چراغ'' میں حضرت شیخ الحدیث کے اخلاق و کردار اور اوصاف کو نہایت عمدگی اور محبت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کا اسلوبِ تحریر قاری کے دل کو چھو جاتا ہے اور ہر واقعے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو ان لمحات میں موجود محسوس کرتا ہے۔ یہ کتاب صرف ایک سوانح حیات نہیں، بلکہ عملی زندگی کے لیے ایک سبق آموز رہنما ہے۔ مصنف نے یادوں کے ان چراغ کو اس خوب صورتی سے روشن کیا ہے کہ یہ قارئین کے دلوں میں علم، ادب اور تربیت کی روشنی پھیلانے کا سبب بنے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے جو علم، ادب اور اسلامی روایات سے محبت رکھتا ہے ۔