خدارا، جھوٹ کم بولیں

حکومت بھی جھوٹ کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں مگر عدالتوں میں اپنے جھوٹے مقدمات کے باعث رسوا ہو رہی ہے

m_saeedarain@hotmail.com

یوں تو پاکستان کی سیاست میں جھوٹ ایک لازمی جز بن چکا ہے اور جھوٹ بولے بغیر سیاست ناممکن ہو چکی ہے۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی اب جھوٹ کے بغیر سیاست کر ہی نہیں سکتے جب کہ ہمارے مذہب میں بھی جھوٹ بولنا گناہ قرار دیا گیا ہے مگر عام سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ مذہبی سیاسی رہنماؤں کے لیے بھی جھوٹ بولنا ان کی مجبوری بنا دیا گیا ہے۔ پہلے صرف انتخابات کے موقع پر عوام سے جھوٹ بولا جاتا تھا۔

ہر امیدوار اپنے ووٹروں کو سنہری خواب دکھاتا تھا، ان سے جھوٹ بولتا تھا، سیاسی رہنماؤں کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو عوام اور ملک کی قسمت بدل کر رکھ دے گی۔چھوٹی سیاسی پارٹؤں سے تعلق رکھنے والے اور آزادانہ الیکشن لڑنے والے امیدوار بھی اپنے ووٹروں سے ووٹ لینے کے لیے ایسے ایسے بلند و بانگ دعوے کرتے تھے جن پر عمل ان بڑی قومی سیاسی پارٹؤں کے لیے بھی ناممکن تھا جو اپنی حکومتیں بنا چکی تھیں اور ان کا اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل ممکن ہی نہیں تھا۔

ملک کے دولخت ہونے کی وجہ بھی سیاست میں جھوٹے دعوے تھے۔ 1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات اور نئی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی،کپڑا اور مکان کا انتخابی نعرہ بھی بڑا مشہور ہوا تھا اور ان دونوں رہنماؤں نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام سے بڑے بڑے جھوٹے دعوے کیے تھے جس کے نتیجے میں علیحدگی پسندی کے نعرے پر عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو صرف پنجاب و سندھ صوبوں میں واضح اکثریت حاصل کرسکے تھے مگر اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کو اس لیے کامیابی نہیں ملی تھی کہ وہاں مذہبی رجحان زیادہ تھا مگر اب نہیں رہا اور سرحد صوبہ جو اب کے پی ہے وہاں بڑی مذہبی جماعت جے ؤ آئی فروری کے الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئی کؤنکہ کے پی میں اب پی ٹی آئی کی تیسری حکومت ہے جس نے ملک کی سیاست میں سب سے زیادہ جھوٹ بولا اور پرانی سیاسی جماعتیں جھوٹ، جھوٹے دعوؤں اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہ کر سکیں اور مکمل ناکام رہیں۔

کے پی واحد صوبہ ہے جہاں 1970 کے الیکشن کے بعد پہلی بار مذہبی سیاسی جماعت جے ؤ آئی کے اچھی شہرت کے مولانا مفتی محمود وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے اور مساجد میں اجلاس منعقد کرتے تھے۔

2002 تک کے پی میں مذہبی لوگوں کی اہمیت تھی اور کے پی کے لوگ جے ؤ آئی اور جماعت اسلامی کو پسند کرتے تھے اور ان دونوں جماعتوں نے کے پی جو اس وقت صوبہ سرحد میں حکومت بھی بنائی تھی جس کا وزیر اعلیٰ جے ؤ آئی کا تھا مگر بعد میں دونوں سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا جس کے بعد 2008 میں غیر مذہبی اور سیکولر پارٹؤں پیپلز پارٹی اور اے این پی نے وہاں حکومت بنائی۔ اسی دور میں سرحد کو خیبرپختون خوا کا نام ملا اور 2013 میں جے ؤ آئی اور جماعت اسلامی کا ووٹ تقسیم ہوا جس سے پی ٹی آئی کی پہلی حکومت بنی جس کے چیئرمین کے جھوٹ اور جھوٹے وعدے متاثرکن تھے اور کے پی والے پی ٹی آئی کے سحر میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اب وہاں پی ٹی آئی کی تیسری حکومت ہے۔

اب سیاست میں جھوٹوں کا مقابلہ ہے اور جھوٹ پھیلانے میں پی ٹی آئی کا اپنا اور حامی سوشل میڈیا جھوٹ پھیلانے میں سب سے بازی لے گیا ہے اور پی ٹی آئی کے حامؤں کو بھی اب نہ صرف جھوٹ پسند ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولنے والے کا ہی پروگرام پسند کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت امریکا میں موجود پی ٹی آئی حکومت میں اہم عہدوں پر رہنے کے بعد فرار ہونے والا وی لاگر ہے جس نے سب سے پہلے یہ جھوٹی خبر پھیلائی کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں ایک سو افراد ہلاک ہوئے ہیں اور شرم ناک بات یہ ہے کہ یہ گمراہ کن اور اشتعال پھیلانے والا یہ وی لاگ آٹھ لاکھ سے زائد پی ٹی آئی والوں نے دیکھا۔

26 نومبر کے آپریشن پر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی وکلا میں جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقابلہ ہوا۔ اچھی شہرت کے حامل ان وکلا حضرات میں کسی نے مرنے والوں کی تعداد آٹھ، کسی نے پچاس، کسی نے ایک سو اور پی پی دور کے گورنر اور پی ٹی آئی ٹکٹ پر پہلی بار لاہور سے منتخب 80 سالہ سینئر وکیل اور سیاستدان سب پر بازی لے گئے جنھوں نے ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا کہ 26 نومبر کے آپریشن میں 278 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 190 کارکن زخمی ہوئے ہیں۔

غیر جانبدار صحافی، اینکر اور وی لاگر حیران ہیں کہ ہلاکتوں کے یہ متضاد دعوے پی ٹی آئی کے نامور وکلا نے کیے جس سے اگر اشتعال پھیل جاتا تو کیا ہوتا؟ وکلا حضرات کے لیے تو یہ مشہور ہے کہ وہ عدالتوں میں اپنے دلائل سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور اب تو پی ٹی آئی کی قیادت بھی وکلا حضرات کے پاس ہے جو بانی کی عدالتوں میں موثر وکالت کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں خان کے خلاف حکومت کے بنائے گئے مقدمات عدالتوں میں خارج ہو چکے ہیں کؤنکہ حکومت بھی جھوٹ کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں مگر عدالتوں میں اپنے جھوٹے مقدمات کے باعث رسوا ہو رہی ہے مگر کوئی فریق جھوٹ پھیلانے سے باز نہیں آ رہا۔ دونوں طرف کے جھوٹوں پر قوم حیران ہے اور یہی کہہ سکتی ہے کہ خدارا جھوٹ کم بولیں۔

Load Next Story