کوچۂ سخن

ہر سماعت نے تبھی تو مری عزت کی ہے  میں نے اک عمر اس آواز پہ محنت کی ہے


عارف عزیز December 09, 2024
فوٹو: فائل

غزل
ہر سماعت نے تبھی تو مری عزت کی ہے 
میں نے اک عمر اس آواز پہ محنت کی ہے
دوسری بار اسے دیکھنے والے نے اگر 
دوسری بار بھی دیکھا ہے تو ہمت کی ہے
جو پہاڑوں کی دعائوں پہ یقیں رکھتا تھا 
اس نے ٹیلوں کی طرح ریتلی ہجرت کی ہے 
اس قدر فائدہ دینے لگی زنجیر دراز 
میں نے زندان کے ہر گوشے کی بیعت کی ہے 
اونچا سنتے تھے جہاں لوگ وہاں چپ رہ کر 
غیر محسوس طریقے سے وضاحت کی ہے
دوڑ کر بات سنی تیری بجا لایا حکم
یہ الگ بات بہت دل نے شکایت کی ہے
شرم آتی ہے دیا کہتے ہوئے خود کو زمان ؔ
روشنی اتنی نہیں جتنی حرارت کی ہے
(دانیال زمان۔ خوشاب)

غزل
منافع کیا ہوا، کتنا خسارا، پوچھنا تھا
اسے کس غم نے مرقد میں اتارا، پوچھنا تھا
معافی چاہتا ہوں میں، تمہیں زحمت تو ہو گی
محبت کا وہ قصّہ پھر سے سارا پوچھنا تھا
قیادت نے گرانی کو جو استحکام بخشا
کرے مزدور اب کیسے گزارا، پوچھنا تھا
دیا اقبال نے تو مشورہ  نانِ جویں کا
میسّر کیوں نہیں اس کا بھی پارا، پوچھنا تھا
جہاں پر شیر، بکری اک جگہ پر رہ رہے ہوں
ہمیں تو بس وہی دریا کنارا پوچھنا تھا
عجب ہمدردیوں کا روگ لاحق ہو گیا ہے
معالج کا کوئی بتلاؤ، چارا پوچھنا تھا
کوئی انجم شناس اس شہر میں ہوتا تو ہو گا
کہ بس اپنے مقدّر کا ستارا پوچھنا تھا
تنے میں پیڑ کے پھر چھپ کے بیٹھا آج کوئی 
چلاتے کیوں نہیں ہو اس پہ آرا، پوچھنا تھا
ہمیں اس شاہزادی کا قصیدہ باندھنا ہے
رشیدؔ اس کے لیے کچھ استعارہ پوچھنا تھا
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

غزل
رزق جو دے رہا ہے پتھر میں 
اس کا مطلب خدا ہے پتھر میں
ٹھوکریں کھا کے چپ ہے رستے پر
صبر کی انتہا ہے پتھر میں
دشت سارا ہے دیکھنے آیا
پھول تازہ کھلا ہے پتھر میں
کون آیا ہے شہر الفت کو
مرحبا گونجتا ہے پتھر میں
یہاں مجنوں قیام کرتا تھا
نامِ لیلیٰ دکھا ہے پتھر میں
سرخ یاقوت یوں ہی تو نہیں ہے 
کربلا جو بپا ہے پتھر میں
اس کے بعد اس کو آنکھ کون کہے 
ایک آنسو بچا ہے پتھر میں
کس کے دستِ سخا کا فیض ہے یہ 
لا الہ کی صدا ہے پتھر میں
اینٹ کا یہ جواب دے لے گا 
اتنا تو حوصلہ ہے پتھر میں
صرف مٹی نہیں ہے اس کا وجود
آگ پانی ہوا ہے پتھر میں
تو مجھے ایڑیاں رگڑنے دے 
آب زمزم چھپا ہے پتھر میں
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)

