انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے سماجی شعورپیدا کرنا ہوگا!!

حکومت تنہا مسائل حل نہیں کرسکتی، سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا

 انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ عکاسی: وسیم نیاز

10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

اس دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قائین ہے۔

سردار رمیش سنگھ اروڑا

(وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

ہم کل انسانی حقوق کا عالمی دن اور چند روز بعد کرسمس منائیں گئے جبکہ کچھ عرصہ قبل دیوالی کا تہوار منایا ، یہ ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے ۔ انسانی حقوق کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ حقوق کیا ہیں۔گھر سے لے کر دفتر تک، بہت سارے انسانی حقوق ہیں اور بہت جگہ ان کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جس میں ٹریفک، دھواں چھوڑتی گاڑیاں، پانی سمیت دیگر شامل ہیں۔تحریک پاکستان کا جائزہ لیں تو یہ انسانی حقوق کی تحریک ہے۔

مسلمان مظالم کے خلاف کھڑے ہوئے کہ ان کے حقوق صلب کیے جارہے ہیں، انہیں عزت نہیں مل رہی، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے لہٰذا انہیں اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک آزاد اور الگ وطن چاہیے ۔ 1940ء کی قرارداد میں یہی تقاضہ کیا گیا۔ اسی طرح مارٹن لوتھر کنگ کی سول رائٹس کی تحریک بتاتی ہے کہ کس طرح امریکا میں سیاہ فام کے ساتھ نارروا سلوک کیا گیا تھا اور اب سیاہ فام بھی امریکی صدر منتخب ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا سوشل فیبرک تباہ کر دیا گیا ۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں فرقہ بندی، سیاست، نسلی، علاقائی تعصب و دیگر شامل ہیں۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ ان اقدار کو فروغ دیا جائے جو اس خطے میں غالب رہی ہیں اورجن کی وجہ سے یہاں لوگوں نے زندگی اور آپسی تعلقات کا لطف اٹھایا ہے۔ ہمیں رواداری، مساوات، برداشت، اخوت، بھائی چارہ، میل ملاپ، امن و دیگر اقدار کو اپنانا ہوگا۔ بدقسمتی سے آج ہمارے مسائل سنگین ہوچکے ہیں۔

ایسے میں حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں  کہ سب اچانک ٹھیک ہوجائے۔ حکومت تنہا کچھ نہیں کرسکتی بلکہ عوام کی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ عوام کے بغیر حکومت کچھ نہیں ہوتی۔ ہمیں سول سوسائٹی کا تعاون حاصل ہے جو اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ معاشرے میں اکیڈیمیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اکیڈیمیا ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا، ہمیں ریسرچ کرکے نہیں دے گا، اپنے نصاب کو اپ گریڈ نہیں کرے گا، اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا نہیں کرے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اکیڈیمیا کو یہ ریسرچ کرنی ہے کہ ہمارا جو سوشل فیبرک تباہ ہوا ہے اسے کس طرح ٹھیک کرنا ہے، نوجوانوں کو کس طرح کی تعلیم دینی ہے کہ وہ معاشرے کا کارآمد شہری بنیں اور ریاست کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھیں۔ جب ہماری حکومت بنی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اسمبلی میں اپنا 5 سالہ روڈ میپ دیا توا س میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق ترجیحات میں شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرا خواب ہے کہ جب اقلیت رات کو سوئے تو اس میں ڈر اور خوف نہ ہو۔ یہ درست ہے کہ ملک میں اقلیت اور دیگر محروم طبقات کے حقوق کی کہیں نہ کہیں پامالی ہو رہی ہے اور حکومت کو اس کا ادراک ہے، اسے دور کرنے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس میں معیاری تعلیم، صاف پانی، صاف فضاء و دیگر حقوق شامل ہیں۔ ہماری حکومت صاف ماحول جیسے بنیادی حق کیلئے بھی کام کر رہی ہے جس میں سموگ کا تدارک سرفہرست ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا وژن میرے لیے رہنما ہے۔ میں نے وزارت سنبھالتے ہی اپنے محکمے کو تنہائی سے نکالا۔ بدقسمتی سے ہمارے نظام میں انسانی حقوق ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہے۔ میں وزیراعلیٰ پنجاب کا مشکور ہوں جنہوں نے اس محکمہ کو مین سٹریم میں لانے میں بہت سپورٹ کیا اور اب ہمارا محکمہ صوبے بھر میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

ہم انسانی حقوق کا دن منانے جا رہے ہیں۔ 20 تاریخ کو وزیراعلیٰ پنجاب اقلیتوں کیلئے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سکیم کا افتتاح کر رہی ہیں، یہ ’منارٹی کارڈ‘ سکیم ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جسے محروم رکھا گیا۔ دوسرا طبقہ ایسا ہے جس نے سسٹم کے خوف کی وجہ سے خود کو سسٹم سے دور رکھا۔ ہم ایسے طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سول سوسائٹی کے تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں، لوگوں کی کپیسٹی بلڈنگ کی جا رہی ہے۔ ہم پنجاب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور اس بارے میں وزیراعلیٰ پنجاب کی واضح ہدایات ہیں۔

ہم صرف قانون سازی یا اس پر عملدرآمد پر ہی توجہ نہیں دے رہے بلکہ تمام ڈویلپمنٹ سکیموں میں اقلیتیں، خصوصی افراد، خواجہ سراء سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی شمولیت یقینی بنائی جا رہی ہے۔ ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے جسے تعلیم، صحت سمیت بڑے مسائل درپیش ہیں۔ حکومت ان کیلئے کلینک آن ویلز، ٹرانسپورٹ سمیت بڑے منصوبے لا رہی ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کیلئے وظائف اور آمد و رفت کیلئے ای بائیکس دی جا رہی ہیں۔ہمارے ایجنڈے میں انسانی حقوق اور اقلیتی حقوق اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔

ہمارے پانچ سالہ پلان میں شامل ہے کہ ہم نے ایسی بنیادیں قائم کرنی ہیں جو ملک کی عمارت کو مضبوط بنا سکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے منصوبے شارٹ ٹرم یا پانچ برسوں میں ختم ہونے والے نہیں، بلکہ ان کے اثرات دیر پا ہیں۔ جو ہمارے معاشرے کی کردار سازی کریں گے۔ جب ہم 2047ء میں اپنے سو سال منائیں گے تو یہ منصوبہ بندی اور اقدامات اس میں مشعل راہ کے طور پر جانے جائیں جو پاکستان کو ترقی پزیر اور مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے بجائے ترقی یافتہ اور لیڈر ملک بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

ہم نے گزشتہ 9ماہ میں تعلیم، صحت، انصاف، پولیس، زراعت، لائیو سٹاک، انسانی حقوق و دیگر محکموں میں ریفارمز کی ہیں اور ایسے انقلابی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن سے لوگوں کی زند گیوں میں بہتر آرہی ہے۔ ہم ساجد کرسٹوفر سمیت سول سوسائٹی کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ میرے نزدیک اس وقت ہمیں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے، جب ان میں انسانی حقوق کے حوالے سے آگہی پیدا ہوگئی تو ملک میں حالات بدل جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہم نے نوجوان نسل کو اپنے سیاسی مقاصد کے استعمال کیا ہے۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈنڈا اور غلیل پکڑا دی، انہیں گالم گلوچ سکھا دی جو افسوسناک ہے۔ ہماری خوبصورتی تو یہ تھی کہ ہم خود سے بڑی عمر کے افراد کو عزت دیتے تھے لیکن اب یہ ادب اور احترام ختم ہوگیا ہے۔ ہم نے انہیں بدتمیزی سکھا دی۔ اس طرح ہم نے لوگوں سے ان کا بنیادی انسانی حق’عزت‘ چھین لی۔

جب کسی کی عزت کو پامال کریں گے تو معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا۔ میرے نزدیک ہماری سیاسی، سماجی، مذہبی قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنے معاشرے کو درست سمت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں رول ماڈل بننا ہوگا۔ ہمیں معاشرے کی کردار سازی کرنا ہوگی۔ گزشتہ 5 برسوں میں معاشرے میں جو پولرائزیشن ہوئی ہے، اس نے ہماری تاریخ کو مسخ کر دیا ہے۔ آج ہم چھوٹے بڑے کی تمیز بھول چکے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم کردار تعلیمی اداروں کا بن گیا ہے۔ جب تک اکیڈیمیا اپنا کردار ادا نہیں کر ے گا، حکومت کو ریسرچ کرکے گائیڈ لائن نہیں دے گا، تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جہاں ہم سوشل امپاورمنٹ اور سول رائٹس کی بات کرتے ہیں وہاں معاشی خودمختاری بھی انتہائی اہم ہے۔

اس کے بغیر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ حکومت کی اس پر بھی توجہ ہے۔ حکومت سوشل سیفٹی نیٹ کا پروگرام لا رہی ہے، اس میں گریجوایشن ماڈل بھی لایا جائے گا کہ ہم کیسے گریجوایشن کی تعلیم دے رک انٹرپرینیور بنائیں گے۔ اقلیتیں ہمارے دل کے قریب ہیں۔ دنیا میں یہ ڈھول پیٹا جاتا ہے کہ اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ ہم اقلیتوں کے ساتھ ہیں اور مسائل دور کرنے میں ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ میری جماعت کا منشور، سیاسی ول ، حکومت کی ول اوروزیراعلیٰ پنجاب کا وژن ہے کہ ہم نے انسانی حقوق کی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ ہمیں اقلیتوں کے احساس محرومی اور احساس کمتری کو ختم کرنا ہے اور انہیں گھر کی دہلیز پر سہولیات فراہم کرنی ہیں۔ ہم اس کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں۔

