حزب اختلاف اور متشدد سیاست

بدقسمتی سے ہم اچھی اور مثبت سیاسی و جمہوری حزب اختلاف کی سیاست سے محروم رہے ہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی مجموعی سیاسی تاریخ میں حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست کے تناظر میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی آنکھ مچولی کے کھیل کو ہمیشہ سے بالادستی رہی ہے ۔ بدقسمتی سے ہم اچھی اور مثبت سیاسی و جمہوری حزب اختلاف کی سیاست سے محروم رہے ہیں تو اسی طرح اچھی حکومت کی محرومی نے بھی ہماری جمہوری سیاست ،اقدار اور اخلاقی اصولوں کو بھی پامال کیا ہے ۔یہاں حکومت کا کام اپنے سیاسی مخالفین کو دؤار سے لگانا ، ان کے خلاف انتقامی سیاست کرنا ، ان پر ملک دشمنی وغداری سے جڑے الزامات یا کردار کشی سمیت اپنے سیاسی مخالفین کے سیاسی وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔

اسی طرح حزب اختلاف کی سیاست کو بھی دیکھیں تو ان کی سیاسی مخالفت ایشوز سے زیادہ حکومتی شخصی یا جماعتی مخالفت کے گرد ہی گھومتی ہے ۔ اپوزیشن نے حکومت کو ہمیشہ تسلیم نہیں کیا، جعلی مینڈیٹ کا نعرہ لگایا اور حکومت کے خلاف گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کو ترجیح دی ہے اور یہی کام آج کی اپوزیشن کررہی ہے ۔اسی سیاست کی بنیاد پر حکومت کا کام اپنی حکومت کو بچانا اور حزب اختلاف کا کام حکومت کو گرانا یا کمزور کرنا ہوتا ہے۔اس کھیل میں حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں ہی اپنے مفاد کو بنیاد بنا کر پس پردہ قوتوں کی حمایت حاصل کرکے بھی جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں ۔عمومی طور پر حزب اختلاف کی سیاست کو ایک متبادل حکومت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کا کام اپنی شیڈو کابینہ کی بنیاد پر حکومتی امور کی کڑی نگرانی کرنا ، اس کی نشاندہی کرنا ، اصلاحات کو پیش کرنا یا ایک متبادل خاکہ پیش کرنا ہوتا ہے ۔

پاکستان کی سیاسی کہانی کی تاریخ مختلف ہے اور اس کا بیشتر حصہ سیاسی سازشوں کے گرد ہی گھومتا ہے ۔ اس کھیل میں حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں نے سیاسی ، جمہوری ، آئینی ،اخلاقی، قانونی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ذاتیات اور مفادات پر مبنی سیاست کو ہی اصل طاقت دی ہے ۔

اس وقت بھی جو سیاسی بحران ہے اس کو اگر گہرائی سے جاکر دیکھا جائے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود سے انکاری کی بنیاد پر ہمارا جمہوری یا سیاسی مقدمہ کمزور ہوگیا ہے ۔اس میں قصور کو دیکھیں تو کوئی ایک فریق نہیں بلکہ مجموعی طور پر وہ تمام جماعتیں جو حکومت یا حزب اختلاف کا حصہ ماضی یا حال میں رہی ہیں سب ہی کو اس کی ذمے داری لینی چاہیے یا یہ ذمے داری ان پر ڈالی جانی چاہیے۔ ٹکراؤ یا بداعتمادی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے انکاری کا عمل ان ہی قوتوں کو فائدہ دیتا ہے جو سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں اپنی بالادستی چاہتے ہیں ۔

اس وقت کا سیاسی کھیل جو ملک میں جاری ہے اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ محض جمہوری نظام نہیں بلکہ ایک کنٹرولڈ ہائبرڈ نظام ہے جہاں سیاسی قوتوں کے مقابلے میں اور بھی فریق طاقت رکھتے ہیں ۔اس وقت حزب اختلاف کے طور پر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی متشدد احتجاجی تحریک کو ہم سب نمایاں طور پر دیکھ بھی سکتے ہیں یا محسوس بھی کرسکتے ہیں ۔پی ٹی آئی کی مجموعی سیاست پر یا سیاسی حکمت عملؤں پر تنقید کی جاسکتی ہے مگر ہم اس کے سیاسی وجود کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی سیاست کس حد تک جمہوری ہے ۔

حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں میں سے بہت سی جماعتیں یا افراد پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں ۔صوبائی اسمبلؤں سے پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت اور قرارداد پیش ہورہی ہیں ۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر نو مئی اور چھبیس نومبر کے متشدد مظاہروں اور گھیراؤ جلاؤ کے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں اور متعدد جیلوں میں بند ہیں جب کہ کئی مفرور اور اشتہاری ہیں اور خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کی پروٹیکشن میں رہ رہے ہیں۔ اسی لیے پی ٹی آئی پنجاب اور کراچی میں کھل کر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔

آج کا حکمران طبقہ جو کچھ کررہا ہے یا جو حزب اختلاف جو نئے سیاسی معیارات قائم کررہی ہے،اس کا جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ آج جو اقتدار میں ہیں ، وہ کل حزب اختلاف ہوں گے ، پھر انھیں بھی انھی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جو پی ٹی آئی والے کررہے ہیں، ادھر جو کچھ حکومت کے خلاف پی ٹی آئی نے بطور حزب اختلاف کیا ہے لیکن وہ اقتدار میں آجاتی ہے تو اس کی حزب اختلاف بھی وہی کچھ کرے گی جو پی ٹی آئی آج کررہی ہے۔

مکافات عمل یا ردعمل کی سیاست کی خرابی یہ ہی ہوتی ہے کہ ہم جب بھی اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں تو سب سے پہلے ردعمل کی سیاست کو بنیاد بنا کر سیاسی مخالفین سے یا تو بدلہ لیا جاتا ہے یا غصہ اور تعصب کی بنیاد پر ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کل پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو اس نے جس انداز میں ریاستی و حکومتی طاقت کی بنیاد پر اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا چاہا یا ان کو دؤار سے لگا کر ان کے سیاسی وجود کو ختم کرنا چاہا ، آج یقینی طور پر خود اسے بھی ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے اور یہ عمل مستقبل میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی سیاست کی مزید بدنما شکل کو نمایاں کرے گا ۔

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست و حکومت کی طاقت سے سیاسی مخالفین کودبانے یا ان کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کا کھیل کبھی کسی کو کوئی کامیابی نہیں دے سکا ۔کؤنکہ غیر سیاسی حکمت عملؤں سے نہ صرف سیاست اور جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ ریاست کو بھی اپنی ساکھ کی بنیاد پر اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ ماضی میں طاقت کے یہ تمام تجربات غلط ثابت ہوئے اور آج بھی کیا جانے والا تجربہ کامیابی کو ممکن نہیں بناسکے گا۔ہمیں اصولی طور پر بطور حکومت یا حزب اختلاف مل بیٹھ کر جمہوری اصول طے کرنا چاہیے اور یہ بھی طے ہو کہ جو بھی سیاسی ، آئینی و قانونی دائرہ کار میں رہ کر اپنی سیاسی مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔

ان کو یہ جمہوری حق حاصل ہونا چاہیے۔ حزب اختلاف کو بھی ادراک ہونا چاہیے کہ اس کا جمہوری مینڈیٹ پارلیمان سے شروع ہوکر پارلیمان میں ختم ہوتا ہے۔ سڑکوں پر آکر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت دنگے کرنا، گھیراؤ جلاؤ کرنا، صوبائی اور لسانی تعصب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ، شرپسندی تو ہوسکتی ہے، اسے جمہوری سیاست قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جہاں حکومت کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے وہیں حزب اختلاف کوبھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کو بھی جو سیاسی معیارات قائم کرنے ہیں یا حکمت عملی اختیار کرنی ہے وہ ریاست اور آئین کے دائرہ کار میں ہو۔

حکومت ہو یا حزب اختلاف کی پرتشدد سیاست کی نہ تو حمایت ہونی چاہیے اور نہ ہی اس کی کسی بھی سطح پر پزیرائی کی جائے۔ اس لیے لوگوںکو سیاسی عمل سے لاتعلق یا سیاسی بیزاری یا سیاسی نفرت یا دشمنی کی طرف مت دھکیلا جائے اور سب کے سیاسی حقوق کو تسلیم کرکے ہی ہم سیاست اور جمہوریت کو مضبوط بناسکتے ہیں ۔

Load Next Story