غزل
یہ جو بھرا بھرا سا ہے سچ میں خلا نہ ہو
یہ کائنات اپنا کوئی واہمہ نہ ہو
میں اس کے مسئلے پہ کہاں شعر کہہ سکی
جس آدمی کے پاس کوئی قہقہہ نہ ہو
اس وقت ہاتھ تھامنا بنتا ہے میرے دوست
’’جب ہاتھ زندگی کا سرا آ رہا نہ ہو‘‘
ماں کی دعائیں لے کے چلی ہوں سفر پہ میں
وہ یوں کہ میرے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو
وہ آدمی تمام توجہ تو کھینچ لے
لیکن ہمارے ساتھ کہیں بھی کھڑا نہ ہو
ہم چڑھ رہے ہوں سیڑھیاں اثبات و خواب کی
ایسے میں کوئی شخص ہمیں دیکھتا نہ ہو
(اقرا انصاری۔ خوشاب)

غزل
کانچ کا ٹکڑا پڑا تھا دشت میں
یا مرا چہرہ پڑا تھا دشت میں
لگ رہا تھا وصل کی تدفین ہے
ہجر یوں بکھرا پڑا تھا دشت میں
اس کے قدموں کے نشاں محفوظ تھے
یوں لگا رستہ پڑا تھا دشت میں
میرے اندر تھل بسا تھا عشق کا
سو مجھے آنا پڑا تھا دشت میں
دشت بھی سارے کا سارا مجھ میں تھا
میں بھی تو سارا پڑا تھا دشت میں
ایک تنہائی بچھی تھی ریت پر
اور میں ٹوٹا پڑا تھا دشت میں
بھیڑ میں مجھ سے دلاسہ گم ہوا
میں نے جب ڈھونڈا، پڑا تھا دشت میں
دوستی بھی شاعری بھی عشق بھی
میرا ہر رشتہ پڑا تھا دشت میں
پرتوِ خورشید دھندلانے لگا
چاند کا سایہ پڑا تھا دشت میں
صرف میری ہی کمی تھی اے صفیؔ
جو بھی تھا ویسا پڑا تھا دشت میں
(افضل صفی۔ لیہ)

غزل
کب روتا، ہنستا، گاتا ہوں، یہ ناٹک ہے
میں روپ بدل کر آتا ہوںیہ ناٹک ہے
بڑھتی ہے دنیا آگے کو میں ایک طرف
پیچھے کو زور لگاتا ہوں یہ ناٹک ہے
وہ کہتی ہے خواہش ہے تم میں بھوک نہیں 
میں اس کو یہ سمجھاتا ہوں، یہ ناٹک ہے
تاریکی مجھ کا چاہیے میرا رزق ہے یہ 
جو موم خرید کے لاتا ہوں یہ ناٹک ہے
جب نیند سے جاگ کے بستر خالی دیکھوں تو 
میں اٹھ کے پھر سو جاتا ہوں یہ ناٹک ہے
(عدیل عباس عادل۔ خوشاب)

’’Meaninglessness‘‘
ہم سفر میں رہے اور لوٹے تو قبروں سے 
نام و نشاں مٹ گئے
ہم نے خانہ بدوشی میں گھر کے سبھی
راستے بھولنے کی جسارت تو کی
پھر بھی ناکامیوں سے الجھتے ہوئے
مات کھا ہی گئے
کس قدر کرب ہے
در کھلا ہے مگر
گھر تو ہے ہی نہیں
ہم مقفل حویلی میں جلتے ہوئے
وہ دیے ہیں جنہیں 
آندھیاں بھی بجھانے سے قاصر رہیں
تب ہمارے یقیں اور پختہ ہوئے
ہم کسی کھیل کے چھوٹے کردار ہیں
جن کے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق ہے
(سیف علی۔ لاہور)

