میڈیا واچ ڈاگ آپریشن غزہ

اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر حملوں کے بعد مختلف ممالک کے پیکرز نے کم و بیش 1000 اسرائیلی سرکاری ویب سائٹس ہیک کرلیں


اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر مسلسل حملوں کے بعد مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیکرز نے کم و بیش 1000 اسرائیلی سرکاری ویب سائٹس ہیک کرلیں۔ فوٹو: رائٹرز

فون کی گھنٹی بجی اور موساد کا سربراہ یوں چونکا جیسے حماس نے گولہ داغ دیا ہو۔ فون پر اسرائیلی سیکرٹری دفا ع حلق کے بل چیخ رہا تھا۔ ''ہماری ویب سائیٹس پر حملے کی خبر میڈیا کو کس نے دی ۔۔ کس نے ان نیوز ویب والوں کو بتایا کہ Hacker's International Teamالمعروف HIT نامی ہیکرز کی تنظیم نے ہماری 500 سے زائد ویب سائیٹس کو ہیک کرلیا ہے ہے''۔

''سر سر سر آپ دھیرج رکھیں ۔۔ ہم اس کیس پر کام کر رہے ہیں''۔ موساد کا سربراہ رسمی سی تسلی سے بات ٹالنے لگا۔ ''کیا خاک کام کر رہے ہو تم، ان ہیکرز نے تو ہمارا کام ہی تمام کردیا ہے۔۔ معلوم ہے نا دفاعی ویب سائیٹس ہیک ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جانتے ہو؟ جانتے ہو اس کا مطلب؟ جیسے گھر کی چابی کسی اجنبی کو دے دی جائے۔ ہمارا میزائل سسٹم تک ان کے ہاتھوں میں جاسکتا ہے ۔ ہماری ساری حساس معلومات اور جو جاسوس سیٹلائٹس ہم نے ایران اور مشرق وسطی پر چھوڑ رکھیں ہیں ان سب کے Activation , ، Deactivation اور Self-Destruction Codes کوڈز تک انکے انگلیوں کے پوروں پر سمٹ آئے ہونگے ۔ اور ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ یہ کون ہیں، کس قومیت کے ہیں اور کیا مقاصد ہیں ۔ اور اگر یہ غزہ کا رد عمل ہے تو ہمارے پاس کیا ثبوت ہے؟

کیپٹن بورش نے کی بورڈ پر انگلیاں چلائیں تو اس کے سامنے اسرائیلی وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والی کم و بیش 500 ویب سائٹس کے ناموں کی لسٹ کھل گئی، ان ناموں کی لسٹ پچھلے دو سال سے HIT کے آرکائیوز میں پیدائشی نشان کی طرح محفوظ تھی ۔ آج وقت آن پہنچا تھا صیہونی ریاست کی سائبر اسپیس کی جڑوں کو کھودڈالنے کا۔ اب حد ہو چکی تھی ۔ پندرہ دن میں 583 فلسطینوں کو شہید کردیا گیا اور امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن فلسطینوں کی نعشیں دیکھ کر اُن کے منہ سےسوائے مذمت کے کچھ نہ نکلا تھا ۔ لیکن اب وقت مذمت کا نہیں مرمت کا تھا۔یہ وائرس ترک ، ایرانی اور پاکستانی سافٹ وئیر انجینئرز کی ہائی ٹیک ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

اس کی سب سے خطرناک اہلیت اس کی سادگی تھی۔ اس کو استعمال کرنے کا طریقہ اس قدر آسان تھا جیسے گوگل کو استعمال کرنا بس کسی بھی ویب سائیٹ کا نام اس میں درج کردو، ویب سائٹ پر استعمال ہونے والی پروگرامنگ ٹائپ اس میں فیڈ کرواور پھر کچھ انتظار۔ اس کے بعد یہ وائرس متعلقہ ویب سائٹ پر موجود، ایڈمنز کے نام، یوزر آئی ڈیز ، پاسورڈز، اس ویب سائیٹ پر بنے تمام ای میل اکاونٹس اور ان کے پاس ورڈز، ان کے ڈیٹا بیس کی مکمل معلومات اور ان کے ویب کنٹرول پینل کی ساری انفارمیشن اپنے پاس کاپی کر لیتا تھا۔ جیسے کسی تجوری کی چابی۔ ایرانی نژاد میجر رامش HIT کی ٹیم میں Infected کے نام سے مشہور تھا۔ جس کا کام ان سب معلومات کو مہارت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ویب سائٹس کو کریک کرنا اور اپنے ممکنہ نشانات مٹانا تھا اور وہ اس کام میں ید طولی رکھتا تھا۔ کیپٹن بورش کا کام ختم ہو چکا تھا اسرائیل کی وزارت دفاع ان کی مٹھی میں تھی ۔۔ بس اب اسے مسلنا باقی تھا۔ ان کا آپریشن پایہ تکمیل کو پہنچ رہا تھا۔ میجر رامش نے اسکرین پر ابھرے ''لانچ'' کے بٹن کو کلک کردیا ۔ وائرس نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔ ویب سائیٹس کی صفائی اور ڈیٹا کی دھلائی بیک وقت روبہ عمل تھی ۔

تیز سائرن کی آواز کے ساتھ اسرائیلی وزارت دفاع کے آپریشن روم میں موجود مانیٹر اسکرینز پر HIT کا مخصوص مونو گرام ابھر آیا۔ یہ اس بات کا واضح الارم تھا کہ اسرائیلی وزارت دفاع کے ماتحت آنے والے ساری سرکاری اور نیم سرکاری ویب سائٹسHIT کے نرغے میں آچکی ہیں۔ اسرائیل کی سائبر تاریخ میں پڑنے والا اب تب کا سب سے بڑا جھٹکا ایک رات میں کم و بیش ایک ہزار ویب سائیٹس کا تیا پانچہ۔

نوٹ :خبروں کے مطابق نومبر ۲۰۱۲ کی اس رات اسرائیلی سرورز پر موجود تقریبا ہزار ویب سائٹس کو ہٹ کیا گیا۔ ایک رات اور ایک ہزار ویب سائٹس ۔ اسرائیلی دفاعی حکام اپنے میڈیا کو صفائیاں دیتے دیتے ہلکان ہوگئے اور ان کی معلومات پر HIT نے ہل چلادیا۔۔مجبور ہو کر اسرائیل کے ایک آفیشل کو یہ بیان دینا پڑا" ہمیں یہ سائبر جنگ کا سدباب کرنا ہوگا ورنہ اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان ہوجائے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں