خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں 6 اور 7 دسمبر کو تین علیحدہ کارروائیوں کے دوران 22دہشت گرد خوارج جہنم واصل کردیے گئے ہیں،دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران سیکیورٹی فورسز کے 6 جوان شہید ہوگئے ہیں۔
وطن عزیز پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔دنیا کے کسی اور ملک میں دہشت گردی کے خلاف نہ تو اتنی طویل جنگ لڑی ہے اور نہ ہی اتنی قربانیاں دی ہیں۔پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز نے ایک نہیں،کئی بار دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، امن دشمنوں کے ٹھکانے تباہ کیے اور معاشرے کی جڑوں میں سرایت کرچکے ان عناصر کا قلع قمع کیا لیکن آج بھی بدقسمتی سے ہمسایہ ممالک کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ سیکیورٹی فورسز رہی ہیں، اس کے باوجود جس عزم و ہمت کے ساتھ وہ آپریشنزکر رہی ہیں وہ یقیناً قابل تعریف ہے اور پوری قوم کے لیے اُمید کی کرن بھی۔ اس وقت پنجاب اور سندھ میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی کی اصل وجہ حکومتی رِٹ ہے جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی سے نبرد آزما رہا ہے، چند سال قبل وہ اِس پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا تھا، تاہم تین سال قبل اِس نے ایک بار پھر سر اُٹھانا شروع کردیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی و مالی ہر قسم کا نقصان اٹھایا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں امن قائم ہو، کہیں دہشت گردی کا خطرہ نہ ہو، بین الاقوامی سرمایہ کار بھی تب ہی ملک کا رُخ کرتے ہیں جب ماحول سازگار ہو۔
یہ بات تو طے ہے کہ اگر پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا تو آج معیشت کا بھی یہ حال نہ ہوتا۔ دہشت گردوں نے ملک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، معاشی خوشحالی کے مخالفوں نے سی پیک کو لپیٹنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا۔ کئی چینی ماہرین خود کش حملوں میں جاں بحق ہو گئے، ہو سکتا ہے چین کے سوا کوئی دوسرا ملک ہوتا تو وہ اب تک اس پروگرام کو لپیٹ کر اپنے ماہرین واپس بُلا چکا ہوتا لیکن چینی اب تک دوستی کی لاج رکھے ہوئے ہیں اور سی پیک کی تکمیل کے لیے پُرعزم ہیں۔
عالمی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ہم نے اپنے وجود میں کتنی دراڑیں ڈال لی ہیں۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو سوائے ایک حسرتِ ناکام کے اورکچھ بھی نظر نہیں آتا۔ جس افغانستان کو روس کے چنگل سے نکالنے کے لیے ہم نے قربانیاں دی، وہ افغانستان تو آج ہمارے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے کیوں کہ سارے دہشت گرد وہیں پناہ لیتے ہیں۔ ہم افغانستان کو غیر ملکی چنگل سے نکالنے کے لیے فرنٹ لائن بنے۔ روس کے خلاف ہم نے افغانستان کی بھرپور مدد کی ۔ یہ پرائی جنگ تھی۔ اس قسم کی جنگوں کی وجہ سے قوم کولہو کا بیل بن کر رہ گئی۔ دہشت گردی کی اس جنگ سے نکلنا اب ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
اس وقت کچھ طاقتیں مذاکرات سے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں تو کچھ کا خیال یہ ہے کہ طاقت کی زبان میں بات کی جانی چاہیے۔ یہی متضاد سوچ دہشت گردوں کو تقویت دے رہی ہے۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری قوم کو ایک پیج پر متحد ہونا ہو گا۔ سوچ میں یک جہتی اور اتحاد کا یہ فقدان بھی آج کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے بہت دور تک نظر آتے ہیں۔ پوری قوم کی بقا اور ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا جائے۔ کسی بھی حکومت کو اس سے نظریں چرا کر آگے نہ بڑھنا چاہیے بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اسے ختم کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔اس کوشش کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے کہ سوچ اور نظریئے میں ابہام نہ پیدا کیا جائے۔
وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کو ترجیحات میں شامل کر کے اسے حل کرنے کا عزم ظاہرکیا ہے ۔ اُس کے لییاس نے جو حکمت عملی اختیارکی ہے، وہ یقیناً کارگر ثابت ہو گی، کیونکہ اب حالات کو جوں کا توں رکھنے کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔ کیا عجب کہ جو بات اس وقت حکومت کی کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے وہی کارآمد نتائج لائے، جیسا کہ آہستہ آہستہ ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس وقت دہشت گرد پُرانے کے ساتھ نِت نئے طریقے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جنھیں سمجھنا اور اُن کا توڑ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کے یہ دشمن ایکسپلوسیو (دھماکا خیز مواد)، انجینئرنگ، جاسوسی، رابطہ کاری (کمیونی کیشنز) کی جدید سہولتوں اور مائنڈ سائنسزکی جدید تیکنیک استعمال کرنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جائے تو بہت کچھ سمجھنے اور سوچنے کو ملتا ہے۔ چارٹ اور گراف بنائیں تو پتا چلتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ابتدا میں انھوں نے غریب نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو مدارس میں اِس لیے داخل کرا دیتے ہیں کہ انھیں دینی تعلیم کے ساتھ روٹی اورکپڑے کی سہولت بھی مفت حاصل ہو جائے گی۔ ایسے غریب طلبا پر توجہ مرکوز رکھی گئی، مگر یہ بات واضح ہو گئی کہ سوائے چند ایک کے زیادہ تر مدارس کے طلباء دہشت گردی سے دور رہے اور کسی کے آلہ کار نہیں بنے۔دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آ جاتے ہیں تو انھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔
اب آگے بڑھ کر جامعات اور کالجز کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔دہشت گرد جماعتیں بے روزگار نوجوانوں کا برین واش کرکے ان کو ملک دشمنی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ بے روزگار، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کا احتجاجی مظاہروں میں انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کی مجبوریوں اور دیگر مسائل کا پتا لگا کر انھیں استعمال کرتے ہوئے ان نوجوانوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کے انتخاب اور انھیں مائل کرنے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کار، سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے رابطے کرتے ہیں۔
اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ دہشت گردوں نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان تک رسائی کر کے انھیں گمراہ کرتے، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے اور راستے سے بھٹکاتے ہیں۔ بدقسمتی سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان گمراہی کے اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ نوجوانوں کو اس انتہائی غلیظ راہ پر چلنے سے بچانے کے لیے صوبائی حکومتوں کو کالجز اور جامعات کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بھی مربوط حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے ان عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی اور فوری نوعیت کی سزائیں دی جاسکیں۔ مزید اقدام کے طور پر بِلاتخصیص تمام مذہبی و غیر مذہبی تعلیمی اداروں پر نظر رکھنا ہو گی۔ اسی طرح بِلاتخصیص تعلیمی اداروں اور مدارس کو ملنے والے تمام غیرملکی فنڈز کا بھی آڈٹ کیا جائے، لیکن یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ اس ملک میں یہ تمام اقدامات اب ناممکن نہیں تو نہایت مشکل کام ضرورہوگیا ہے۔ اگر غیرملکی فنڈزکو روکا بھی جائے جو بجائے خود ایک مشکل کام ہے تو پھر بھی حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
دہشت گردی کے جن کو ہر صورت بوتل میں واپس بند کرنا ہے، اسے جڑ سے ختم کرنا ہے تاکہ کبھی ملک کو اس عفریت کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اس کے لیے سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ سانحہ پشاور کے بعد ملکی قیادت اور قوم جس طرح ڈٹ گئی تھیں آج بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی کی ذاتی جنگ نہیں ہے بلکہ ملکی بقاء کی لڑائی ہے جسے سب کو مل کر لڑنا چاہیے، دشمن ہمیشہ اندرونی ناچاقیوں اور تقسیم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، یہ بات جتنی جلد سمجھ لی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