ہم اسمبلی میں قانون سازی کر لیں گے لیکن جب تک قوم میں احساس ذمہ داری نہیں ہوگا، معاملات بہتر نہیں ہونگے۔ ہمیں گراس روٹ لیول پر ایسے افراد چاہئیں جو سماجی تبدیلی لائیں، ایک دوسرے کا احساس کریں۔ مغرب نے سٹیٹ اور لوگوں کے تعلق کو سمجھا اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ پینے کا صاف پانی بنیادی انسانی حق ہے لیکن فیکٹریاں پانی آلودہ کر رہی ہیں۔ دھواں چھوڑتی گاڑیاں، لاؤڈ میوزک بھی انسانی حقوق کی پامالی ہے مگر لوگوں میں اس کا احساس نہیں ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے ۔

دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتری پاکستانیوں کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم 2047ء میں ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جہاں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہو اور انہیں تمام سہولیات مل رہی ہوں۔ نفرت کے خاتمے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب ٹیسٹ بک بوڑد کے ساتھ مل کر نصاب سے نفرت انگیز مواد کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت تعلیم کے ذریعے ملک میں بہتری لانے پر کام کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب نے 5 ہزار طلبہ کو ہونہار پروگرام کے ذریعے سکالر شپ دی ہے، اس میں 30 ہزار طلبہ کو شامل کیا جائے گا۔ طلبہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

ساجد کرسٹوفر

(کنوینر ہیومن رائٹس نیٹ ورک پاکستان)

حکومت تنہا کچھ نہیں کرسکتی بلکہ سول سوسائٹی، اکیڈیمیا، میڈیا سمیت معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز مل کر ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن قرار دیا۔ اس سال کا موضوع ’’ہمارے حقوق ، ہمارا مستقبل، ابھی‘‘ ہے لہٰذا ہمیں کل کا انتظار نہیں کرنا بلکہ آج ہی کام کا آغاز کرنا ہے تاکہ بہتری لائی جاسکے۔

میں پنجاب حکومت کو انسانی حقوق کے حوالے سے اچھا کام کرنے پر سراہتا ہوں۔ حال ہی میں ہم نے محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب اور یو این ڈی پی کے ساتھ فیصل آباد میں ضلعی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کی انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے کے حوالے سے ٹریننگ کروائی۔ فیصل آباد میں جڑانوالہ واقعہ کے پیش نظر تربیت کروائی گئی۔ میرے نزدیک ہمیں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔جہاں قوانین بنانے کی ضرورت ہے وہاں قانون سازی کی جائے اور جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے اداروں اور محکموں کے درمیان روابط کو بہتر بنایا جائے۔

اقلیتوں کے لیے ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے مسائل ہیں۔ جب تک قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوگا، تب تک فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے افسران کی کپیسٹی بلڈنگ بھی کی جائے۔ سول سوسائٹی کا ملکی مسائل کے حل میں اہم کردار ہے۔ ہم حکومت کی سپورٹ کرتے ہیں۔ تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں ڈسٹرکٹ ہیومن رائٹس کمیٹیاں موجود ہیں جن میں ڈی پی او آفس، محکمہ ایجوکیشن، ہیلتھ، لیبر و دیگر محکموں اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہیں۔ گراس روٹ لیول پر انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، انہیں ان مقامی ضلعی کمیٹیوں میں ہی حل کیا جاتا ہے۔

بطور سول سوسائٹی ہم محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کے ساتھ ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ ضلعی کمیٹیوں کی کپیسٹی بلڈنگ کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرسکیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں صورتحال بہتر ہے، البتہ جہاں خامیاں موجود ہے، وہاں بہتری لائی جا رہی ہے۔ اس میں حکومت، سول سوسائٹی اور ادارے اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسائل کے حل کیلئے ہمیں من حیث القوم اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

سسٹر جینی ویو مریم پروین

(ممبر نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن)

موجودہ ملکی حالات، ہماری کامیابیوں اور ناکامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ ملک میں تعلیم و تربیت کی بہت ضرورت ہے۔افسوس ہے کہ ہم صرف کتابیں پڑھا دیتے ہیںاور تربیت پر توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم تعلیم دے رہے ہیں مگر معاشرے میں صنفی عدم مساوات، عدم برداشت، پولرائزیشن، غربت، فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ایسی تعلیم دینے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد انسانی حقوق ہوں۔ ہمیں معیاری تعلیم کی طرف جانا ہوگا جو بچوں کی زندگی میں ویلیو ایڈ کرے۔ہمارے نوجوانوں میں بہت پوٹینشل ہے۔

ہمیں ان کے اندر چھپا ہوا ٹیلنٹ اجاگر کرنا ہے، انہیں ان کی قابلیت سے روشناس کرانا ہے۔ یہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں، انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، انہوں نے ہی ملک کو آگے لے کر جانا ہے لہٰذا ہمیں ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے پاس مواقع کم ہیں جس کے باعث وہ بھٹک رہے ہیں۔

ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی چاہئیں تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو ایسا سبق دیں جو انسانیت کو بحال کرے اور انسانی حیثیت کی قدر کرے۔اس کائنات اور انسان ، مرد و عورت کی تخلیق کے ساتھ ہی انسانی قدر، حیثیت اور حقوق کا آغاز ہوگیا۔ یہ سب تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ مساوات ، برابری، رواداری جیسا سبق بھی شروع سے ہی ہمیں ملا ہے۔ ہمیں طلبہ کو تعلیمی اداروں میں اس کا درس دینا چاہیے، انہیں بنیادی انسانی حقوق سکھانا ہونگے۔

اسی طرح والدین اور اساتذہ کی میٹنگز میں بھی اس کو اجاگر کیا جائے۔ تربیت صرف تعلیمی اداروں یا اساتذہ کا کام نہیں، ہمیں والدین کو بھی انسانی حقوق کے حوالے سے بچوں کی تربیت کرنے پر زور دینا ہوگا۔ ریاست قانون بناتی ہے لیکن خاندانوں میں بھی قوانین ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو والدین اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح رہنا ہے، معاشرے میں کیسے برتاؤ کرنا ہے۔ یہ وہ قانون ہے جو سماجی تربیت کے حوالے سے ہے۔ یہ پیار، محبت، صلح، سلامتی، معافی اور رواداری کا قانون ہے، یہ خاندان سے لے کر ملک کے قانون تک نظر آنا چاہیے۔ ہمارے نوجوانوں کو ان اقدار کی تربیت دینا ہوگی۔ایک وقت تھا کہ سب مل جل کر رہتے تھے، کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا کہ کس مذہب سے تعلق ہے۔

صرف ایک ہی بات تھی کہ ہمسایہ تھا، ماں جایہ تھا۔ بدقسمتی سے دھیرے دھیرتے ہمارے خوبصورت ثقافت، رشتہ داریاں ختم ہوگئی۔ کچھ نصاب نے اور کچھ خاندانی مسائل نے تفریق پیدا کر دی۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین شامل کیلئے جائیں جو محبت، اخوت، وحدت، رواداری، امن اور دوستی کو فروغ دیں۔ سب مل کر ایک دوسرے کے تہوار منائیں اور معاشرے میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ ہم بچوں کو مساوات اور انصاف کی تعلیم دیتے ہیں، عالمی دن بھی مناتے ہیں، برابری کی بات کرتے ہیں لیکن تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت کوٹہ سسٹم ہے۔ اسے ختم کرکے سب کو برابر کیا جائے، انہیں آگے بڑھنے کے مواقع دیے جائیں، صرف 5 فیصد کوٹہ تک محدود نہ رکھا جائے۔

اس میں صوبہ، مذہب سمیت کسی قسم کی کوئی تفریق نہ رکھی جائے۔میں کیتھلک ویمن آرگنائزیشن کی نیشنل ڈائریکٹر ہوں۔ ہمارے سکلز ڈویلپمنٹ، ویمن ایمپاورمنٹ و دیگر پروگراموں میں صرف مسیحی خواتین نہیں آتی بلکہ تمام مذاہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ قومی کمیشن ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، آن لائن میٹنگز ہوئی ہیں، ہم سب اپنی اپنی سطح پر انسانی حقوق، صنفی برابری، خواتین کی تعلیم و دیگر حوالے سے بات کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں بچوں کے حوالے سے بھی قانون سازی ہوئی لیکن آج بھی گرل چائلڈ، ڈومیسٹک ورک کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ غربت ہے، ماں فیکٹری یا گھر میں کام کرتی ہے تو وہ بچی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی لہٰذا ساتھ لے کر جاتی ہے، یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اگر چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود قانون پر عملدرآمد کیا جائے تو بچیوں پر ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ 

Load Next Story