’’ساعتوں کی نمائندگی اور ہم‘‘
سب کہانی کے کردار 
ہم پر نمایاں کہاں ہو سکے 
جن کو آخر میں ملنا تھا اک دوسرے سے 
کہاں کھو گئے 
 یونہی چلتے ہوئے اور بھٹکتے ہوئے 
 ہم بھی اس کارواں سے جدا ہو گئے 
جن کا ذکر آنے والی روایات میں یا کہانی میں تھا 
سب سنائی ہوئی لوریوں میں
پرندوں کے ٹوٹے پروں کا نشاں تک نہیں
پھر بھی ہم آج ٹوٹے دلوں کی 
کہانی سناتے ہوئے ایک بے معنی چپ
اور ٹھنڈے دلوں کی 
اساطیری خواہش کے اسرار میں کھو گئے 
زندگی
زندگی اور کیا ہے 
کہ پہلے پہل تم کو دیکھا تو 
ہم زندگی کے معانی سے واقف ہوئے 
کوئی بھی تو نہیں پا سکا 
آج تک 
رمزِ انسانیت 
 دم بخود کائناتوں میں اس کی اکائی 
اور کھائی میں وعدوں کے اگتے ہوئے پھول 
روشنی کی وساطت سے
 خوشبو میں پلتے ہوئے خواب ہیں 
خیر دوری میں پلتا ہوا ایک خواب 
جس میں تم اک ستارے کی مانند 
ارغوانی فلک پر نمودار ہونے لگی
زندگی ہم کو تلخی سے ہٹ کر بہانے لگی 
چار سو روشنی ہو گئی
اور جشنِ بہاراں میں پھولوں پہ اور پیڑوں پہ 
مسکراتی ہوئی نیند سر اٹھانے لگی 
ہم چلے جا رہے ہیں 
زمان و مکاں سے کہیں بے خبر
کہ ہم کو روایات اور 
خواہشوں کی اسیری وغیرہ سے 
باہر نکل کر 
کسی من چلی راہ پر 
تم سے ملنا بھی ہے 
اور روایات کی چکیوں میں،  
اسیری کی وابستگی میں 
ڈراؤنے خواب
 اور اس کے تاریک جنگل میں 
تم سے بچھڑنا بھی ہے 
(زاہد خان ۔تحصیل پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان)

غزل
بکھرا رہا ہوں کب سے بکھر ہی نہیں رہا
اک شخص میرے دل سے اتر ہی نہیں رہا
مدت سے محوِ خواب ہیں پیہم سفر میں ہیں
بیدار ہو کے دیکھیے گھر ہی نہیں رہا
وحشت سرائے کس کے لیے کھول بیٹھیے؟
جب آئنے کو عکس کا ڈر ہی نہیں رہا
رکھوں گا کس نیام میں شمشیرِ خود شناس
پگڑی کا کیا کروں گا جو سر ہی نہیں رہا
آنکھوں پہ چھا گئی ہے کدورت کی سرخ ریت
منظر کا حسن پیشِ نظر ہی نہیں رہا
بھر تو گیا ہے دید کا پیالہ وصال سے
میں کیا کروں کہ میرا جی بھر ہی نہیں رہا
کاشفؔ اک عمر ہوگئی سجدہ ہے در بہ در
میری جبیں کے واسطے در ہی نہیں رہا
(کاشف واصفی ۔خوشاب)

غزل
یہ قدرت کا قرینہ ہے دسمبر بیت جانے دو 
ابھی ڈوبا سفینہ ہے دسمبر بیت جانے دو 
وہی کعبہ کلیسا ہے وہی ہے جام ومینا بھی 
ابھی تو اور پینا ہے ،دسمبر بیت جانے دو 
سنا ہے ٹوٹ جاتے ہے دسمبر میں حسیں رشتے 
ہمیں توساتھ جینا ہے، دسمبر بیت جانے دو 
ترستا ہوں تیرے دیدارکولیکن ابھی چھپ ہوں 
دسمبر کا مہینہ ہے ،دسمبربیت جانے دو 
مجھے تو جون نے ارسلؔ دیا اک زخم ہے گہرا 
مجھے یہ زخم سیناہے ،دسمبر بیت جانے دو 
(ارسلان شیر۔ کابل ریور، نوشہرہ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں