اب بھی پہلے والا لاہور نہیں
شریف فیملی نے اپنے اقتدار میں شہر لاہور کو جو ترقی دلائی تھی اس کا مقابلہ کوئی حکمران خاندان نہیں کر سکتا، البتہ ملتان سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے آبائی شہرکی حالت بدلنے کی ضرور کوشش کی تھی جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ملتان میں متعدد اوور ہیڈ برج اور سڑکیں بنیں مگر یوسف رضا گیلانی پر یہ الزام نہیں لگا تھا کہ انھوں نے سارے پنجاب کا فنڈ ملتان پر لگایا۔ ملتان بہت بہتر ہوا، وہاں ترقی بھی ہوئی جس کی وجہ سے آج گیلانی فیملی پارلیمنٹ میں موجود ہے جب کہ وہ خود سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔ ان کے حریف شاہ محمود قریشی کے والد گورنر پنجاب رہے اور وہ خود پی پی اور پی ٹی آئی حکومت میں وزیر خارجہ رہے اور وہ سجادہ نشین پیر بھی ہیں مگر انھوں نے ملتان کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جو یوسف رضا گیلانی نے اپنے شہر کی ترقی کے لیے کیا تھا۔
جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو اس وقت بھی میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ شریف فیملی کو یہ منفرد اعزاز ضرور حاصل ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد ان کے بھائی شہباز شریف کی پنجاب میں طویل عرصہ مضبوط حکومت رہی۔ کچھ عرصہ میاں شہباز شریف کے بعد ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی وزیر اعلیٰ رہے جب کہ وفاق میں شہباز شریف وزیر اعظم تھے جب کہ ان کی اپنی وزارت اعلیٰ میں نواز شریف دو بار وزیر اعظم رہے اور اب نو ماہ سے نواز شریف کی صاحبزادی پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور ان کے چچا وزیر اعظم ہیں اور شریف فیملی کے چاروں حکمرانوں کے اقتدار کا آغاز پنجاب سے ہوا تھا۔
1990 میں بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ان چاروں نے بلاشبہ اپنے شہر کے لیے وہ کچھ کیا جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اپنی حکومت میں لاڑکانہ کے لیے اور صدر آصف زرداری نے اپنے شہر نواب شاہ کے لیے نہیں کیا۔ آج بھی پیپلز پارٹی کی سندھ میں چوتھی حکومت ہے مگر لاڑکانہ اور نواب شاہ کو نظرانداز کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد سندھ کی پہلی پی پی کی حکومت نے صرف یہ کیا تھا کہ ضلع نواب شاہ کا نام بدل کر ضلع بے نظیر آباد رکھا اور بعد میں یہ ڈویژن بھی بنایا گیا۔
شریف فیملی نے اپنے شہر لاہور پر خاص توجہ دی تھی جہاں آج بے شمار اوور ہیڈ برج اور انڈرپاس، خوبصورت وسیع سڑکیں، اچھے پارک ہیں اور لاہور میں میٹروبس سروس اور اورنج ٹرین بھی شریف فیملی نے بنوائی۔ لاہور شہر کے اندرونی علاقوں کی حالت بھی شریف فیملی کے دور میں بدلی جب کہ لاہور کی بڑی سڑکوں کا مقابلہ صرف اسلام آباد سے کیا جاسکتا ہے جب کہ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی آج بھی لاوارث ہے جو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے شہر ملتان تو کیا چھ ماہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے محسن نقوی کے شہر جھنگ سے بھی بدتر ہے۔
کراچی میں اگر کچھ ترقی ہوئی تو وہ سٹی ناظمین جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کے دور میں ہوئی مگر اس کا اصل سہرا کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر جنرل پرویز مشرف کے سر ہے جنھوں نے کراچی سٹی حکومت کے دونوں سٹی ناظمین کو وفاق سے نہ صرف بڑی مقدار میں فنڈز دیے تھے اور وہ خود بھی کراچی کی ترقی میں دلچسپی لیتے تھے۔
لاہور کی ترقی شریف فیملی کی کوششوں کا نتیجہ تھی جس کو پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب حکومت کی نظر لگی حالانکہ اس کے وزیر اعظم کا تعلق زمان پارک لاہور سے تھا جنھوں نے سیاست میں آنے سے قبل اپنی کرکٹ کی مقبولیت کے باعث اندرون ملک و بیرون ملک عطیات کے ذریعے لاہور میں کینسر اسپتال ضرور بنایا اور پونے چار سالوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں لاہور کو ترقی کیا دیتیں انھوں نے شریف دور کی لاہور کی ترقی اور خوبصورتی تباہ کرا کر لاہور کو اندھیروں میں دھکیلا اور لاہور کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ لاہور کو شریف فیملی کا شہر سمجھ کر برباد کرنے، شہری مسائل بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جس کے لیے تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کا انتخاب کیا تھا جو نام کا وزیر اعلیٰ تھا اور پنجاب کی حکومت بنی گالا سے چلائی جاتی تھی۔
پی ٹی آئی حکومت میں لاہور کے ارکان اسمبلی کا تعلق لاہور شہر سے تھا اور ان کے متعدد وزیر بھی لاہور کے تھے مگر اس وقت کے وزیر اعظم سمیت پی ٹی آئی اور اس کے لاہور کے وزیروں اور ارکان اسمبلی نے لاہور کو تباہ کرانے میں مجرمانہ غفلتوں کا مظاہرہ کیا۔
پی ٹی آئی دور لاہور کے لیے سیاہ دور تھا جس کے نتیجے میں لاہور کی ترقی روکی گئی۔ شہر کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل اور تاریک ہوتا رہا۔ لاہور کے اندرونی علاقوں پر توجہ ہی نہیں دی گئی اور شریف فیملی حکومت میں بنائی گئی مضبوط سڑکوں نے لاہور کی ضرور لاج رکھی۔ رات کو لاہور کی اہم شاہراہیں اندھیرے میں ڈوبی رہتیں۔ اہم شاہراہوں کے اطراف سبزہ اور پھول اجڑ گئے صرف زمان پارک کے اطراف کی سڑکیں اور علاقہ بہتر تھا۔ عثمان بزدار حکومت کے بعد پرویز الٰہی دور میں لاہور پر دوبارہ توجہ مرکوز ہوئی تو بانی پی ٹی آئی نے پنجاب اسمبلی تڑوا دی اور نگراں دور میں وزیر اعظم شہباز شریف کی توجہ سے لاہور پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوا مگر پی ٹی آئی حکومت نے لاہور کے ساتھ جو دشمنی کی تھی وہ ختم ہوئی اور فروری کے بعد شریف فیملی کی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز نے لاہور کو ترقی کی راہ پر ضرور گامزن کر دیا ہے مگر آٹھ نو ماہ کی کوششوں کے باوجود وہ لاہور نہ بن سکا جو 2018 کی شریفوں کی حکمرانی میں تھا۔
راقم الحروف نے نومبر میں12 روز میں اسموگ اور شہر کی حالت دیکھی، لاہوریوں نے حکومتی پابندیاں ہوا میں اڑائیں۔ رات کو روشنی محدود کر کے کاروبار جاری رکھا۔ کوئلوں پر تیار ہونے والے کھانوں کے دھوئیں میں کباب تکے اڑائے جاتے رہے۔ سرعام مونگ پھلیاں بھون کر دھواں بڑھایا جاتا رہا اور اسموگ میں اضافہ کیا گیا۔ لاہور کی سڑکیں کراچی سے لاکھ درجے بہتر نظر آئیں مگر اسٹریٹ لائٹس روشن کرکے لاہور کو روشنیوں کا شہر نہ بنایا جاسکا مگر بلدیہ عظمیٰ لاہور کی توجہ اب شہر پر ضرور ہے مگر کام بہت باقی ہے۔